ہمارا ملک فی الحال ایک ایسے نقار خانہ میں تبدیل ہوچکا
ہے جس میں ہرکوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا ہے لیکن کوئی کسی کی نہیں سنتا
۔ ایسا لگتا ہے سارے لوگ بہرے ہوگئے ہیں۔ اگر کچھ الفاظ کانوں میں پڑ بھی
جاتے ہیں تو ان کے معنیٰ اور مفہوم سمجھ میں نہیں آتے ۔ حقیقت تو یہ کہ
ساری آوازیں بے معنی ہوچکی ہیں ۔ پہلے توجھوٹ سن سن کر دوسروں کے اوپر سے
اعتبار اٹھ گیا اوراب کذب گوئی نےہر فردِ بشر کو خود اپنی ذات کے تئیں بے
اعتمادی کا شکار کردیا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف الہ باد کے بی جے پی رکن
پارلیمان شیاما چرن گپتا نے برملا کیا کہ ریاست سے مرکز تک بی جے پی کی
حکومت کے باوجود کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا۔ برسراِ قتدار جماعت کے
رکن پارلیمان کی یہ حال ہو تو عام آدمی کی کسمپرسی کا اندازہ لگانا مشکل
نہیں ہے۔
شیاما چرن گپتا نے اپنی مایوسی اور ناراضگی کا اظہارکسی نجی گفتگو میں نہیں
بلکہ بھری محفل میں عوام کے سامنے کیا ۔ وہ بولے ’’دہلی سے لکھنؤ تک ایک
ہی نظام چل رہا ہے۔ سننے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ملک یتیم
ہو گیا ہے۔‘‘ یتیم کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ دوسرے بچوں کی مانند اس کی
دادرسی نہیں ہوتی اس لیے وہ اپنی محرومی پر فریاد کناں ہوتا ہے۔ کسی رکن
پارلیمان کی یتیمی ملک و قوم کے لیے تشویشناک ہے ۔ اسی احساس نے مہاراشٹر
میں گوندیا کے سابق بی جے پی رکن پارلیمان نانابھاو پاٹولے کو استعفیٰ دینے
پر مجبور کیا تھا ۔ کسی زمانے میں وہ کانگریس میں تھے لیکن کسانوں کے تئیں
حکومت کے رویہ سے ناراض ہو کر وہ بی جے پی میں چلے گئے۔این سی پی کے طاقتور
رہنما پرفل پٹیل کو ہرا کر ایوان پارلیمان میں بھی پہنچ گئے۔
بی جے پی کے اندر پاٹولے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جو شیاما چرن گپتا
کے ساتھ ہورہا ۔ وہ جب بھی کسانوں کے مسائل اٹھاتے تھے انہیں نظر انداز
کردیا جاتا تھایہاں تک کہ جب وزیراعظم کے سامنے انہوں نےیہ معاملہ اٹھایا
تب بھی انہیں خاموش کردیا گیا۔ اس توہین کے خلاف بغاوت کرکے انہوں نے بی جے
پی سے استعفیٰ دے دیا۔ پاٹولے کو گھر واپسی کے بعد ٹکٹ نہیں ملنے کا ذرہ
برابر افسوس نہیں ہوا۔ ضمنی انتخاب میں انہوں نے این سی پی کے امیدوار
مدھوکر ککڑے کو کامیاب کرکے بی جے پی سے اپنی توہین کا بدلہ لیا ۔ پاٹولے
نے تو اپنی جان چھڑا لی مگر گپتا جی ہنوز اس عذاب میں مبتلا ہیں اسی لیے
قنوج ضلع میں منعقدہ ایک تقریب میں تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے بولے ’’کوئی
میری سننے والا نہیں تو پھر تمہاری کون سنے گا؟ ہر طرف ایک ہی نظام ہے۔ سب
اپنے میں لگے ہوئےہیں۔ کوئی کسی کی نہیں سن رہا۔‘‘ شیاما چرن گپتا کی مانند
بی جے پی کے رکن پارلیمان ورون گاندھی بھی اپنی حکومت کی کارکردگی پر کئی
سوالات اٹھاچکے ہیں لیکن پھر وہی بات کے سنتا کون ہے؟
سلطانپور سے رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر مینکا گاندھی کے بیٹے ورون گاندھی
نے کہا تھا ’’اتر پردیش کے اسکولوں میں تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ہر
طرح کی تقریب کا انعقاد وہاں کیا جاتا ہے، مذہبی اور شادی تقریبات وہاں
ہوتی ہیں، تدفین کے بعد تمام رسومات اسکول کے احاطہ میں ادا کی جاتی ہیں،
بچے وہاں کرکٹ کھیلتے ہیں اور سیاسی رہنما وہاں آکر تقریریں کرتے
ہیں‘‘۔ورون گاندھی کے مطابق ملک میں تین لاکھ کروڑ روپے سالانہ تعلیم کے
لئے مختص کیا جاتا ہے مگر اس رقم کا ۸۹ فیصد صرف عمارت تعمیر پر خرچ ہوجاتا
ہے جس کا بنیادی طور پر تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بیان میں بین
السطور یہ بات کہی گئی ہے کہ سرکاری خزانے کا بڑا حصہ ٹھیکیداروں کی جیب
میں چلا جاتا ہے۔ ظاہر ہے بدعنوانی کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے مدارس کی
عمارت ان سڑکوں کی مانند ہوتی ہے جو ہر سال ٹوٹتی ہیں اور ہرسال بنائی جاتی
ہیں ۔ یہ بناو اور بگاڑ کا کھیل مسلسل جاری رہتا ہے جس سے سیاستدانوں اور
نوکر شاہوں کے وارے نیارے ہوتے رہتے ہیں ۔ورون گاندھی کے ان سنجیدہ سوالات
کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی ۔ ذرائع ابلاغ نےپوری طرح نظر انداز کردیا اور
حکومت تو خیر بہری ہوچکی ہے۔
اپنے چچا زاد بھائی راہل کی طرح ورون کسانوں کے مسائل پر بولے ’’آج ملک کے
۴۰ فیصد کسان کھیتی کی زمین ٹھیکہ پر لیتے ہیں جوکہ غیر قانونی ہے ۔ اس لئے
ٹھیکہ پر لینے والوں کو حکومت سے نہ کوئی مدد ملتی اور نہ ہی انہیں قرض
ملتا ہے بلکہ فصل خراب ہوجائے تو معاوضہ بھی نہیں ملتا ۔ گزشتہ دس سالوں کے
اندر کسانوں کی لاگت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کسان پریشان
ہیں اور اکیلے ودربھ میں ۱۷ ہزارکسان خودکشی کر چکے ہیں‘‘۔ ورون گاندھی کا
سب سے تیز حملہ ارکان پارلیمان کی تنخواہ میں اضافہ پر تشویش کا اظہار تھا
۔ انہوں نے کہا تھا ’’گزشتہ دس سالوں میں ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں
سات مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے ۔ وہایوان میں صرف ہاتھ اٹھانے سے بڑھ جاتی ہے
‘‘۔ ورون نے ایوان پارلیمان میں جب اس کی مخالفت کی تو وزیر اعظم کے دفتر
سے فون آ گیا ’’آپ ہماری پریشانیاں کیوں بڑھا رہے ہو‘‘۔ ممکن ہے اس طرح
کا فون شیاما چرن گپتا کو بھی آیا ہو لیکن سنتا کون ہے؟ اور سن بھی لے تو
ڈرتا کون ہے؟
اتر پردیش میں آج کل ناموں کی تبدیلی کا غلغلہ ہے ۔ مغل سرائے سے شروع
ہونے والی ایک بے معنیٰ تحریک الہ باد سے ہوتی ہوئی فیض آباد پہنچ چکی ہے۔
یوگی جی نے فیض آباد کا محض نام بدلنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اب وہ
ایودھیا میں گوشت اور شراب پر بھی پابندی لگانے جارہے ہیں۔ یوگی کے ان
فیصلوں کی مخالفت مسلمان تو نہیں کریں گے اس لیے کہ شراب ان کی شریعت میں
پہلے ہی حرام ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ ’بھینس کے آگے بین بجانے‘
سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی شخص میں اگر عقل وفہم کی معمولی سی رمق ہوتو
اس کو معقول بات سمجھائی جاسکتی ہے لیکن بالکل گھامڑ کندۂ تراش کا کو
سمجھانا بجھانا بے سود ہوتا ہے۔ سادھو سنتوں کا معاملہ مسلمانوں سے مختلف
ہے اس لیے وہ یوگی جی کو نہیں چھوڑیں گے ۔ شراب تو ان کے سارے دیوتاوں کا
پسندیدہ مشروب ہے۔مریادہ پرشوتم رام اگر سبزی خور ہوتے تو ہرن کا شکار کرنے
کے لیے نہیں جاتے ۔ ایسے میں نہ راون سیتا کا اغواء بھی نہیں کرپاتا اور
رامائن ہی نہیں ہوتی۔ یوگی جی میں اگر ہمت ہے تو چرس گانجہ پر بھی پابندی
لگاکر سختی سے نافذ کرکے دکھائیں ۔ اس پابندی کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ
سادھو ایودھیا خالی کردیں گے اس لیے کہ منشیات کے بغیر تو ان کا گذارہ ہی
ممکن نہیں ہے۔
ناموں کی تبدیلی پربھارتیہ جنتا پارٹی کی حامی بھارتیہ سماج پارٹی کے صدر
اور اتر پردیش حکومت میں کابینی وزیر اوم پر کاش راج بھر نے کہا کہ
ہندوستان گنگاجمنی تہذیب کی علامت ہے ۔ جتنا خرچ نام بدلنے پر ہورہا ہے
،اتنا خرچ کرکے تعلیم ،روزگار، صحت اور غریبوں کی فلاح و بہبود میں تیزی
لائی جاتی تو ملک کے حالات بدلتے۔ یوگی سرکار آئی تو کام بدلنے کے لیے تھی
لیکن اس میں ناکامی کے بعد نام بدلنے لگ گئی۔ یوگی جی اپنے شدت پسند حامیوں
کو خوش کرنے کے لیےمسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے لازم
ہے کہ مسلمان ان کی اشتعال انگیزی پر کان دھر یں اور احتجاج کریں ۔
مسلمانوں نے طے کررکھا ہے کہ وہ اس دام میں نہیں آئیں گے۔ یوگی جی پریشان
ہیں کہ مسلمان کیوں ان کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ امت چپ چاپ اپنے
کاموں میں لگی ہوئی ہے وہ یوگی جی کی سن کر نہیں دیتی ۔بہروں کے اس دیس میں
وہ بھی خاموشی کی صفت سے بہرہ ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے جب مغل سرائے اور فیض آباد کا نام بدلاگیا تو اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے اوم پرکاش راج بھر نے کہا تھا کہ ’’ انُ کا کہنا ہے ان جگہوں کے نام
مغلوں کے آنے کے بعد بدلے گئے تھے ‘‘۔ دراصل راج بھر نہیں جانتے مسلمانوں
نے شہروں کے نام بدلنے کا ناٹک نہیں کیا بلکہ نئے شہر بسائے اور ان کا
نیانام رکھا مثلاً پریاگ راج کے پاس الہ باد بسایا جبکہ پریاگ راج اب بھی
موجود ہے۔ ایودھیا کے پاس فیض آباد بسایا لیکن ایودھیا کو نہیں چھیڑا وہ
جوں کا توں ہے ۔ مسلمانوں کو نہ تو کوئی خوف تھا اور نہ انہیں گھٹیا سیاست
کرنی تھی۔ راج بھر نے یہ بھی کہا کہ ’’ بی جے پی کے پاس ۳بڑے مسلم رہنما
ہیں پہلے ان کا نام بدلا جانا چاہیے‘‘۔ راج بھر کو معلوم ہونا چاہیے کہ بی
جے پی کے صدر شاہ کا نام بھی فارسی میں اس لیے اس کو راجہ یا رانا میں بدل
دیا جانا چاہیے۔
راج بھر نے الزام لگایا کہ حکومت شہروں کا نام بدل کر پسماندہ اورمظلوموں
کو ان کے مطالبات سے بھٹکانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کشادہ دلی کے ساتھ اعتراف
کیا کہ مسلمانوں نے جیسی چیزیں ہمیں دی ہیں ویسی کسی نے بھی نہیں دی ۔راج
بھر نےسوال کیا کہ ’’کیا ہمیں جی ٹی روڈ کو پھینک دینا چاہیے ؟ تاج محل
اورلال قلعہ کو کس نے بنوایا ؟ ‘‘ حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے لیے جی ٹی
روڈ جیسی کوئی سڑک بنا نا تو دور اس کی دیکھ ریکھ بھی محال ہے ۔ یہ لوگ تاج
محل کی نگہداشت کے لیے سپریم کورٹ سے پھٹکار کھا چکے ہیں ۔ لال قلعہ پر بڑی
شان سے پرچم لہرانے کے لیے تو جاتے ہیں لیکن اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک
نجی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیاگیا۔ ایسے لوگوں سے تاریخی عمارت کی توقع ہی فضول
ہے۔ وہ کوئی شہر کیا بسائیں گے جو اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی کی تعمیر و
ترقی کے لیے جاپان کے آگے جھولی پسارنے سے نہیں شرماتے۔ ایسے لوگ جو کوئی
تعمیری کام نہیں کرسکتے وہ صرف شور مچا سکتے ہیں لیکن ان کی چیخ پکار کو
سنتا کون ہے؟ اس بے ہنگم شور نے پورے معاشرے کو بہرہ کردیا ہے۔گپتا جی
نےٹھیک کہا کوئی کسی کی نہیں سنتا ۔ ملک یتیم ہوگیا ہے۔ |