آج کا موضوع میرے لیئے لازم و ملزوم بن گیا تھا کیونکہ
ہم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دور فتن سے گزر رہے ہیں ، اس دور فتن سے
محفوظ ہونے کیلئے لازم ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لے لیں، ہم
اپنی بے راہ روی، مد ہوشی، غفلت، لالچ، عیش و عشرت کے سبب اپنی نئی نسل کو
بلکہ کئی آنے والی نسلوں کو تباہی کا باعث بن رہے ہیں گر ہم ہی نہیں
سنبھلے تو ہماری ذات سے ہمارا ملک پاکستان اور عالم اسلام نا تلافی نقصان
سے دوچار ہوجائیگا اور تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی، بات یہیں ختم
نہیں ہوتی بلکہ روز قیامت ہم کیا جواب دیں گے، قبر میں نبی پاک ﷺ کے سامنے
کیا منہ دکھائیں گے ۔ معزز قارئین۔۔!! مضمون میرے لیئے بہت مشکل تھا حوالہ
جات کیلئے مین ادارہ منہاج القرآن کی تحریروں سے مدد حاصل کی ہے تاکہ
تاریخ اعتبار سے حوالے درست دے سکوں گر مجھ سے نا دانستہ کوئی غلطی ہوجائے
تو اللہ اپنے حبیب محمد ﷺ کے صدقے معاف فرمائے آمین ثما آمین۔معزز
قارئین۔۔!!محکمہ پولیس اور عدلیہ کے مختلف منصب پر مامور محترم حضرات اپنے
منصب کیساتھ انصاف برت رہے ہیں یہ مجھ سے زیادہ پاکستانی عوام اچھی طرح
واقف ہے۔مکاتب فکر اورشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی بے شمار شخصیات
نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا مین دوسری
اسلامی ریاست وجود میں آئی تھی اس ریاست کیساتھ ہم نے کیا کیا؟؟؟ لاکھوں
انسانی جانوں کی قربانی کے بعد آزادی کی نعمت حاصل کی لیکن کیا ہم نے اس
نعمت کیساتھ انصاف کیا؟؟؟ ہم کس کے ہاتھوں کھولنا بننے ہوئے ہیں ؟؟ ؟اپنی
بقا و سلامتی کس کی جانب دیکھ رہے ہیں ؟؟؟ ہم نے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں
نے کیا سچ و حق کو اپنایا ؟؟؟ کہاں تک اپنے وعدے پورے کیئے، کیا انہیں
خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقتدار کا دور پڑھا ہے،
کیا آپ کے نظام حکومت سے کچھ سیکھا؟؟ کیا انھوں نے اسلامی ریاست کا مطالعہ
کیا ہے ؟؟؟ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کے لائق ہیں ؟؟؟ ان
تمام سوالوں کا جواب کیلئے میں نے خود تاریخ کے ان ادوار میں گیا جہاں
خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا ،میں نے پڑھا اور
سمجھا کہ۔۔۔۔۔۔سیدنا حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پولیس کے
محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور
جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی، اس سے پہلے شہروں
اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے، حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے پہرے داروں کا تقرر کیا جن کا کام راتوں کو گشت کرنا اور
تاریکی کے اوقات میں حفظ امن تھا، اس محکمہ کے ساتھ جیل بھی قائم کی، عرب
میں اس سے پہلے جیل کا رواج نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں
میں جیل خانے قائم کیے اور بعض جرائم کی سزائوں میں ترمیم کر کے قید کی سزا
مقرر کی، مثلاً عادی شرابیوں کو شرعی حد جاری کرنے کے بعد جیل میں بھیجا
جانے لگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو
’’صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرۃ رضی
اللہ عنہ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دیئے تاکہ دکاندار ناپ تول میں
دھوکا نہ دیں، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنا لے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ
لادا جائے، علانیہ شراب نہ بکے اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت
عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو بازار کی نگرانی کے لیے مقرر کیا،فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ نے نظام پولیس کے تحت عربوں کے برے اخلاق کی اصلاح بھی
کی، زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ لوگ اپنے انساب پر فخر و غرور اور عام
لوگوں کی حقارت، ہجو اور بدگوئی کرتے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے مساوات کا اس درجہ خیال رکھا کہ آقا و خادم کی تمیز اٹھا دی، ہجو
کو ممنوع قرار دے دیا، شعر و شاعری کو روک دیا کیونکہ عشق و ہوا پرستی کا
یہ بہت بڑا ذریعہ تھا، شعراء کوعورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار لکھنے کی ممانعت
کر دی، روک تھام کی غرض سے شراب نوشی کی سزا بڑھا دی پہلے شراب نوش کو
چالیس درے مارے جاتے تھے انہوں نے اسی درے مارے جانے کا حکم دے دیا، الغرض
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسلام کو اسی حیثیت سے چلایا، جس پاک اور مقدس
طریقہ سے رسول اللہ ﷺنے اس کی بنیاد ڈالی تھی، ان سب باتوں سے یہ اثر پیدا
ہوا کہ باوجود ثروت، دولت اور وسعت کے اس زمانے میں لوگوں نے اسلامی
تعلیمات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔حضور نبی اکرمﷺ کے دور میں مسلمانوں کو جب کسی
معاملے میں مشکل پیش آتی تو اس کے حل کے لیے بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوتے
تھے۔ آپﷺ کے بعد یہ سلسلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی جاری
رہا مگر عدل سے متعلق کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے دور میں قاضیوں کا باقاعدہ تقرر کیا جاتا تھا، ان کی تنخواہ بھی
متعین کی جاتی تھی، عدل کا معیار بھی چیک کیا جاتا تھا اور اس منصب کے لیے
اہلیت کو بھی دیکھا جاتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے منصب
عدل کی ابتدا کی،عدالت میں عدل قاضی کے ذریعے ہی ممکن ہے مگر قاضی کیلئے
نظم ونسق اور قواعد وضوابط کا ہونا ضروری ہے اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے ملک کے اطراف و اکناف میں قضاء کے منصب پر فائز لوگوں کو تحریری ہدایات
فرمائیں، اس سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ
عنہ (گورنر) کو منصب قضاء سے متعلق تحریری احکام صادر فرماتے ہوئے لکھا:’’
قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے پس سمجھ لے
کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتا دینے سے کوئی
نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے ‘‘(دارقطني، السنن، 4: 607، رقم:
16)۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاضیوں کے انداز اور کردار سے متعلق
فرمایا:’’ لوگوں کے درمیان اپنے چہرے سے اپنی نشست و برخاست سے اور اپنے
فیصلے سے امید دلائے رکھو تاکہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع
نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو‘‘(نميري، اخبار
مدينة، 1: 411، رقم: 1325)۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام امور کا اتنے
احسن اندازسے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا تھا۔ قانون کے بنانے
کی تو کوئی ضرورت نہ تھی، اسلام کا عملی قانون قرآن مجید کی صورت میں
موجود تھا البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لیے حدیث و اجماع و
قیاس سے مدد لینے کی ضرورت تھی نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایات کی
روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ
ملک میں عدل و انصاف کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ اور مخلص تھے۔حضرت عمر رضی
اللہ عنہ جب منصب عدل پر فائز ہوتے تو اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ فیصلہ کس
کے حق میں ہو گا یا کس کے خلاف ہو گا؟ یہی اللہ کا فرمان اور دین کا طرہ
امتیاز بھی ہے اس طرح انسان بے باکی اور حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور عدل
و انصاف کرتے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی لحاظ نہیں ہوتا، حضرت عمر
بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:’’جب میرے پاس دو شخص اپنا کوئی
مقدمہ لے کر آتے ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ حق کس کی طرف
ہو‘‘(الطبقات الکبری، 3: 290)۔اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بہت بڑی
اہمیت ہے اس کی اہمیت کو قرآن کریم بھی متعدد جگہوں پر ارشاد فرماتا ہے تا
کہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارا بن سکے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں
عدل کے قیام کے لیے اپنے عمال کو ہمیشہ نصیحتیں فرماتے تھے، آپ نے عمال کے
نام ایک خط لکھا جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
نے (عامل گورنروں) کو لکھا: لوگوں کو اپنے نزدیک حق میں برابر رکھو ان کا
قریبی اور دور والا برابر ہے اور ان کا دور والا بھی ان میں سے قریب ترین
کے برابر ہے نیز رشوت سے بچو، خواہش پر فیصلہ کرنے سے بچو اور غصے کے وقت
لوگوں کی پکڑ کرنے سے اجتناب کرو اور حق کو قائم کرو خواہ دن کے کچھ حصہ
میں کیوں نہ ہو‘‘(کنزالعمال، 5: 320، رقم: 14444)۔حضرت عمر نہ صرف جج کو
تعینات کرتے تھے بلکہ اس کو ایسی ہدایات کے ساتھ نوازتے تھے کہ اس سے منصب
قضاء پر اعتماد مضبوط ہوتا تھا اور ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے بچنے کا
راستہ بھی اس میں موجود ہوتا تھا یہی ہر دور کا تقاضا ہے جیسا کہ ابن عساکر
نے بیان کیا ہے:’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب قاضی شریح کو منصب قضاء پر
فائز کیا تو فرمایا: اب تم خرید وفروخت نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ دینااور
نہ رشوت لینا‘‘(تاريخ مدينة دمشق، 33: 21)۔۔معزز قارئین!!اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں مسلسل کئی دھائیوں سے محکمہ پولیس میں سیاسی بے جا مداخلت،
سیاسی دباؤ، سیاسی شفارش، سیاسی تقرریاں، سیاسی تبادلوں کے سبب آج
پاکستان کے تمام تھانے جرائم کی انڈسٹریز بن چکے ہیں، یہاں پر شرفا کے ساتھ
ناروا سلوک دیکھنے میں آتا ہے، تفتیش کا عمل مکمل بے ضابطگی، بد عنوانی
اور رشوت پر محیط ہے، قانون کے رکھوالے ہی قانون شکن دکھائی دیتے
ہیں،تھانوں میں ظلم و بربریت کی رقمیں قائم ہوئی ہیں، افسر شاہی طبقہ،
اشرفیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی خوشامدی، اقربہ پروری کی مثالیں نظر
آتی ہیں، غریب اگر تھانے چلا جائے تو گویا وہی سب سے بڑا مجرم ، قاتل
ہوجاتا ہے، تھانوں میں جس قدر سفاکی کیساتھ جھوٹے کیس دائر کیئے جاتے ہیں
اور ہر کیس کے بدل میں بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے وہ دنیا میں شاید ہی کہیں
مثال ملتی ہو، بد نما داغ بن کر یہ ادارہ رہ گیا ہے ، شریف الفس انسان کو
اس قدر ذہنی و جسمانی ٹارچر دیتے ہیں کہ وہ باغی بننے پر مجبور ہوتا ہے ،
تھانوں سے ہی ایسے لوگوں کو پشت پناہی کیا جاتی ہے جو جرائم کی دنیا میں
نام پیدا کیئے ہوتے ہیں،دوسری جانب سیشن کورٹ بھی کسی تھانے سے کم نہیں
یہاں پیشکار سے لیکر کلرک حضرات تک کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے رشوت طلب کرنے
میں، تاریخ پر تاریخ کا بد ترین سلسلہ ابتک جاری و ساری ہے، کیسوں کو طول
دینا گویا اب تو جج حضرات کی بھی عادت بن چکی ہے، انصاف کے متمنی موت کی
آغوش میں چلے جاتےہیں مگر فیصلہ بعد از موت بھی سامنے نہیں آتا، ظالم و
جابر اور دولت مند قانون کی قیمت لگا کر بازار میں قانون بیچ دیتا ہے، لیکن
ریاست پاکستان میں کرپشن ،رشوت ستانی، بدعنوانی، لوٹ مار اور نا انصافی کا
سلسلہ ابتک جاری ہے، یہ حقیقت ہے کہ جس طرح محکمہ پولیس میں افسران بالا
خاص کر کمیشن کوالیفائیڈ رشوت اور بدعنوانی سے دور رہتے ہیں ویسے ہی
عدالتوں میں بھی ایماندار جج پائے جاتےہیں ،المیہ یہ ہےکہ ایماندار اور سچے
افسران کے آگے آہنی دیواریں باندھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ ایمانداری ،
سچائی، خلوص، عدل و انصاف کی راہ پر نہ چل سکے ، موجودہ حالات اس قدر بگڑ
گئے ہیں کہ ان دونوں محکموں کو فی الفور ختم کردیا جائے یا پھر ان سے مکمل
طور پر سیاسی مداخلت، سیاسی دباؤ کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور ان کے تقرر
میں نفسیاتی، اخلاقی، میڈیکلی ٹیسٹ شفاف انداز میں کیئے جائیں اس کے علاوہ
پولیس اہلکاروں اور جونیئر افسران کی ٹرینگ پاک آرمی کے ماتحت کرائی جائے
تاکہ حقیقتاً وہ ایک اچھے سیکیورٹی بن کر معاشرے کی برائی کے خاتمے کیلئے
اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ہمارے سامنے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کا پیش کردہ مسودہ موجود ہے ،حیرت ہے کہ یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک
ان کے دور حکومت کے اصولوں کو آج بھی اپنائے ہوئے ہیں مگر ہم ہیں کہ دنیا
کی تمام برائی کو سمیٹھے ہوئے ہیں ، شفاف، صاف ستھرا اور کرپشن سے پاک
،پاکستان کیلئے پولیس اور عدلیہ محکمے کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے پیش کردہ طریقہ کار پر استوار کرنا ہے کیونکہ پاکستان مخالف طاقتور
حکومتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان مزید سے مزید مضبوط بنے ،یہودیوں کی کوشش
ہے کہ امریکہ، یورپ، بھارت، افغانستان کے ذریعے اس ملک میں مسلسل انارکی
رہے ، جہاں عدل و انصاف کمزور پڑجاتا ہے وہیں دشمن غالب آجاتا ہے ،پاکستان
کی بقا و سلامتی کیلئے عدل و انصاف لازم و ملزوم ہے۔ اللہ ملک پاکستان کی
غیب سے مدد فرمائے اور ہمارے اداروں کے سربراہوں، اہلکاروں، ملازمین کو
ایمان کی دولت سے نوازے اور انہیں سچ، حق، عدل و انصاف کی راہ پر گامزن
رہنے ہوتے اچھے امور سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثما
آمین۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔ |