میرے ملک پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جب سے نئی
حکومت آئی ہے عجیب قسم کی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔تبدیلی کا نعرہ اور
کہیں کام کرے یا نہ کرے البتہ دین اسلام پہ ضرور اثر انداز ہونے کی کوشش کی
جا رہی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر ملک میں اقتدار حاصل کرنے والے لوگ یہ
کیوں بھول گئے کہ جس عوام نے ان کو ووٹ دے کر اقتدار میں آنے کا حق دیا ہے
وہی عوام حق چھیننے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔ خان صاحب کی حکومت سے پہلے تک
تو میرے ملک میں بھارت سے دوستی کے چرچے تھے کافر ممالک سے تعلق داریاں تھی
لیکن افسوس اب تو انتہا ہو گئی اب یہودیوں سے دوستیوں کے مشورے دیے جا رہے
ہیں۔ عوام کو ایک مثبت امید دلا کر اقتدار حاصل کرنے والے دینی مدارس کو
یونیورسٹیوں کی تعلیمات کے برابر درجہ دینے کی باتیں کرنے والوں کا موجودہ
صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو بہت افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ تبدیلی
اور تو کہیں کام کرے یا نہ کرے لیکن دین اسلام پر آنچ ضرور آرہی ہے۔ کبھی
ملک پاکستان میں قادیانیوں کو اعلی عہدے دینے کی پلاننگ تو کبھی گستاخ رسولﷺ
کو باعزت رہا کرنے میں مدد کی گئی اور کبھی اس گستاخہ کو اپنی بہن کہا گیا۔
عجیب دوراہے پہ لا کھڑا میرے ملک کے آئین کو بے ضمیر لوگوں نے۔
ابھی حال ہی میں دیکھیے محترمہ عاصمہ حدید صاحبہ کا بیان فرماتی ہے کہ اللہ
کے نبیﷺ اور حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ دشمن کو دوست بنا لو محترمہ آپ کو یہ
تو یاد رہا لیکن کاش آپ یہ بھی کہیں پڑھ لیتیں کہ کس طرح کہ دشمنوں کو دوست
بنانے کا کہا ہے۔محترمہ آپ نے کہا کہ میرے پاس زیادہ علم تو نہیں لیکن جتنا
علم ہے اس کے مطابق بات کر رہی ہوں محترمہ آپ کے پاس علم کی کمی بھی ہے اور
اس کے ساتھ آپ کا علم ناقص بھی ہے۔ محترمہ ایک بات تو بتائیے اگر اللہ کے
نبیﷺ نے ہر دشمن کے ساتھ دوستی کا کہا ہے تو پھر اللہ نے سورة توبہ میں کن
لوگوں کو مخاطب کیا ہے اگر حضرت علیؓ نے دوستی کا کہا ہے تو سورہ انفال میں
کن لوگوں کے ساتھ قتال کا کہا ہے. محترمہ عاصمہ حدید صاحبہ اگر دشمنوں سے
دوستی ہی کرنی تھی اسلام میں جنگیں کیوں ہوئیں۔ اگر دشمن سے دوستی کا کہا
گیا ہے تو میرے پیارے نبیﷺ کے چچا امیر حمزہ کو قتل کرنے والے کون تھے اگر
دشمن سے دوستی ہی کرنی تھی تو پھر میرے پیارے نبیﷺ کے دندان مبارک کیوں
شہید ہو گئے۔ محترمہ اگر یہودیوں سے دوستیاں ہی کرنی تھی تو قرآن پاک کی اس
آیت میں پھر اللہ نے کن سے دوستی سے منع فرمایا محترمہ اس آیت مبارکہ کا
مفہوم بھی سمجھ لیجئے اللہ پاک سورة (المائدہ) میں ارشاد فرماتا ہے
ترجمہ : "اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست و مددگار نہ بناؤ، وہ
آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جس نے انہیں اپنا دوست بنایا
پس ان ہی میں سے ہے"
محترمہ آپ نے کہا ہے کہ ہم مسلمان یہودیوں کے لیے دعا کرتے ہیں درود
ابراہیمی پڑھتے ہیں تو اس میں ابراہیم کی آل کا ذکر آتا ہے یعنی آل ابرہیم
آپ کے کہنے کا مطلب ہے یہودی آل ابراہیم سے ہیں آپ کے دلائل یہودیوں کی
حمایت میں سن کے اسمبلی میں موجود کسی مسلمان کی ایمانی غیرت بیدار نہیں ہو
سکی کہ وہ آپ کو سرزنش کر سکتا۔
آپ آل ابرہیم کہتی ہے آج کے یہودیوں کو، محترمہ کاش کہ تھوڑا سا اسلامی
تاریخ کا مطالعہ کرتیں تو آپ ایسی بات کرنے سے پہلے سو بار سوچتیں اگر کسی
مشرک کے حق میں دعا قبول ہوتی تو اللہ اپنے پیارے نبی ابراہیمؑ کو اپنے باپ
آزر کے لیے دعا کرنے سے منع نہ فرماتا، اگر مشرکوں کے حق میں دعائیں شرف
قبولیت رکھتیں تو نبی نوحؑ کو اپنے بیٹے کے لیے دعا کرنے سے اللہ منع نہ
فرماتا، محترمہ نہایت توجہ طلب بات اگر دشمنوں کے حق میں دعائیں قبول ہوتی
تو آقاﷺ کے پیچھے نمازیں پڑھنے والے مسلمان منافق کے لیے دعا کرنے سے اللہ
منع نہ فرماتا۔ آپ کونسی دعاؤں کی بات کرتی ہے ہم تو ہر نماز میں یہودیوں
کے لیے(غیر المغضوب علیہم والضالین) کہتے ہیں محترمہ آپ جن یہودیوں کی
حمایت میں بول رہی ہیں اگر وہ اسلام کے اتنے خیر خواہ ہوتے تو کبھی
مسلمانوں کو یوں جانوروں کی طرح ذبح نہ کرتے اگر وہ اتنے ہی اسلام کے خیر
خواہ ہوتے تو غرقد نامی درخت لگا کر یوں اپنا بچاؤ نہ کرتے بلکہ اپنی اصلاح
کرتے۔
محترمہ مجھے تو حیرت اس انسان پر ہے جس نے آپ کو یہ تقریر کم اور یہودیوں
کا حمایتی خط لکھ کر دیا۔
نبی پاکﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بات کرتی ہے محترمہ کتنا عمل کیا آپ نے
میرے پیارے نبیﷺ کا شجرہ نسب ہی بدل کے رکھ دیا صد افسوس محترمہ آپ کا کہنا
ہے کہ اللہ کے نبیﷺ "بنی اسرائیل "سے تھے، محترمہ میرے نبیﷺ "بنی اسرائیل"
سے نہیں تھے۔ بلکہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو کہ
یہودیوں عیسائیوں کی تو دشمنی کی وجہ ہی یہی تھی کہ آخری نبیﷺ "بنی اسرائیل
سے کیوں نہیں آیا۔ محترمہ اپنی معلومات درست کر لیں کہ میرے نبیﷺ تو "بنی
اسماعیل" سے تھے۔محترمہ آپ نے تو نبیﷺ کی سنت داڑھی کو بھی بھری محفل میں
تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کیا یہی محبت نبوی کا تقاضہ ہے ؟ موجودہ حکومت سے
گزارش ہے کہ تبدیلی دشمنوں سے دوستیاں کر کے نہیں آئے گی۔ مانا کہ موجودہ
دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہر طرف جدید ٹیکنالوجی نے اپنا آپ منوایا ہے اس
ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے والے بھی یہود ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو سب سے
زیادہ اسلام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ محترم خان صاحب تبدیلی اور
کامیابی کیلئے آج سے پندرہ سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔ ملک پاکستان کو مدینہ
کی ریاست بنانے کے لیے مدینے والے کی تعلیمات کو اپنانا پڑے گا۔ زبانی
باتیں کرنے سے نہیں عمل کرنے سے تبدیلی آئے گی۔ بقول اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے ۔۔۔ |