جب سے ’’یو ٹرن‘‘ کے لفظ نے معانی کی نئی قبا پہنی
ہے، ہر طرف اِسی کے چرچے ہیں۔ ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی چونکہ فردِ
واحد کے دم قدم سے ہی اپنی ہستی قائم رکھے ہوئے ہے، نتیجتاً اُس کی نوکِ
زباں سے ادا ہونے والا ہر لفظ ، حرفِ آخر قرار پاتا ہے، پوری پارٹی (اور
حکومتی مشینری ) اور اُن کے حامی دانشور وضاحتیں کرنے یا بیان کئے گئے نئے
معانی کو درست ثابت کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ جنوبی
پنجاب سے آنے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے تمام قابلِ ذکر
سیاستدان سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر نئی اصطلاح
استعمال کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اِس خطے کے تقریباً تمام سیاستدان ہی
’’یوٹرن ‘‘ کی چلتی پھرتی تصاویر ہیں۔ کوئی بھی سیاسی گھرانہ یا بڑی شخصیت
ایسی نہیں، جس نے سیاسی وفاداری نہ بدلی ہو۔ میر بلخ شیر مزاری، سید یوسف
رضا گیلانی، فاروق لغاری، مخدوم جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی ، مخدوم احمد
محمود، سردار ذوالفقار کھوسہ، غلام مصطفےٰ کھر، سید فخر امام، خسرو بختیار،
رضاحیات ہراج، سکندر بوسن، طارق بشیر چیمہ، عبدالرحمن کانجو، لغاری برادران،
عثمان بزدار سمیت تمام بڑے خانوادے مختلف ادوار میں پارٹیاں بدل بدل کر
اقتدار کا جھولا جھول چکے ہیں، جھولوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ نئے
پاکستان والی حکومت میں بھی ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کے نام پر بہت سے افراد دوسری
پارٹیوں سے پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
گیلانی نے مسلم لیگ کے ساتھ بھی کام کیا، اب ایک عرصہ سے پی پی کے ساتھ ہیں،
یہی عمل شاہ محمود قریشی نے بھی دہرایا۔ جاوید ہاشمی بھی پی ٹی آئی کے
تالاب میں غوطہ زن ہو کر پتھر چاٹ کر ہی واپس آئے۔ مخدوم احمد محمود بھی اس
میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر اس علاقہ کے سیاستدانوں کا مکمل چارٹ
بنایا جائے تو ایک سادہ سا فارمولا سامنے آتا ہے، کہ اِن میں سے اکثریت
پہلے مسلم لیگ ن میں تھی، مشرف دور میں اُن کے ساتھ ہولی،پھر کبھی اِدھر
کبھی اُدھر اور اب پی ٹی آئی میں۔لکیر کے فقیر اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے
والے لوگ اِن کامیاب لوگوں کے لئے طرح طرح کے لفظ استعمال کرتے اور حسد
وغیرہ کی آگ میں جلا کرتے ہیں۔
جو سیاستدان پارٹیاں تبدیل کرنے کے ہنر سے نا آشنا ہیں، وہ کامیابی کی
منازل سے کوسوں دُور ہیں۔ اگر اِکّا دُکّا نمائندے کامیاب ہوئے بھی، تو اُن
کی تعداد بہت کم ہے، سیٹیں چھوٹی ہیں، کامیابی محدود ہے۔ یہ حقیقت یہاں
آشکار ہوتی ہے، کہ جنوبی پنجاب کے لوگ بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح
پارٹیاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کو بہت پسند کرتے ہیں، انہی کو کندھوں
پر بٹھاتے اور ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اور اگر وہ عوام کی من پسند
پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرتے تو عوام انہیں مسترد کردیتے ہیں۔
پارٹیاں تبدیل نہ کرنے والے خبر کے مطابق بہت ہی چھوٹی اقلیت میں ہیں، ان
کی کُل تعداد عشاریہ پنتالیس فیصد ہے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں
میں بہت کم ایسے ہیں، جنہوں نے ایک دو مرتبہ پارٹی تبدیل کی، ورنہ یہ
کارنامہ وہ تین مرتبہ یا اس سے بھی زائد دفعہ سرانجام دے چکے ہیں۔ علامہ
اقبالؒ کی روح سے معذرت کے ساتھ؛
’یوٹرن والے ‘یہاں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
’’یوٹرن‘‘ کی نئی تشریح کے بعد جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو پاکستان کے
عقل مند ترین سیاستدان قرار دیا جانا چاہیے، یہ پنجاب کے دیگر علاقوں یا
سندھ وغیرہ کی طرح دقیانوسی طریقے سے سیاست نہیں کرتے، یہ اس پانی کی مانند
ہیں، جو رُک کر اپنی حیثیت خراب نہیں کرتا، پانی چلتا رہے تو ’’بے رنگ، بے
بو اور بے ذائقہ ‘‘ رہتا ہے، رک جائے تو اِ ن تینوں صفات سے محروم ہو جاتا
ہے۔ یہ سیاستدان بنجر زمینوں پر شجر کاری نہیں کرتے، حالات کی نبض پر ہاتھ
رکھتے ہیں، ہوا کا رخ پہچانتے ہیں، عین موقع پر نہایت عقلمندانہ فیصلہ کرتے
ہوئے، اُڑان بھرتے ہیں، پرانے ، بوسیدہ اور گزرے زمانے کی یادگاروں جیسے
گھونسلوں کو الوداع کہتے ہوئے نئی دنیا آباد کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو
کامیابی کے جھنڈے گاڑتے جاتے ہیں اور کامرانیوں کا سفر جاری رکھتے ہیں، وہ
ناکام اور مایوس لوگوں کی طرح پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے، وہ راستے کی
چٹانوں سے سر نہیں ٹکراتے، وہ دشوار گزار راہوں میں خود کو ہلاکت میں نہیں
ڈالتے۔ حکومت سازی میں چونکہ زیادہ دارومدار عوام پر ہی ہوتاہے، اس لئے
عوام بھی اس فن میں کافی کمال حاصل کر چکے ہیں، کوئی سیاستدان اِدھر سے
اُدھر گیا تو صرف اس کے قریبی حلقے کو علم ہوتا ہے، تاہم اس کے دیگر چاہنے
والے بھی تھوڑے سے نخروں اور مایوسی وغیرہ کے بعد اپنے لیڈر کے ساتھ ہی سفر
کر جاتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں چونکہ الیکشن سے چند ہفتے قبل ہی ’’جنوبی پنجاب صوبہ
محاذ‘‘ کے نام پر اس علاقے کے بہت سے سیاستدان اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر
پی ٹی آئی میں آگئے تھے، اس لئے انہیں وزیراعظم عمران خان کے ’’یوٹرن‘‘ کے
نظریے کے سب سے زیادہ اور ٹھوس پیرو کار قرار دیا جاسکتا ہے، (وزیر اعلیٰ
پنجا ب سمیت بہت سی وزارتیں اُن کے پاس ہیں)کیونکہ وہ اس فلسفے کو بہت اچھی
طرح جانتے ہیں کہ جو سیاستدان ’یوٹرن‘ نہیں لیتا وہ نہ صرف بے وقوف ہے،
بلکہ کامیابیاں اُن کا مقدر نہیں بنا کرتیں۔
|