انتخابی بادلوں نےسیاسی افق پر قوس قزح کے نے نت نئے رنگ
بکھیر دیئے ہیں۔آسمانِ گیتی پر رافیل جنگی جہاز راہل کے لیے منزل مقصود کا
رہبر قطب تارہ بن کر نمودار ہوگیا ہے۔ راہل اور رافیل کے درمیان ایک خط
مستقیم کھنچ گیا ہے۔ اس کی بدولت راہل کی تقدیر کا ستارہ چودھویں کے چاند
کی مانند چمکنے لگا ہےاور کمل کے پھول کی روشنی ماند پڑنے لگی ہے۔ ایوان
پارلیمان کے اجلاس میں رافیل پر بحث کے دوران اس روشن لکیر نے دائرہ کی شکل
اختیار کرکے سارے ارکان کو اپنے حصار میں لے لیا ۔ راہل گاندھی اس کامیابی
پر خوش ہوکر وزیر اعظم سےلپٹ گئے ۔ اس موقع پر مودی جی کی حالت ’نہ جائے
ماندن نہ پائے رفتن‘ کی سی ہوگئی۔ ممبئی کے منا بھائی اس کیفیت کو ’کہا بھی
نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ کہتےہیں۔ چہار جانب سے ہونے والے رافیل کی
بمباری نے بی جے پی کی جو درگت بنائی اس پر غلام بھیک نیرنگ کا یہ شعر صادق
آتاہے ؎
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
رافیل کے چکرویوہ سے نکلنے کے لیے سنگھ پریوار نے بی جے پی کو رام مندر کا
دھنش بان( تیرکمان) تھما دیا تاکہ راہل کے مرکز اور رافیل کے محیط کادائرہ
مثلث بن سکے۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس مثلث کی ایک راس پر مسلمان اور دوسرے پر
کانگریس ہو۔ عدلیہ کو تیسری راس پر کھڑا کرکے سیاسی دلدل میں کمل
کھلایاجائے لیکن اس سے پہلے کہ اس میں کامیابی ہوتی رافیل کے جنگی طیارے
گھن گرج کے ساتھ عدالت عظمیٰ میں داخل ہوگئے اوروہاں سماعت کا آغاز ہوگیا
۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن رافیل لڑاکا جہازوں نے سپریم کورٹ سے اڑان بھری
راجستھان میں یکے بعد دیگرےکئی سیاسی دھماکے ہوئے۔ اس طرح راہل ، رافیل اور
رام کا مثلث راجستھان کے اضافہ سے ’را‘کا مربع بن گیا جسے کانگریسی دونوں
ہاتھ سے مزہ لے کر چاٹنے لگے ۔ راہل نے اپنے ٹویٹ سے بمباری کرکے بی جے پی
کے ہوش اڑ ادیئے ۔اسنے لکھا ’’سپریم کورٹ میں مودی جی نے اپنی چوری تسلیم
کرلی ، حلف نامہ میں مانا کہ انہوں نے فضائیہ سے پوچھے بغیر کانٹریکٹ تبدیل
کیا اور تیس ہزا ر کروڑ روپے امبانی کی جیب میں ڈالا۔ پکچر ابھی باقی ہے
میرے دوست‘‘۔سنگھ پریوار کی فلاپ فلم پر راہل گاندھی کا یہ ٹریلر بھاری پڑ
گیا۔
عدالتِ عظمیٰ کے اندر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے رافیل
معاملے میں این ڈی اے حکومت پریہ سنگین الزام لگایاکہ اس نے طیارے خریدنے
میں ٹینڈر نکالنے سے بچنے کے لیے بین الحکومتی معاہدہ کا راستہ اختیار کیا۔
ابتداء میں وزارت قانون کا اس پر اعتراض تھا لیکن بعد میں وہ راضی ہوگیا۔
منصف اعظم نے پرشانت بھوشن کو قیمت کی بابت احتیاط کی تلقین کی مگر حکومت
کے اٹارنی جنرل وینو گوپال نے از خود دورانِ سماعت بنچ کو بتا دیا کہ ۲۰۱۶
میں رافیل طیارہ کی قیمت ۶۷۰ کروڑ اور طیاروں کے پورے بیڑے کی قیمت ۵۸۰۰۰کروڑ
تھی۔ اس صورتحال پرراہل گاندھی کا یہ طنزیہ ٹویٹ صادق آتا ہے کہ’’
وزیراعظم جانتے ہیں ۔ اولاند اور میکروں جانتے ہیں۔ اب ہر نامہ نگار جانتا
ہے۔ وزارت دفاع کے افسران جانتے ہیں۔ دسالٹ کمپنی کے سبھی ملازمین جانتے
ہیں۔ دسالٹ کمپنی کے سبھی حریف جانتے ہیں۔ اس کے باوجود رافیل کی قیمت
’خفیہ‘ ہے جسے سپریم کورٹ کو بھی نہیں بتایا جاسکتا‘‘۔ ایک زمانے تک سوشیل
میڈیا پرمودی جی کے ٹویٹ چھائے رہتے تھے آج کل تو لگتا ہے انہوں نے اپنا
اکاونٹ بند ہی کردیا ہے۔
پرشانت بھوشن کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ شروع میں جب فرانس کی دسالٹ کمپنی
کو یہ سودہ ملا تو ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ نامی سرکاری کمپنی حصہ دار تھی
لیکن وزیر دفاع کر بتائے بغیر اچانک تکنیک کا تبادلہ منسوخ ہوا اورطیاروں
کی تعداد ۳۶ کردی گئی ؟عدالت عظمیٰ نے دورانِ سماعت ہندوستانی فضائیہ کے
اعلی افسر ان کو طلب کیا۔ایئر فورس کے وائس چیف ٹی چلپتی اور ڈپٹی چیف ایئر
مارشل وی آر چودھری سےعدالت نے سوال کیا کہ ’’اب تک کون سے جہاز ہندوستان
میں تیار ہو رہے ہیں ‘‘؟ تو افسران کا جواب تھا ’’۳۰سکھو ئی طیاروں کا بیڑا
ہے ۱۹۸۵کے اندر ائیر فورس میں شامل ہوا تھا ‘‘۔ یہ ایک گمراہ کن بیان ہے
کیونکہ ۱۹۹۶ میں تو سکھوئی کا ڈیزائن بنااور۲۰۰۰ میں روس کے ساتھ ایک
معاہدے کےتحت ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ذریعہ ۱۴۰ جہازوں کی درآمد کا فیصلہ
ہوا ۔ سکھوئی جنگی طیاروں کے بیڑہ ۲۰۰۴ کے اندر فضائی دستے میں شامل کیا
گیا اور ۲۰۱۲ مزید ۴۲ کا اضافہ بھی عمل میں آیا ۔ ان حقائق کے باوجود یہ
کہہ دینا کہ ۳۱ سالوں میں کوئی لڑاکا طیارہ ایئر فورس میں نہیں آیا
انتہائی درجہ کی کذب بیانی ہے۔
اس بات کا پتہ چلانا چاہیے کہ یہ ان افسران کا نسیان ہے یا حکومت کے دباو
ہے ۔ حکومت کے ایماء پر ایسی حرکتقابلِ سرزنش ہے کیونکہ اس سے فوج کے وقار
پر آنچ آتی ہے۔ حکومت کی کوتاہ نظری کے سبب اب سی بی آئی اور آر بی
آئی کے بعد فوج کی عزت و ناموس پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگا ہے۔عدالت نے
سرکاری وکیل سے کچھ تیکھے سوالات کیے مثلاً آفسیٹ پارٹنر اگر پروڈکشن نہ
کرے تو کیا ہوگا؟ وہ اگر فرار ہوجائے تو قومی مفادات کاتحفظ کیسے کیا
جائےگا؟ اس پر اٹارنی جنرل وینو گوپال نے بتایا کہ ابھی حکومتِ فرانس نے
ہمیں بتایا ہی نہیں کہ آفسیٹ پارٹنر کون ہے؟ یہ تو اس صدی کا سب سے بڑا
لطیفہ ہے۔ ایک طرف تو یہ کہنا کہ ریلائنس کو پارٹنر بنانے میں سرکار کا
کوئی کردار نہیں ہے ۔ اس کے بعد اس کو فیکٹری لگانے کے لیے زمین دینا۔
فرانس کے سابق صدر اولاند کا دعویٰ کےریلائنس کو زبردستی تھوپا گیا۔ ڈسالٹ
کے منیجر کا اعتراف کہ آفسیٹ رقم میں سے صرف ۱۰ فیصد ریلائنس کے لیے مختص
ہے اور ریلائنس کا اس سے دوگنی رقم کا اعتراف کرلینا کس بات کی علامت ہے؟اس
تناظرمیں معصومیت عدالت کے روبرو کہہ دینا کہ ہمیں تو بتایا ہی نہیں گیا کہ
وہ رقیب روسیاہ کون ہے؟ میر کا یہ شعر یاد دلاتا ہے؎
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
|