انڈیا کے بعد افغانستان نے بھی پاکستان کا پانیبند کرنے
کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ جس سے مستقبل میں پانی کا بحران شدید ہو
سکتا ہے۔ کیوں کہ عمران خان حکومت میں بھی پانی کا مسلہعدم توجہ کا شکار
ہے۔کیوں کہ افغانستان سے پاکستان کی جان بہنے والے پانی کی تقسیم پر ابھی
تک کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکا۔ افغانستان سے پاکستان کی جانب 7دریا بہہ
رہے ہیں۔ مگر ان کے پانی کے استعمال کا کوئی مشترکہ ٍطریقہ کار موجود نہیں۔
افغانستان کابل اور کنڑ دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ دریائے کابل 700کلو
میٹر طویل ہے۔ جس میں سے 140کلو میٹر پاکستان میں رواں دواں ہے۔ سکندر اعظم
نے ہندوستان پر حملے اسے راستے سے کئے۔ یہ پاک افغانستان کے درمیان قدرتی
راہداری ہے۔دریائے کابل افغان شہروں کابل، سروبی، جلال آباد اور پاکستان
شہرو ں پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے گزرتا ہوا اٹک کے قریب دریائے سندھ میں
آ ملتا ہے۔ اس پر کابل اور ننگر ہار صوبوں میں کئی ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں۔
پاکستان نے ورسک ڈیم تعمیر کیا ہے۔
بھارت دریائے کابل کا رخ موڑنے یا اس کا بہاؤ کم کرنے میں افغانستان کی
سرپرستی کر رہا ہے۔ وہ اس دریا پر کم از کم 12 ڈیم تعمیر کرنے کی ابتدائی
رپورٹ مکمل کر چکا ہے۔ جس سے بجلی اور آبپاشی کے منصوبے تیار ہوں گے۔ جس
طرح راوی کے بعد دریائے نیلم کا پانی روک لیا گیا اسی طرح دریائے کابل کا
پانی بھی بند ہو جا ئے گا۔ فارن پالیسی جریدے کی رپورٹ نے مزید تشویش پیدا
کر دی ہے۔ جس کے مطابق دریائے کابل کا بہاؤ کم ہونے سے پاکستان 2040تک خطے
کا سب سے زیادہ بحران والا ملک بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایران کے چاہ بہار
بندرگاہ کی تعمیر سے افغانستان کا پاکستان پر انحصار مزید کم ہو جائے گا۔
اب افغانستان کا بھارت کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم ہو گا۔ پشاور میں
منعقدہ حالیہ کانفرنس نے بھی خدشات پیدا کئے ہیں۔ جس میں کہا گیا کہ دریائے
کابل پر ڈیموں کی تعمیر سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو ں گے۔ جن میں
پانی کا رخ بدلنے، پانی کی کمی، پانی کا ضیاں، پانی کی آلودگی، آبپاشی
مسائل، ماحولیاتی آلودگی، سیلاب، خشک سالی، اور دیگر مسائل قابل زکر ہیں۔
تا ہم جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے
استعمال کا طریقہ کار طے پایا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں بھی
معاہدہ کی ضرورت ہے۔ گو کہ سندھ طاس معاہدہ سے بھی تسلی بخش نتائج حاصل
نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں بھی پانی کا تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
تا ہم کسی حد تک دونوں ممالک نصف صدی تک اس میدان میں امن کی جانب گامزن
رہے ہیں۔ اب جب کہ انڈیا دریاؤں کا رخ موڑ رہا ہے یا پانی کو روک رہا ہے تو
کشیدگی بھی بڑھنے لگی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں بھی کوئی مسلہ
نہ تھا۔ اب انڈیا نے اپنی پالیسی افغانستان کو منتقل کی ہے تو پاک افغان
تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
شاہ توت ڈیم پر کشیدگی پر امن طور پر حل کی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے لئے کسی
آبی معاہدہ کی ضرورت ہے۔ فارن پالیسی کے مطابق افغانستان کے دریا انڈیا کے
پاکستان کے خلاف اگلے ہتھیار بن سکتے ہیں۔ کیوں کہ بھارت ہی ان دریاؤں پر
ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈنگ کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں پہلے سے
ہی کشیدگی ہے۔ پاکستانی پولیس آفیسر کا اسلام آباد سے اغواء اور افغانستان
میں قتل ہوا۔ پھر نعش کی واپسی میں جو رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ اس نے بھی
ماحول کو تناؤ میں بدل دیا ہے۔ اب دریائے کابل پر شاہ توت سمیت ایک درجن
ڈیموں کی تعمیر نے اسلام آباد کو تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ برفباری اور
بارشوں کی کمی نے پانی کو تقریباً نایاب کر دیا ہے۔ پاکستان کے دل پنجاب تک
میں پانی کا بڑا مسلہ پیدا ہو چکا ہے۔ جہاں زمین میں میٹھے پانی نایاب ہے۔
لوگ کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ پینے کے لئے بند بوتل
پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز سرگودھا جانے کا اتفاق ہوا تو
سرگودھا یو نیورسٹی کے پروفیسرز اور طلباء نے پانی کے بارے میں اپنی تشویش
ظاہر کی۔
دریائے کابل پر لاکھوں کی آبادی کا انحصار ہے۔ پشاور، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل
خان، بنوری، شمالی وزیرستان اس دریا اور اس کے معاون دریاؤں کے رحم و کرم
پر ہیں۔ 250میگاواٹ کا ورسک ڈیم کو بھی اسی کا سہارا ہے۔ دریائے کابل کا
پانی مزید کم ہوا تو پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ جیسے زرخیز اضلاع میں زرعی
پیداوار بری طرح متاثر ہو گی۔ بھارت نے پہلے ہی سندھ طاس معادے کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے دریاؤں کا رخ موڑ دیا یا ان کا پانی بند کر دیا ہے۔ اب
پاکستانی معیشت کی تباہی کے لئے افغانستان کے دریاؤں کا پانی روکا جا رہا
ہے۔ بھارت نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے جنگ زدہ خطے میں
ڈھانچے کی تعمیر شروع کی۔ پاکستانی سرحدوں کے قریب اپنے فوجی اور جاسوسی
نیٹ ورک قائم کئے۔ پاکستان میں دہشتگردی کا ڈھانچہ کھڑا کیا۔ پاکستان کو
کمزور کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ پاکستان کو مشرق اور مغرب سے بھیرنے کی
منصوبہ بندی کی۔ بنگلہ دیش کے بعد افغانستان میں پاکستان دشمنی کے بیج بوئے۔
پاک افغان آبی معادہ نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کو پاکستان کے خلاف کھل کر
کام کرنے کا موقع ملا۔ جس طرح پاکستان نے بہت دیر سے نیلم جہلم پروجیکٹ
شروع کئے اسی طرح دریائے چترال پر بھی چند منصوبے شروع کئے۔ اگر چہ افغان
صوبہ کنڑ کی طرف پانی کے بہاؤ کو متاثر نہ ہونے دینے کی کوشش کی گئی مگر
بھارت نے اس پر بھی پاکستان دشمنی کا سہارا لیا۔ یہی نہیں افغانستان کو
دریائے کابل کا پانی بند کرنے پر اکسایا گیا۔تا کہ پاکستان میں آبی بحران
میں مزید اضافہ کر دیا جائے۔ جاری۔ |