سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد عالمی
برادری سعودی حکومت کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھرا رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا
بھر میں سعودی عرب کا امیج کافی حد تک متاثر ہوا ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ جمال
خاشقجی قتل کے حوالے سے جب ابتدائی طور پر خبریں سامنے آئیں تو سعودی
بادشاہ محمد بن سلمان اور ان کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اسے سعودی عرب کے
خلاف پروپیگنڈا قرار دیا جس کے بعد امریکہ سمیت بہت سے ممالک نے ترکی سے
جمال خاشقجی کے قتل کے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ترکی نے تمام تر
ثبوت فراہم کر دیئے تو سعودی حکومت نے مسلسل جھوٹ کے بعد بالاخر یہ قبول کر
لیا کہ جمال خاشقجی قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کے قتل کا حکم سعودی حکومت کے
کسی عہدے دار نے نہیں دیا۔سعودی حکومت کے مسلسل پینترے بدلنے کے بعد یہ بات
تو واضح ہو گئی کہ صحافی کا ترکی میں سعودی عرب کے سفارت خانےمیں قتل بعض
سعودی مقتدر شخصیات کے کہنے پر ہوا ہے لیکن پھر بھی بہت سے ممالک نے سعودی
عرب کے بیان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر صحافی کے قتل
میں کوئی سعودی شخصیت شاہی شخصیت شامل نہیں ہے تو پھر معاملے کی ٹھوس
تحقیقات کی جائیں اور جمال خاشقجی کے قاتلوں کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے
اس حوالے سے سعودی عرب میں جو تحقیقات ہوئیں وہ بالکل بھی غیرجانبدارانہ
نہیں تھیں بلکہ شاہی خاندان کے لوگوں کو بچانے کے لئے کچھ لوگوں کا نام لے
کر ان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترکی
سمیت دنیا کے بڑے اداروں نے تحقیقات کیں تومعلوم ہوا کہ جمال خاشقجی کے قتل
کا حکم خود محمد بن سلمان نے دیا تھا حتی سی آئی اے نے بھی اپنی تحقیقات کے
بعد یہی بتایا کہ محمد بن سلمان نے ہی اس آپریشن کا حکم دیا تھا۔اس ساری
صورت حال کے بعد دنیا یہ توقع کر رہی تھی کہ ماورائے عدالت ایک نامور اور
بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی کے قتل کے بعد امریکہ سعودی عرب پر انصاف کے
تقاضے پورے کرنے پر زور دے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اس لئے کہ اس طرح کی
صورت حال میں امریکی حکام بلیک میلنگ کے زریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے
زور ڈالتے ہیں اس وقت جب ساری دنیا کا سعودی عرب پر دباؤ ہے امریکہ نے
اندرون خانہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو قائم
رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس پر مختلف ممالک کی طرف سے امریکہ کی طرف
انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں لیکن امریکہ اپنے مذموم اہداف کے حصول کے لئِے
محمد بن سلمان کا پشت پناہ بن کر کھڑا ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں جب جمال
خاشقجی کا قتل پوری دنیا میں زیر بحث ہے محمد بن سلمان اپنے دوست اسرائیل
کی طرف دیکھ رہے ہیں محمد بن سلمان نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم سے مدد
کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان حالات میں اسرائیل غزا پر بڑا حملہ
کر دے تو دنیا کی توجہ جمال خاشقجی کے قضیے سے ہٹ سکتی ہے اسرائیل اس حوالے
سے محمد بن سلمان کی کس حد تک مدد کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ
بات واضح ہے کہ محمد بن سلمان نے اپنے خاندان سے لے کر پورے عالم اسلام کی
عزت کو داؤ پر لگا دیا ہے جمال خاشقجی کا قتل یقینا سانحہ ہے لیکن شاید
دنیا کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ سعودی جیلوں میں جمال خاشقجی سے بہت بڑی
شخصیات قید ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے امام کعبہ شیخ صالح آل طالب
سمیت ہزاروں جید علما پر سعودی جیلوں میں ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں
لیکن محمد بن سلمان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہےجبکہ شاہ سلمان بھی اس
حوالے سے کچھ نہیں کر پا رہے اس لئے کہ ان کو بھی محمد بن سلمان نے بے
اختیار کر دیا ہے دنیا گواہ ہے کہ امریکہ نے آج تک کسی بھی دوست کے ساتھ
بھلا نہیں کیا آج محمد بن سلمان اقتدار کی خواہش میں امریکی حکام کے اشاروں
پر ناچ رہے ہیں لیکن ان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ان کے ان اقدامات کی
وجہ سے امت مسلمہ کو کنتے بڑے نقصان ہو رہے ہیں مسلمانوں کو اب محمد بن
سلمان کے غیر اسلامی اور غیر انسانی اقدامات کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی
ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور خدانخواستہ یہ سلسلہ جاری رہا تو میرے منہ میں
خاک امریکہ اور اسرائیل ارض مقدس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اللہ
تعالی محمد بن سلمان کو ہدایت دے اور امت مسلمہ کو ایسا دن نہ دیکھنا
پڑے۔آمین ثم آمین۔ |