مِصر کی داستان سننے پر مُصِر ہیں اب بھی لوگ

مِصر کی داستان سننے پر مُصِر ہیں اب بھی لوگ ----- سو کچھ اور باتیں مصر میں میرے قیام (سال 1975 ) کی --

مصر کے اخبارات میں بھارتی سفارت خانے کی جانب سے اشتہار چھپا کہ بھارت کے مشہور قوال جناب عزیز احمد وارثی آئے ہوئے ہیں اور اپنے فن سے محظوظ کریں گے - انہیں بھارت سرکار کی طرف سے "پدما شری" کا ایوارڈ ملا ہوا تھا - اشتہار کے مطابق ٹکٹ پیشگی یعنی ایڈوانس میں بھی مل سکتے تھے- اشتہار کچھ اس قسم کا تھا "اسلامی نغمات کا مظاہرہ" - ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بھارت سفارتخانے پہنچا - میں نے صاف صاف بتا یا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے - مجھے پتا نہیں کہ آسانی سے ٹکٹ دئے جا رہے تھے یا نہیں لیکن مجھے ایک دو انٹرویو دینے پڑے - سب سے پہلے تو استقبالیہ پر بیٹھے ہوئے صاحب نے ہی کچھ معلومات حاصل کیں مثلا کون ہیں --؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ مصر کیوں آئے ہیں ؟ یہ صاحب مصری ہی تھے- انگریزی بھی مصری انداز میں ہی کہہ رہے تھے - لیکن ایسے لگ رہا تھا کہ کچھ ذہنی الجھن کا شکار ہیں - اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا لیکن اب اندازہ لگاتا ہوں کہ انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع رنجش کا علم تھا - تین چار سال قبل ہی 1971 میں دونوں‌ ملکوں میں ایک جنگ بھی ہو چکی تھی - اور اسی بنا پر میرا خیال ہے کہ وہ تذبذب کے عالم میں تھے -
خیر انہوں نے مجھے بٹھا یا اور کہا کہ ابھی آتا ہوں -
اندر جا کر کسی سے بات کی - تو مجھے اندر ہی بلالیاگیا - اندر ایک صاحب کرتا پاجامہ سفید رنگ کا 'اجلا سا پہنے ہوئے بیٹھے تھے - بات چیت شروع ہوئی -صاف اردو میں بات ہو رہی تھی- غالباً اپنا نام علاوالدین بتایا تھا - انداز بہت ہی شائستہ اور نرم شیرینی والا تھا -
انہوں نے کہا کہ آپ لوگ 1947 میں ہم سے الگ کیوں ہوئے تھے ؟
میں نے الٹی سیدھی ہانکی کہ وہاں نفرت پھیل رہی تھی - وغیرہ وغیرہ - اس زمانے میں نیا نیا یونیورسٹی سے فارغ ہوا تھا -ان سب چیزوں کا زیادہ ادراک نہیں تھا -
انہوں نے کہا کہ ایسی نفرتیں تو پاکستان میں بھی ہیں - مختلف مسلکوں کے درمیان --مختلف زبانوں کے درمیان - مختلف صوبوں کے درمیان - ایک دوسرے کی املاک کو بھی آگ لگا دی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ - خیر اس قسم کی باتیں ہوئیں اس کے بعد انہوں نے گھنٹی بجائی - وہی استقبالئے پر بیٹھے ہوئے مصری اندر آئے - علاوالدین صاحب نے کہا انہیں ٹکٹ دے دو -

قوالی والے روز پہنچے - بھیڑ زیادہ نہیں تھی - عزیز وارثی قوال نے اپنی قوالی کا آغاز ایسی قوالی سے کیا جو کچھ عربی کے الفاظ رکھتی تھی - قوالی کے بول تھے " حبیبی یا محمد "
سارے مصری جن کی گردنیں اسٹیج کی جانب تھیں ایک دم چونکے - انکی گردنیں اسٹیج سے ہٹ کر ایک دوسرے کی جانب ہوئیں اور منہ سے بے ساختہ نکلا "یکلم عربیہ " ( یعنی یہ تو عربی زبان بول رہے ہیں ) - لیکن بعد میں جب عام قسم کی قوالی شروع ہوئی تو سب کو اکتاہٹ شروع ہو گئی - ان میں ہم بھی شامل تھے اور تھوڑی ہی دیر میں آدھے سے زیادہ لوگ نکل گئے -
---------------------------------
ہم صرف دو ہی آدمی بات کر رہے تھے -
کوئی تیسرا نہیں تھا -
دیواریں بھی دور تھیں کہ ان کے کان ھوتے -

یہ مصر کا قصہ ھے - یہ وہاں کے ایک کارخانے میں ورکر تھا -باتیں ہو رہی تھیں -میں نے برسیل تذکرہ کچھ کہا - میری اس بات میں اس وقت کے مصری صدر انور السادات کے خلاف معمولی سی آمیزش تھی

ایسے لگا کہ ایک دم پوری فضا میں سناٹا چھا گیا-اوپر دور درختوں پر پرندے جو شور کر رھے تھے خاموش ہو گئے - کتے جو بھونک رھے تھے ان کو سانپ سونگھ گیا
اس مصری کی حالت میں ایک دم اتنی تبدیلیاں آئیں کہ میرا دماغ ان تغیر و تبدل کی تیزی کے ساتھ چلنے میں ناکام رہ گیا - سب سے پہلے ایک انجانا سا خوف اس کے چہرے پر لہرایا - پھر اس کی آنکھوں کی پتلیاں اسی خوف کے زیر اثر پھیل گئیں اور آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے - اس کے بعد مزید تبدیلی آئی اور سر کے بال کھڑے ھو گئے - اور دیکھتے ہی دیکھتے ان بالوں کی چمک غائب ہوگئی - آخر میں رنگ پیلا ھو گیا --یہ سب کچھ چند ہی سیکنڈوں میں ھوا ------وہ بھا گا اور پھر بھاگتا ہی چلا گیا ------ چلاتا ھوا - چیختا ہوا ---

"انا مش عارف - انا مش عارف “

مجھے نہیں پتا -- مجھے نہیں پتا --- وہ بھاگتا جا رہا تھا اور کہتا جارہا تھا "مجھے نہیں پتا -- --تم نے کیا کہا --- میں نے نہیں سنا -میں نے کچھ نہیں سنا "
میں ڈر گیا کہ کہیں دوسرے لوگ نہ سن لیں میں کیا کر بیٹھا تھا --خیر اللہ کا شکر ہے اس کی ہسٹریائی کیفیت تھوڑی دیر میں ختم ہوئی اور وہ نارمل حالت میں آیا -
یہ تھی مصر کی ڈکٹیٹر شپ

جب میں پاکستان میں سنتا ھوں کہ کوئی حزب مخالف کا رہنما حزب اقتدار کے کسی بر سر اقتدار حکمران ڈکٹیٹر کہہ رہا ہے یا کسی فٹ پاتھ کے کنارے واقع چائے خانے کی بنچ پر بیٹھ کر کوئی عام سا فرد حکمران کو ڈکٹیٹر کہہ رہا ہے تو مجھے بے ساختہ ہنسی آجاتی ھے
ھا ھا ھا
یہ کیسی عجیب ڈکٹیٹر شپ ھے کہ علی الاعلان ڈکٹیٹر کے سامنے اسے ڈکٹیٹر کہہ رہے ہیں -- ڈکٹیٹر شپ تو وہ تھی جو میں نے مصر میں دیکھی تھی
----------------------------------------------
اتنی ساری باتیں ہوئی ہیں تو ایک بات کتابوں کی اس عالمی نمائش کی بھی ہو جائے جو ہمارے قیام کے دوران 1975 میں قاہرہ میں لگی تھی - میں کتابوں کا شیدائی تھا چنانچہ جیسے ہی پہلا جمعہ آیا یعنی چھٹی کا دن آیا تو میں بھاگا بھاگا نمائش میں پہنچا - میں حیران رہ گیا - لوگوں کا ایک جم غفیر تھا - بھارت یہاں بھی پہنچا ہوا تھا اور پاکستان غیر حاضر تھا - میں نے اپنے آپ کو تسلی دی خیر ہے کوئی بات نہیں - میں تو موجود ہوں پاکستان کی نمائندگی کر نے کے لئے - مصر کی قبل مسیح تہذیب یعنی عہد فراعین کے بارے میں مختلف زبانوں میں بہت کتابیں نظر آئیں - مصر کے کسی اشاعتی ادارے کے تحت مختلف ممالک کا تعارف کرانےکےلئے 'شعوب العالم ' ( یعنی دنیا کی اقوام ) کے سلسلے کے تحت کچھ کتابچے چھاپے گئے تھے وہ بھی رکھے ہوئے تھے - ان کا معیار بہت ہی کم تھا - اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں چھپی ہوئی کتاب کے سرورق پر ساڑھی زیب تن کئے ہوئے ایک خاتوں کی تصویر تھی - اسی کتاب میں تاج محل کا حال بھی بیان کیا گیا تھا - مختلف شہروں ( لائلپور 'ملتان 'حیدر آباد ' کراچی ' پشاور اورلیّہ وغیرہ) کے درجہ حرارت بیان کئے گئے تھے لیکن ان میں بلتستان ' گلگت 'مری ' کوئٹہ' قلات ‘ ' زیارت کا کہیں تذکرہ نہیں تھا جہاں سردیوں میں درجہ حرارت صفر سے گر کر منفی ہو جاتا ہے -

قاہرہ کی یہ کتابوں کی نمائش کا سلسلہ سال 1969 سے شروع ہوا تھا - اگلے برس یعنی سال 2019 میں اس کو پچاس سال مکمل ہو جائیں گے - اس کی گولڈن جوبلی منانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں - یہ قابل ستائش ہے -

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354858 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More