عبرتناک مثال

عالم عرب میں مردآہن کہلانے والے جمال عبدالناصرکے بارے میں حال ہی میں منظرعام آنے والی برطانوی مصنف جیمزبارکی تازہ ترین کتاب’’دی لارڈزآف ڈیزرٹ‘‘میں انکشاف کیاگیاہے کہ مصر میں1952ء کا فوجی انقلاب امریکاکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اُکسانے اوراس کے عملی تعاون سے برپاہواتھا۔فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن وائس آف عرب کاقیام بھی سی آئی اے کی مدد سے ممکن ہوااورلیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصرنےاپنے ساتھیوں کی ملی بھگت سےشاہ فاروق کاتختہ الٹ دیا۔کتابکے مصنف جیمز بارنے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مصرمیں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکااوربرطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنااپنااثرو رسوخ بڑھانے کی کشمکش تھا۔برطانیہ مصری بادشاہ شاہ فاروق کی حمایت کررہاتھاجبکہ سی آئی اے اپنے مجوزہ پروگرام کی تکمیل میں اسے رکاوٹ سمجھتے تھے۔

اس انقلاب کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مصری فوج کے اندر 1948ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیرمتوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی اورمصری عوام بھی اپنی اس شکست پراس قدرجذباتی تھے کہ انہوں نے اس فوجی انقلاب کونہ صرف قبول کرلیابلکہ ناصرکواپنا ہیرو مانتے ہوئے دیوانگی کی حدتک اس کے ہرعمل کی نہ صرف تائیدکی بلکہ اس کے تمام ناجائز اقدامات کوبسروچشم قبول بھی کرلیا۔ سی آئی اے کواپنے دوررس پروگرام کے مطابق آئندہ اس خطے میں اسرائیل جیسے ناسورکے ذریعےاپنااثرورسوخ قائم رکھنامقصودتھا جس میں امریکاآج تک تمام عرب ممالک پراپنی اجارہ داری رکھنے میں کامیاب نظرآتاہے،اس لئےکرنل ناصر اوراس کے ساتھیوں کی مددکرکے شاہ فاروق کاتختہ الٹنے میں تاخیرنہیں کی۔

برطانوی مصنف جیمزبارنے برطانوی دفترخارجہ کی دستاویزات اوردیگر تاریخی دستاویزات کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اورامریکاکے درمیان مسابقت اور تعاون پربڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کیاہے کہ فوجی کاروائی سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اور امریکا کوفوج کی طرف سے ٹیک اوورکرنے کے منصوبے کے بارے میں باقاعدہ اعتماد میں لیاتھا۔اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی جمال عبدالناصرنے سی آئی اےکی مددسے مکمل کی تھی جس میں طے کیاگیاکہ جنرل نجیب عہدے کے لحاظ سے سب سے سنئیر، فوج میں اچھی شہرت ، اپنے تجربے اور پروفیشنل کی بناء پربہت مقبول ہیں،ان کوعارضی طورپر انقلاب کا سربراہ بنادیاگیاکیونکہ عبدالناصرکےفوج میں جونیئر رینک افسر ہونے کی وجہ سے فوج میں بغاوت ہونے کابھی خدشہ تھا۔پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت کچھ ہی عرصے بعد جنرل نجیب کوہٹاکرکرنل ناصرنے1956ءمیں باقاعدہ مصر کے صدرکاعہدہ سنبھال لیا۔

اپنے مجوزہ منصوبہ بندی کے تحت سی آئی اے نےاس خطے میں جمال عبدالناصرکوہیروبنانے کیلئے ایک اورچال چلی اوراسی سال (1956ء) جب جمال عبدالناصر نے نہرسوئزکو قومی ملکیت میں لینے کااعلان کیاتوبرطانیہ اورفرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرنہرپرقبضہ کرنے کیلئےمصر سے جنگ شروع کردی لیکن اس وقت کے امریکی صدرآئزن ہاورنے فرانس، برطانیہ اوراسرائیل کوبزورطاقت کی دہمکی دیتے ہوئے پیچھے ہٹنے پرمجبورکردیا۔اس پسپائی پربرطانیہ کوفوجی، سیاسی اورسفارتی محاذپرانتہائی خفت کاسامناکرناپڑااوراس واقعہ کے بعدمشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتاچلاگیااورپوراخطہ امریکی حلقہ اثرمیں آگیا۔اس سارے ڈرامے میں امریکاکی آشیر وادپراسرائیل نے بڑی مکاری کے ساتھ برطانیہ اورفرانس کا ساتھ دینے کامحض کردارادا کیا جبکہ امریکاکے پیش نظرتومشرقی وسطیٰ پراپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اورمشرقی وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اوراجارہ داری تھی جس میں وہ آج تک کامیاب نظرآتاہے۔

امریکی مددسے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتناطاقتوربنادیاگیاکہ1967ء کی جنگ میں مصر،شام اوراردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کوچھ دنوں کے اندر اسرائیلی فوج نے شکست دے کربیت المقدس،غزہ اورباقی ماندہ فلسطین،اردن کے مغربی کنارے،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نماسینائی پرقبضہ کرلیا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعدبھی اسرائیل کاان علاقوں پر(سوائے مصر کے جزیرہ نماسینائی) قبضہ برقرارہے۔

فوج کے ذریعے حکومتوں کوگرانے اورتبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصرتک محدودنہیں رہیں۔ مصرمیں فوج کے ذریعے حکومت کاتختہ الٹنے کاجوسلسلہ 1952ء میں شروع ہواتھا،وہ1953ءمیں ایران میں ڈاکٹرمحمد مصدق کی حکومت کوختم کرکے آگے بڑھایاگیااوراس کے دس سال بعد صدام حسین نےعراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپاکرکے اقتدارپرقبضہ کرلیا۔2003ء میں صدام کواقتدارسے ہٹانے کیلئےامریکااوربرطانیہ نے عراق پربراہ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ان واقعات کے بعدمیری نظرپاک وہندکے مابین ہونے والی محدودجنگ کارگل پرجاکررک جاتی ہے کہ کیاکارگل کی جیتی ہوئی جنگ کوشکست میں تبدیل کرکے مشرف کواقتدارمیں لانے اوربعدازاں نائن الیون واقعے میں مشرف کی امریکاکی غیرمشروط حمائت کی بناءپراس خطے میں امریکاکے تسلط کودوام دینے کی کوئی سازش تونہیں تھی؟تاریخ پرنگاہ ڈالیں تواس طرح حکومتوں کوگرانے اورتختہ الٹنے کاجو سلسلہ1952ءمیں مصر سے شروع ہواتھا،وہ آج بھی مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے لیکن میرے رب کااپناپروگرام ہے کہ اس صدی میں سب سے بڑی جارحیت کے باوجود افغانستان میں ایک بڑی رسوائی کاداغ اس کامقدربننے جارہاہے لیکن سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن طالع آزماؤں نے اقتدار میں آنے کیلئےسی آئی اے کے منصوبے پرعمل کیا،اسی نے ان کوشکست سے دوچاراوران کے ممالک کوتباہ کرکے اقتدارسے الگ کیا۔ناصر،صدام اورمشرف اس کی عبرتناک مثال ہیں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355622 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.