جشن میلاد منائیں اور آسانیاں بتائیں

جشن میلادمنائیں اور آسانیاں بتائیں

اللہ رب العالمین کے فضل و کرم ‘ رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی ؐ کی ولادت پاک کی خوشیاں بارہ ربیع الاول کو منا رہے ہیں ‘ ایک کلمہ گو کی سعادت کا شکر تا قیامت سجدے میں رہ کر ادا کریں تو حق شکر ادا نہیں ہوتا ہے ‘ آپ ؐ نے بھوک ‘ پیاس ‘ تکالیف اور دُکھ درد میں اپنے لیے رب سے کچھ نہیں مانگا ‘ اپنی اُمت کیلئے رحمتوں ‘ برکات اور بخشش کی دعائیں فرمائیں ‘ اپنا حسن کردار سنت سے ساری انسانیت خصوصاً اُمت کیلئے فلاح کا راستہ بتایا نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ سب عبادات اور نیک کاموں کی رب اور اس کے رسول ؐ کو ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے خود اُمتی کی صحت و صفائی ‘ بہتری اور فلاح کے مقاصد کی عملی راہ ہموار کر کے دی تو نیکیوں کے اجراء عطاء کرنے کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد تمام ایسے اعمال فلاح انسانیت کا ثمر بنے گے کو بھی جاری برکت کا فیض کمال بنا دیا ہے رحیم و کریم رب اور رحمت للعالمین کے نام و شان پر سو جانیں بھی قربان ہو جائیں پھر بھی شکر ادا کرنے کا فرض ادا نہیں ہوتا ہے کیسے ادا ہو ‘ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ مہاجر انصار کا عمل ایثار وعمل کی مثالیں بھی قائم کر دیں ‘ ہر ہر بات اور مثال کو صرف زبانی نہیں بلکہ عمل سے راہ فلاح بنایا یعنی خلق خدا کی خدمت کو عبادات الٰہی کے درجہ پر فائز فرما دیا مگر کیا اُمت کی قیادتیں اور اُمتی خود بھی باعمل ہیں ‘ اس کا آج کے دور میں جواب نفی میں ملتا ہے ‘ عرب والے تو عربی جانتے ہیں ‘ انکا زوال ملوکیت بنا ہوا ہے مگر ہم مشرق والے عربی نہ جاننے کے باوجود خصوصاً ملک پاکستان کے عوام اللہ رسول کے نام لیواء ہو کر مسائل مشکلات کی دلدل میں کیوں پھنسے چلے آ رہے ہیں ‘ اس کا احساس کرتے ہوئے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ‘ یہ فریضہ صرف قیادتوں پر ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہر بندہ بندی پر ہوتا ہے یہ احکام الٰہی قرآن و سنت کو سمجھنے سمجھانے سیکھنے سکھانے کی آسانیاں پیدا کرنے کے ایک چڑیا کی طرح آگ غرور کو بجھانے کیلئے پانی کا خطرہ چونچ میں ہونے جیسی کوشش کا حصہ ڈال کر ممکن ہو گا یہ حکومت ‘ قیادتوں ‘ اداروں ‘ علماء ‘ اساتذہ سمیت سب علم معلومات رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے وہ خلق کو بتائیں نماز کے فرض ‘ فجر دو ‘ ظہر چار ‘ عصر چار ‘ مغرب تین ‘ عشاء چار رکعات کا حساب ہو گا ‘ روزہ محض بھوکا رہنا نہیں ‘ بھوک پیاس والوں کا احساس کرتے ہوئے ان کے معاون کردار بننا ہے ‘ زکوٰۃ کیلئے رزق حلال ضروری ہے ‘ جس کا مقصد معاشی باہمواری کا تدارک ہے ‘ سنت نوافل رحمتوں کی بارش ہے جیسے آپ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ اچھا انسان بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اللہ رسول ستر ماؤں کے جذبے سے زیادہ آپ کی اچھائی آسانیوں کیلئے کریم مہربان ہیں ‘ کلام الٰہی کو پڑھنا ثو اب اور سمجھنا راحت زندگی ہے جس کے لیے اس کا ترجمعہ اور آسان عام فہم میں تفسیر کا اہتمام و تربیت کا آغاز کرنا ہو گا یہ کام حکومتوں اور قیادتوں سمیت علماء ‘ اساتذہ کا ہے مگر خود ہر اُمتی کا فرض بھی ہے ‘ وہ خود بھی اس کے لیے کچھ لمحے نکال کر کوشش کرے اور اس میں اسباب سے محروم ایک دوست پڑوسی جاننے والے کو شامل کر لے اس کے بغیر ایک دِن یا ایک محفل میں شریک ہو کر محبت کا اظہار کرنا یقیناًبڑی سعادت ہے مگر اس کی خوشبو اور ثمر ‘ عمل سیرت رسول کو سمجھنے اور اس پر خود چلے بغیر ممکن نہیں ہے ‘ آج کے حالات میں میرے سمیت غالب اکثریت کی سیرت نبوی کے حوالہ سے اندھے بہرے گونگے حیسی کیفیت ہے ۔ایسے میں جس میں نومولود بچے کو پہلے دودھ پھر نرم غذائیں دی جاتی ہیں ایسی طرح قرآن و سیرت نبوی کی تعلیمات سے ان کی سمجھ اور صلاحیت کے مطابق ان کی زبان میں سیکھایا جائے ۔ اللہ رب العزت ہمیں دوسروں کا زرہ بھر حق مارنے ‘ جھوٹ ‘ بغض ‘ منافقت اور اور بے عمل زندگی کے رنگوں سے نجات کی توفیق عطاء فرمائے میرے آپ سب کے بزرگوں ‘ اولادوں ‘ تعلق داروں کیلئے رحمت و بخشش کی راہ دکھائے آمین ثمہ آمین ۔
ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
کا سہ ذات ہوں تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا تو کجا من کجا

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 132057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.