اپنی عادت سے مجبور امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر
پاکستان مخالف بیان دے دیا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان نے ڈالر
لے کر امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے امریکہ کے پہلے
صدور بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اس بار پاکستانی
وزیر اعظم نے ٹرمپ کو بھر پور جواب دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے
خلاف پاکستان نے 75000افراد کی قربانی دی اور اس کے علاوہ 123 ارب ڈالر کا
مالی خسارہ بھی برداشت کیا اور اس کے بدلے میں امریکہ نے صرف 20ہزار ڈالر
امداد دی جو اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ
اس جنگ میں ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے
انہوں مزید ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا کسی اور اتحادی نے اتنی قربانیاں دی ہیں
ٹرمپ کو اس سے بھی سخت جواب دینے کی ضرورت ہے اسے صاف صاف بتا دیں کہ
پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور وہ اب کسی بھی قسم کی امداد نہیں لے گا
جب تک ہم امداد لیتے رہیں گے ہم خود مختار ملک کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ
سکتے اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اپنا راستہ خود متعین کریں اور پاکستان کو
ترقی کی راہ پر گامزن کریں امریکہ کو ہم جتنا بھی خوش کرنے کی کوشش کر لیں
وہ اسی طرح کا رویہ رکھے گا کیونکہ مسلمان ملکوں کے بارے میں ان کا رویہ
ایسا ہی ہوتا ہے حالانکہ پاکستان ابھی بھی امریکہ کی ضرورت ہے لیکن اب
پاکستان کو دو ٹوک فیصلہ کر لینا چاہیئے جب تک ہم امریکہ کی خواہشات کو
پورا کرتے رہیں گے ہم اس کے حصار سے نہیں نکل سکتے پیسے لے کر ہمیں اس کی
ہر بات ماننی پڑتی ہے اب پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ اس بد حواس ٹرمپ کو
سخت جواب دے بلکہ جواب دے دے کہ ہم اب امریککہ کے لئے کچھ نہیں کر سکتے
دہشت گردی کے خلاف جتنیاں قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اتنی کسی ملک نے بھی
نہیں دیں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک وجہ ہمارا دوست ملک چین بھی ہے
کیونکہ امریکہ چین کا الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے جب کہ پاکستان
کی چین کے ساتھ نہ صرف دوستی ہے بلکہ یہ ہمارا ایک بھروسہ مند ہمسایہ بھی
ہے ہمیں چین سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے یہ امریکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے
امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جس
کا فائدہ نہ صرف پاکستان کو بلکہ اس خطے کے تمام ممالک کو پہنچے گا۔
ہم نے گزشتہ دور میں دیکھا ہے کہ ہم امریکہ کو جتنا بھی خوش کر لیں وہ ہم
سے مطمئن نہیں ہو گا اس نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ڈو موراور اب ہم بھی یہی
کہیں گے نومور آخر کب تک ہم جنگ کرتے رہیں گے ہم نے تو دہشت گردی کے خلاف
جنگ کر کے اپنے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کر لیا ہے اب امریکہ افغانستان
میں دہشت گردی کے خلاف بر سر پیکار ہے اس میں اس کو ناکامیوں کے سوا کچھ
حاصل نہیں ہوا اور وہ اس ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتا ہے
ایسا تو نہیں ہو سکتا ہم تو خود دہشت گردی کا شکار رہے ہیں یقیناً اب
امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے اس کی وہ خود امریکہ
ہے سب سے پہلے امریکہ نے ہم پر الزامات لگا کر ہماری فوجی امداد روک دی اس
کے باوجود ہم نے اس کو زمینی اور فضائی راستے بغیر ڈالر لئے دیئے اب
پاکستان کو بھی امریکہ کے بارے میں سوچنا ہو گا کیونکہ جب تک ہم امریکہ کی
بات مانتے رہیں گے وہ ہمارے ساتھ یہی سلوک کرے گا ہم امریکہ کو کھبی بھی
خوش نہیں کر سکتے اور خاص طور مسٹر ٹرمپ کو تو بالکل ہی نہیں یہ تو ویسے ہی
ایک عجیب سا انسان ہے جس کی اپنے ملک میں بھی کوئی نہیں سنتا پتا نہیں یہ
امریکہ کا کیا حال کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
|