آج ہر سو ظلم وجبرکا دیو اپنی تما م تروحشت و
بربریت کے ساتھ عالمگیر سطح پرکمزور وناتواں انسانوں کو اپنے جبڑوں میں
دبائے بڑی بے رحمی کے ساتھ چبائے جا رہا ہے۔رحم نام کی کوئی بھی چیز اب
دنیا میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی ۔انسان انسانیت سے عاری ہو چکا ہے ۔حق
و باطل کا میعار ختم ہو چکا ہے ۔نیکی بدی اور بدی نیکی بن چکی ہے ۔انسانی
اصول اور قدریں مٹ چکی ہیں ۔ابلیسی نظام اپنی کامل شکل کے ساتھ نہ صرف یہ
کہ نافذ ہو اہے بلکہ عملی حد تک اس نے خیر کی جگہ لے لی ہے ۔آ ج کے حالات
اور زمانہ جاہلیت کے حالات میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہا ہے بلکہ بعض
چیزوں میں آج کے حالات زمانہ جاہلیت کے حالات پر غالب آچکے ہیں اور سرسری
نظر میں ہی معلوم ہو تا ہے کہ ہم جنہیں جاہل کہتے ہیں وہ کئی وجوہ سے ہمارے
مقابلے میں عالم تھے ۔جس زمانے میں نبی کریم ﷺ کی ولادت ا ور پھر بعثت ہوئی
اس زمانے میں اہل عرب کے لیے سب سے محبوب مشغلہ جنگ تھا مشغلہ ہی نہیں بلکہ
جنگ آمدنی کے ذرائع میں سب سے اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔غربت و افلاس کے
مارے انسان کی نگاہیں دوسروں کے مال پر لگی ہوئی تھیں اس سے جب بھی موقعہ
ملتا تھا توایک لمحہ گنوائے بغیر وہ اس پر جھپٹ پڑتا تھا ۔
بت پرستی انتہائی خوفناک شکل اختیار کر چکی تھی ۔بزرگوں کو راضی کر کے
خداتک پہنچنے کوہی واحد ذریعہ خیال کیا جاتا تھا ۔اﷲ تعالیٰ کے ساتھ براہ
راست تعلق قائم کرنے کو ناممکن بلکہ گناہ خیال کیا جاتا تھا ۔کعبۃ اﷲ بتوں
سے بھرا پڑا تھا اسکا طواف تک ننگے بدنوں میں کیا جاتا تھا ۔ زنا اور شراب
کے گناہ اور ناجائز ہونے کا تصور مٹ چکا تھا ۔سودی کاروبار اپنے عروج پر
پہنچ چکا تھا ۔ایک مرتبہ قرض لینا گویا اپنے آپ کو غلام بنانے کے ہم پلہ
معلوم ہورہا تھا اس سب سے بڑھکر یہ کہ ’’معصوم بچیوں ‘‘کو جنم لیتے ہی
دفنانے کا ملعون کام بڑے فخر کے ساتھ کیا جاتا تھا گو انسان درندگی کی آخری
حد تک پہنچ چکا تھا اور انسان ماقبل کے تمام حالات کے مقابلے میں عملاََ
حیوان بن چکا تھا ۔جہاں ایک طرف سر زمین عرب گناہوں کی تپش سے جل رہی تھی
وہی دوسری جانب عالمی سطح کے حالات اس سے بھی بدتر تھے یورپ تاریکی میں
ڈوبا ہوا تھا ۔افریقہ میں انسان اور جانور ایک ہی کردار کے دو رُخ خیال کئے
جاتے تھے ۔چین میں انسانیت کا تصور صرف خوردن اور خفتن تک محدود رہ گیا
تھا۔ہندوستان لاتعداد خداوؤں کا ملک بنا ہوا تھا یہاں ہر بالادست انسان
عملاََ خدا بن بیٹھا تھااور کمزور اپنی قسمت سے نالاں اس سے راضی کرنے میں
جھٹ گیا تھا حاکم کے متعلق خدائی تصورات قائم ہو چکے تھے۔
انہی حالات میں اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو’’روشن چراغ ‘‘بنا
کر مبعوث فرما کرتباہ شدہ انسانیت پر احسان عظیم فرمایا ،بچپن سے لیکر
جوانی تک اور عالم شباب سے لیکر اعلان نبوت تک عرب کے لوگ بالعموم اور مکہ
معظمہ کے لوگ بالخصوص آپ کے کردار اورامانت و دیانت کے معترف تھے کہ اعلان
نبوت سنتے ہی یکایک آپ کے دشمن بن گئے اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر
قوموں نے ان کی طرف آنے والے پیغمبروں کے ساتھ ایسا ہی رویۂ اپنایا ہے ،نہ
معلوم انسانوں کے اندر یہ کونسی کمزوری ہے کہ وہ اپنے خیر خواہوں کو
پہچاننے میں یا تو دھوکہ کھاتے ہیں یا اتنی دیر کردیتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی
دی ہوئی مہلت اختتام پذیر ہونے کو ہوتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ؐ
کو جن خصائص حمیدہ سے نوازا تھا انہی کی بدولت عرب کے عالم اور جاہل ان کے
اردگرد جمع ہوگئے تھے اور اس نبوی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک ایسی اُمت
وجود میں آگئی جسکی ماقبل میں کوئی نظیر موجود نہیں ہے اور مابعد میں بھی
ایسا ناممکن ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺنے انسانیت کو جس دولت سے مالا مال کیا اس میں سر فہرست ہے
مخلوق کواپنے خالق سے ملاناہے حالانکہ علم کو جو قدرو منزلت اسلام سے حاصل
ہوگئی کسی اور نے ایسا نہیں دیا حضورؐ پر پہلی وحی ہی ’’اقراء‘‘یعنی پڑھوکے
لفظ سے ہوئی ۔شراب ،زنا،سوداور تمام تر معاشرتی خرابیوں سے بھرے اس سماج کو
اس حد تک لے آئے کہ کائنات کی ساری مخلوق حیرت میں پڑ گئی کہ کیا یہ وہی
انسان ہے جو کل انسانیت کا دشمن بن گیا تھا اور آج اس کا محافظ ۔۔۔حضور ﷺ
تفریق انسانیت کے سخت مخالف تھے یہ الگ بات ہے کہ آج حضور ﷺ کا اُمتی
انتہائی حقیر مفادات کی تکمیل کے خاطرخود ہی اُمت کو بانٹنے اور تقسیم کرنے
میں لذت محسوس کر رہا ہے ۔نبوت سے پہلے ایک موقعہ پر سارے مکہ کے لوگ ایک
معمولی سے مسئلے پر ایک دوسرے سے لڑجھگڑنے کے لیے تیار ہوگئے کوئی بھی
قبیلہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہورہا تھا۔ جنگ کے
بادل ہر طرف منڈلانے لگے اور ہر طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں،خوف و
دہشت کا ماحول ہر متنفس کو اندر ہی اندر موم کی مانند پگھلا رہا تھا اور
کسی کو یہ خون ریز جنگ رک جانے کی کوئی امید ہی نہیں تھی ۔مسئلہ کوئی
ناقابل حل بھی نہیں تھا البتہ جب خود غرضی اور جاہ طلبی کا ابلیس انسان پر
سوار ہو جاتا ہے تو معمولی سے معمولی مسئلہ حل ہونا بھی ناممکن ہو جاتا
ہے۔مکہ معظمہ کے لوگوں نے کعبۃ اﷲ کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور
تعمیرنو شروع ہو گئی کہ کعبہ کی تعمیر کے بیچ’’ سنگ اسود ‘‘کونصب کرنے کا
سوال پیدا ہوا کہ یہ مبارک کام کونسا قبیلہ اور قبیلہ کی کو ن سی شاخ کا
کونسا شخص انجام دے گا۔ہر ایک قبیلے کی خواہش یہی تھی کہ یہ سعادت اس کے
حصے میں آجائے ۔پھر مسئلہ اس سے بھی بڑھکر یہ تھا کہ قبیلہ کا کون سا شخص
اس سے انجام دیدے ہر ایک اپنی ہی سوچ رہا تھا اور کسی بھی بات پر سرداران
مکہ متفق نہیں ہو رہے تھے اچانک ایک قابل حل تجویز سامنے آگئی ۔وہ یہ کہ جو
کل کعبے میں داخل ہو گا وہی اس پتھر کو نصب کر دے گا ۔صبح کو معلوم ہوا کہ
کعبے میں داخل ہونے والا پہلا شخص ’’محسن انسانیت جناب محمد عربی ﷺ‘‘ ہیں ۔
اب حضور ﷺ کی باری آئی تو آپ نے فرمایا ایک چادر لاؤ چادرلائی گئی پھر
فرمایا ہر قبیلے کا سردار میرے پاس آجاؤ ہر سردار سامنے آیا پھر فرمایا کہ
’’سنگ اسود‘‘کو اُٹھا کر چادر پر رکھدو چادر پر رکھدی گئی پھر فرمایا ہر
سردار چادر کے ایک ایک کونے کو پکڑے ہر ایک نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا اب
چادر کے سہارے سنگ اسود کو اُٹھا کر کعبے کی دیوار تک پہنچا دو ہر ایک نے
ایسا ہی کیا یہاں پر حضور ﷺ نے ’’حجر اسود‘‘ کو اپنے دست مبارک سے اُٹھا کر
کعبے کی دیوار پر رکھدیا اور اس طرح حضور ﷺنے ’’حجر اسود‘‘کو ’’حرب اسود‘‘
میں تبدیل ہونے سے بچا لیا اور سارے مکے میں خوشی کی لہر دوڈنے لگی ۔جہاں
ایک طرف حضور ﷺ کے اس مدبرانہ طریقہ کار سے ہر طرف آپ کی فہم و فراست اور
عقل وشعور کا اعتراف ہونے لگا وہی اس بات کی بھی شہرت ہوگئی کہ محمدبن
عبداﷲﷺکی وساطت سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے ۔
حضور ﷺ نے جنگوں میں پہل کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیا۔ اسلام وانسانیت
کی پہلی جنگ ’’بدر‘‘ ہو یاپھر’’ اُحد‘‘دونوں مواقع پر پہل مشرکین نے کی
۔دونوں جنگیں مسلمانوں پر مسلط کیں گئیں اور مسلمانوں نے دونوں موقعوں پر
اسکا دندان شکن جواب دیدیا ۔پھر جب حضورﷺ کو غلبہ کاملہ عطا ہوا تو آپ نے
اپنے شدید ترین جانی دشمنوں کو بھی معاف کردیا ،جنہوں نے آپ کو ایذائیں
دینے میں کوئی کمی نہیں رکھی تھیں انھیں بھی معاف کردیا اور تو اور جن کے
قتل کے فرامین جاری ہو چکے تھے وہ جب دربار رحمت میں پہنچے تو آپ ؐنے انہیں
بھی نہ صرف معاف کردیا بلکہ مختلف نوازشات سے نوازتے ہوئے اسلام میں داخل
کر کے ’’رحمۃ اللعالمین ‘‘ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ۔چار ہجری کا وہ مشہور
واقعہ کس طر ح اسلامی تاریخ بھلاسکتی ہے جب جانثاران نبویؐ کی تعداد بہت ہی
کم تھی ابو براء کلابی نامی ایک شخص اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے دربار
رحمت ؐ میں یوں ملتجی ہوا کہ اے اﷲ کے رسول ؐ ہماری قوم دین سے ناواقف ہے
انھیں دین کی تعلیم سکھانے کے لیے چند صحابہ کو ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں
آپ نے ستر صحابہ کو اس قبیلے کے ساتھ روانہ فرمایا ان صحابہ کی خصوصیت یہ
تھی کہ یہ سبھی اصحاب صفہ میں سے تھے یعنی علوم نبوی کے اصل ترجمان ،جب یہ
طالبان علوم نبوی کا مظلوم قافلہ ایک گھاٹی میں پہنچا تو قبیلہ کے لوگوں نے
ان بے سروسامان صحابہ پر ہلہ بول دیا اور سارے کے سارے صحابہ کو شہید کر
ڈالا سوائے عمروؓ بن امیہ کے ۔عمرو ؓبن امیہ مدینہ کی طرف واپس روانہ ہوئے
تو راستے میں قبیلہ کلاب کے دو شخص ملے آپ نے دونوں کو قتل کر ڈالا،یہ
دونوں اصحاب صفہ کی شہادت میں ملوث نہیں تھے ۔عمروؓجب مدینہ پہنچے تو ہر
طرف صف ماتم بچھی ہوئی تھی ستر صحابہ ؓکی مظلومانہ شہادت اور وہ بھی
ابتدائی وقت میں جب مسلمان بہت کم اور کمزور تھے مگر حضورﷺ نے اس موقعہ پر
بھی ’’نبی رحمتؐ‘‘ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ۔آپ نے عمروؓ کو تنبیہہ فرماتے
ہوئے اﷲ تعالیٰ سے فریاد کی الٰہی عمروؓ نے جو قتل ناحق کیا اس کی سزا مجھے
نہ دینا کیونکہ میں اس سے بالکل بے خبر ہوں ۔ہندہ نامی عورت نے جنگ احد میں
آپ کے چچا حضرت حمزہؓکا کلیجہ نکال کر چبایا فتح مکہ کے موقعہ پر جب اس کے
ایمان قبول کرنے کی باری آئی تو آپ نے اسکا بھی ایمان قبول فرماتے ہوئے
دامن رحمت میں جگہ دیدی ۔
آج کی ظلم و جبر سے بھری پڑی دنیا میں جہاں کہیں بھی نگاہ دوڑائے تو معلوم
ہو گا کہ ہر طرف وقت کے حکمرانوں نے انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ
لیا ہے کل کی غلامی کے متعلق یورپ اور عرب کے دانشور رقمطراز ہیں وہ جہالت
کا زمانہ تھالکھے پڑھے لوگ نہ ہونے کے برابر موجود تھے ،علم سکڑ چکا تھا
اور جہالت نے اپنے پر پھیلا دئے تھے ،لہذا اسی وجہ سے انسان انسان کو غلام
بنا رہاتھاجبکہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے افغانستان
،عراق،فلسطین،چیچنیا ،برما ،صومالیہ،شام و عراق اور کشمیر میں ہوئے قتل عام
میں موجودہ دور کے لکھے پڑھے بڑے بڑے ڈگری یافتہ لوگ براہ راست ملوث ہیں گو
یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس سے علم کہا جارہا وہ علم نہیں روزگار کمانے کا ایک
اچھا ذریعہ ہے وہ علم ہی کوئی اور ہے جس سے انسان کے اندر ایسی انسانیت
نمایاں ہو جاتی ہے جواس سے انسانیت کامحافظ بنا دیتی ہے اور وقت نے ثابت کر
دیا ہے کہ وہ علوم صرف پیغمبروں ہی کی وساطت سے انسانوں کو ملے ہیں اور
آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اس علم کو کامل شکل میں پیش کر کے انسانیت کے لیے
واحد ضمانت کے طور پر پیش کر دیا ہے ۔
جہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نبی رحمت ﷺ کی ذات اقدس ہی وہ ذات ہے جن کے
طفیل انسانوں کو ’’انسانیت ‘‘اپنے حقیقی روپ میں دیکھنے کا موقع ملا مگر
وہی یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ آج کا مسلمان اعمال کے اعتبار سے خود
اپنے دعوے پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ۔دعویٰ تو ہمارا بہت بلند و بالا ہے
مگر ہمارے اعمال سے اس کی تصدیق نہیں ہو پاتی ہے کہ ہم عملاََ اس دعوے کو
بصدقِ دل قبول کر چکے ہیں اس لیے کہ آ ج مسلمان سے ہی مسلمان محفوظ نہیں ہے
چہ جائیکہ غیر اقوام؟؟؟آج مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹتا ہے جس کے نبیﷺ نے
کفار کو ایک ہی لڑی میں پرو کر اسلام کی دولت سے ایک دوسرے کا بھائی بنا
دیا تھا ،جس کے نبیﷺ نے مکہ میں چھڑنی والی خونریز جنگ کو بحسن وخوبی روک
دیا تھا اور پھر مسلمان کی جان اور مال کو مسلمان پر حرام کردیا تھا مگر آج
مسلمان مسلمان ہی کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے ،عالم اسلام میں جہاں
کہیں بھی نگاہ ڈالئے اگر مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ جنگ میں مصروف نہیں ہیں
تو وہ پاکستان کے مسلمانوں کی طرح ایک دوسرے سے ہی لڑ تے جھگڑتے نظر آتے
ہیں یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جو اُمت مسلمہ کے لیے ایک نئے چنلینج طور پر
سامنے آچکا ہے اس لیے کہ آج دونوں طرف کے مسلمان اپنے آپ کو حق پر اور
دوسرے کو بر باطل خیال کرتے ہیں اور بسااوقات یہ لڑائی جھگڑے صرف مسلکی ،
فکری یا تنظیمی اختلافات ہوتے ہیں جن کی نہ صرف اسلام میں گنجائش ہے بلکہ
اگر مثبت انداز میں سمجھا جائے اور سمجھایا جائے تو بقول کسے رحمت بھی ہے
لہذا آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمان دعوؤں اور نعروں کے بجائے عملی
طور پر اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا ثبوت دے اور عملی انداز میں دنیا کو
یہ پیغام جائے کہ ہم نہ صرف امن کے داعی پیغمبرﷺ کے پیروکار ہیں بلکہ ہم
امن کے ضامن بھی اسی طرح ہیں جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے کبھی ہوا کرتے
تھے ۔
|