اﷲ میاں کی گائے۔۔!

حساس معاملات پر لکھنا ایسا ہی ہے جیسے جلتے توے پر ہاتھ رکھنا۔ ہر شریف انسان اپنی ہوم منسٹر سے ضروری نہیں کہ ڈرتا ہو، بلکہ ڈر کے علاوہ عزت بھی کرتا ہے۔ (پاکستان میں ڈرنے کو عزت کا نام بھی دیا جاتا ہے)۔ اس لیے میں بھی ڈر کر عزت کا نام دے رہا ہوں۔ یہ وہ والی عزت نہیں جو سر بازار نیلام ہوتی ہے، بلکہ یہ وہ عزت ہے جو روزانہ دیر سے آنے والے ناخداؤں کو ملتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض احباب اتفاق نہ کریں، لیکن معاملہ جمہوریت یا پارلیمان کا نہیں ہے کہ اکثریت کی رائے کو مانا جائے گا۔

جس طرح میں عرض کررہا تھا کہ حساس معاملات پر جو احباب لکھتے ہیں، وہ کسی نہ کسی مشکل کا ضرور شکار ہوجاتے ہیں۔ اب اگر ان کے تعلقات ’’اچھے‘‘ ہوں تو برا وقت آنے تک بچے رہتے ہیں۔ ویسے اچھا وقت کب آتا ہے، کب چلا جاتا ہے، اس کا علم رکھنا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کسی مرد کی کامیابی میں ایک خاتون کا ہاتھ ہونے کی بات کی جاتی ہے تو مرد کی بربادی میں دو خواتین کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ (یعنی دو کشتیوں کا سوار بہت کم ہی کامیاب ہوتا ہے)۔ مغربی میڈیا آج کل پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی نہ ملنے کا ذکر بڑی شدومد سے کرتا ہے۔ جیسے پورے پاکستان کا درد ان کے دل میں ہے، تاہم یہ درست ہے کہ ہم اظہار رائے کے اس اسٹیج پر نہیں، جہاں عوام اور اداروں کو احساس ہو کہ میڈیا بالغ اور باشعور ہوگیا ہے۔ بعض میڈیا ہاؤسز مغربی میڈیا، سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی خبروں کی صداقت کے کسی معیار کو جانچے بغیر ’’موضوع‘‘ بنانے کے عادی ہوگئے ہیں۔

میڈیا ہاؤسز و سوشل میڈیا میں بڑی عجیب صورت حال ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں جتنی کرپشن ہوئی، اس میں صرف میاں نواز شریف کی فیملی کا ہاتھ ہے، یعنی شریف برادران کی کرپشن نکال دی جائے تو ملک میں کبھی کسی نے ’’بدعنوانی‘‘ ہی نہیں کی۔ اسی طرح نیا ٹرینڈ بھی چل نکلا ہے کہ پاکستان میں 5 ہزار بے نامی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ ماحول ایسا بنادیا گیا کہ جتنے بھی بے نامی اکاؤنٹس ہیں، وہ ایک گروپ کے ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی مخصوص جماعتیں ہیں۔

امریکا میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات میں کبھی طلباء کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی نائٹ کلب میں منچلے عوام کو۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان سے امریکا کا فاصلہ سات سمندر پار ہے، ورنہ وہ بھی افغانستان اور بھارت کی طرح ہر حملے کی ذمے داری پاکستان پر عائد کردیتا۔ اب صدر ٹرمپ سے بندہ کیا پوچھے، سپرپاور ملک کا صدر اپنے ہی ملک کے نیوز چینل کے صحافی کو بولنے کی اجازت نہیں دیتا، مائیک چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے اور وائٹ ہاؤس میں داخلہ بند کرادیا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں کوئی لاپتا ہوگیا تو سارا الزام حساس اداروں پر لگانا ’’فیشن‘‘ بن گیا ہے۔ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں عوام کو پاکستانی ریاستی اداروں کے خلاف ورغلانے کی منظم سازش کچھ عرصے سے شدت پکڑ چکی ہے۔ قوم پرست جماعتوں کے سنجیدہ و پڑھے لکھے مقتدر رہنما بھی اس دھارے میں بہہ گئے۔ قوم پرستوں جماعت کے اکابرین نے جب دیکھا کہ ان کے کئی اہم عہدے دار اپنی حدود عبور کرکے بہت آگے بڑھ چکے ہیں تو ان کی پارٹی رکنیت ہی ختم کردی کہ ’’جاؤ جو چاہے کرو لیکن ہماری جماعت کا پلیٹ فارم استعمال نہ کرو‘‘ جب پلوں سے پانی گزر چکا تو قوم پرست جماعت کے مرکزی عہدے داران ہوش میں آرہے یا لائے جارہے ہیں۔

کچھ ایسا ہی صوبہ بلوچستان میں ہورہا ہے۔ نادان دوست اتنا آگے بڑھ گئے کہ بھارت اور افغانستان سے بھاری فنڈنگ کے بل بوتے پر دنیا بھر میں بنیادی حقوق کی آزادی کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کررہے ہیں۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوتا رہا اور جو کچھ ہورہا ہے۔ کیا اس بے امنی میں نام نہاد قوم پرست جماعتیں شامل نہیں؟ انہوں نے نام نہاد قوم پرستی کے نام پر کیا، اس کی گونج تو اب پارلیمنٹ میں بھی سنائی دیتی ہے۔

مولانا سمیع الحق کا معاملہ ہو یا ایس پی طاہر خان داوڑ کے قتل کے پوشیدہ محرکات۔ سوشل میڈیا میں دھماچوکڑیاں ناپختہ اذہان پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ ذاتی طور پر اس کے خوف ناک نتائج کے تصور سے ہی ڈر لگتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ان دو اہم ترین معاملات کو اتنا گمبھیر بنادیا ہے اور اس قدر مبالغہ آرائیوں کے ساتھ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ میڈیا سوشلسٹ کے صرف ایک سوال کا جواب پاکستان کے وزیراعظم (جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلم دان بھی ہے) نہیں دے پارہے کہ اسلام آباد سیف سٹی سے ننگرہار افغانستان میں ایس پی طاہر خان داوڑ کو کوئی لے کر گیا یا انہیں اغوا کیا یا پھر وہ خود اپنی مرضی سے گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بڑا گنجلک سوال ہے، جس کا جواب عوام چاہتے ہیں۔

کراچی پریس کلب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مبینہ چھاپہ اور پھر سیاسی مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے معزز صحافی کی گرفتاری کے بعد پریس کلب بڑے غصے میں ہے، لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کی صحافی برادری تو چار دہائیوں سے خوف و ہراس کا شکار ہے۔ پھر ’’کون‘‘ اسے دباؤ میں لانے کی کوشش کرے گا۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ذاتی رائے ہے کہ صحافت سے وابستہ نوجوان نسل کو مزید اور سینئر صحافیوں کو ماضی کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی پریس کلب کو تو پہلے ہی سیاسی، مذہبی، لسانی جماعتوں سمیت کئی کالعدم تنظیموں اور گینگ وار گروپوں کی جانب سے اتنا ’’دباؤ‘‘ ڈالا جاچکا ہے کہ اس تاریخی کلب کو ’’اﷲ میاں کی گائے‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ویسے یہ خطاب پاکستانی عوام کے لیے مختص ہے)۔ کے پی سی کی رکنیت سازی کے معاملے پر ایک دھڑا قانونی راستے پر جارہا ہے، مسلسل احتجاج کررہا ہے اور مخصوص سیاسی مذہبی جماعت کو مورد الزام ٹھہرارہا ہے چونکہ معاملہ متنازع ہے، لہٰذا مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔

عدلیہ کی حکومتی کارکردگی پر برہمی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تجربہ کار ٹیم کے ناتجربہ کار کپتان سے ریاستی اداروں کو مایوسی ہوئی ہے۔ پھر ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام تبدیل کیا جارہا ہے۔ ایک نئے سیاسی سیٹ اپ کا تجربہ فی الحال ناکامی کا شکار ہے، اس کی وجہ کھوٹے سکّے ہیں جو کپتان کے اردگرد کشتی اقتدار میں بڑے انہماک سے سوراخ کرنے میں لگے ہیں۔ کپتان خود تو تیراکی کے ماہر ہیں، ڈوبنے سے بچ جائیں گے لیکن کشتی ڈوبنے کے آثار نمایاں نظر آنے لگے ہیں، جس طرح اتحادی جماعت نے پنجاب حکومت کے حوالے سے ویڈیو لیک کی۔ وہ موضوع بحث رہا کہ اتحادی جماعتوں میں اختلافات کی خبروں کو وائرل کرنے کا نیا طریق کار ہمیشہ تیر بہ ہدف ثابت ہوگا یا نہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.