اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے
گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدلوہاب صاحب کی تازہ بنی
مرقد پر میرے سامنے کھڑا ارسلان دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ، ارد گرد
سے بے خبر اس کی انکھوں سے آنسو ں بہہ کر اس کے چہرے کو تر کر چکے اور شائد
اپنے دل کا دکھ ہلکا کرنے کے بعد اس نے جیب سے ٹشو نکالا چہرہ صاف کیا کہ
ایک نوجوان نے اس نے ہاتھ ملایا پھر دونوں گلے لگے اور نوجوان کے سینے سے
ایک ْ آہ ْ نکلی۔ میرے تصور میں ایک پرانا منظر تازہ ہوگیا۔
ہمارے سامنے 5 مئی 1980 کا اخبار رکھا تھا۔ سب سے بڑی خبر یوگوسلاویہ کے
صدر مارشل ٹیٹو کی وفات کی تھی۔ ہمارا موضوع مارشل ٹیٹو کی یو گو سلاویہ کے
لیے ان کی خدمات تھیں۔ ہم میں خاموش بیٹھے ہمارے ایک تبلیغی جماعت کے دوست
نے پوچھا کہ کیا مرنے ولا مسلمان تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ غیر مسلم
تھا تو ان کی زبان سے ایک ْ آہ ْ نکلی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ْ آہیں ْ
دوسرے کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں مگر میں اس کا شاہد ہوں کہ
ارسلان نامی نوجوان جو ہماری اس محفل میں موجود تھا ، کی زندگی کا رخ بدلنے
والی یہی ْ آہ ْ بنی تھی ۔ایک ارسلان ہی نہیں تبلیغی جماعت نے بے شمار
لوگوں کی زندگیوں کے رخ کو خاموشی سے بدلا ہے۔
مسلمانوں کی پستی پر آہ و زاری کرنا ، ان کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی
کرنا، کامیابی کی دوڑمیں پچھڑ جانے کی وجوہات کا احساس دلانا اور اس کام
میں اپنا تن من دھن لگا دینا تبلیغی جماعت کا شعار ہے۔ اور جماعت میں اس
شعار کو زندہ رکھنے کی ترغیب دینے میں حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ
کا لازوال کردار ہے۔ وہ 21 سال کے نوجوان تھے جب نظام الدین میں انھوں نے
مولانا الیاس ؒ کے مسلمانوں کی روحانی پستی کے درد کو اپنا درد بنا لیا اور
زندگی کے سارے ماہ و سال اسی درد کے دوا بن جانے کی نذر کر دیے۔وہ مولانا
یوسف کاندہلوی اور مولانا انعام الحسن جیسے دین کے مخلصین کے با اعتماد
ساتھی رہے۔پاکستان میں تبلیغ کی بنیاد رکھنے والے بزرگوں میں شامل تھے اور
محمد شفیع قریشی ؒ ( 1903-1971 ) اور حاجی محمد بشیر ؒ ( 1919-1992 ) کے
بعد پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ وہ نظام الدین میں قائم
عالمی شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ اور دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والی
شخصیات میں ان کا منفرد مقام تھا۔
مسلمانوں اور اسلام کے تعلق پر تبلیغ کی تعلیمات کی روشنی میں حفیظ کا یہ
شعر حسب حال ہے
بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں
حاجی عبدلوہاب صاحب ْ رات کو سوتے وقت موت سرہانے رکھ کر سوتے او ر صبح اٹھ
کر موت کو سامنے رکھتے ْ انھوں نے ایک اجتماع کے دوران اپنی آخری تقریر میں
کہا تھا ْ توبہ بہترین عمل ہے ْ ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے
اور ان کے بیانات اور تقریروں پر عمل کر کے مسلمان دنیا اور آخرت میں
سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا (احمد ندیم قاسمی)
|