ہم بھی کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں
کہ اِس بات کا اِدراک نہیں رکھتے کہ آقا اور غلام میں کیا فرق ہوتا ہے ؟آقا
اپنے زر خرید غلام کی ٹانگیں توڑ دے یا پھر اُس کے جسم سے رُوح کو جُدا کر
دے ،غلام احتجاج کا حق نہیں رکھتے،اِتنی سیدھی سِی بات اگر کِسی کی سمجھ
میں نہ آئے تو پھر کیا کِیا جا سکتا ہے؟لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے ایک
فوجی اہلکار کے ہاتھوں مرنے والے تین لاہوری نوجوانوں کی موت پر اشتعال میں
آکر تھانے کے باہر اِحتجاج کرنے اور ٹائروں کو آگ لگانے والوں کی عقل پر
ماتم کرنے کو دِل چاہتا ہے کہ وہ کِس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر سڑکوں پر
احتجاج کرتے رہے ؟ایسا کون سا جذبہ تھا جو ایک عزت دار ،باوقار اور آقا کی
حیثیت سے دنیا کی حکمرانی کا دعویٰ ہی نہیں عملی مظاہرہ کرنے والی قوم کے
ایک فوجی جوان کے ہاتھوں کسی کردہ یا ناکردہ جرم کی وجہ سے صرف تین
پاکستانیوں کی ہلاکت اِن لوگوں کو گھروں اور دکانوں سے باہر نکال لائی
تھی؟کیا اِن "جاہلوں "کو اِس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ غلام قوموں کا
ہرگز یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ چلو اِس واقعہ میں خوشی کا ایک پہلو بھی پِنہاں
نظر آیا کہ اِس "دورِ جہالت" میں بھی ہمارے حکمران اور پولیس کے باکمال
افسران غلامی کی اقدار نہیں بھولے ،اور ناصرف حقِ نمک ادا کیا بلکہ اُنہوں
نے پاکستانیوں کو اِس بات کی یاد دہانی بھی کرا دی کہ اِنسان کو ناشُکرا تو
کسی حال میں نہیں ہونا چاہئے اگر ہم امریکہ بہادر کا کھاتے ہیں تو اصولی
طور پر ہمیں گُن بھی اُسی کے گانے چاہئیں۔ غلام قوم ہیں لیکن اِس کے باوجود
ایک بُری عادت جو تشویش ناک حد تک ہماری ہڈیوں میں سرایت کرتی جارہی ہے وہ
پاکستانی قوم میں اعتماد کا فقدان ہے، ہمیں ہر کام میں کیڑے نِکالنے کی
عادت پڑ گئی ہے۔ اگر پولیس افسران نے وقوعہ کے فوری بعد بیان جاری کِیا کہ
مقتولین ڈاکو تھے تو اِس میں برا کیا ہے؟عزت ماآب جناب ریمنڈ ڈیوس" صاحب جب
یہ اِرشاد فرما رہے ہیں کہ مقتول ڈاکو تھے اور جناب کو لوٹنا چاہ رہے تھے
تو پھر خس کم جہاں پاک سوال وجواب اور تفتیش چہ معنی دارد"۔اُن کا اِرشاد
فرما دینا کافی نہیں ؟صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ کو بھی اللہ ہدایت
دے جو یہ کہ اِس قوم کو َمروانا چاہتے ہیں کہ ملزم(میرے مُنہ میں خاک)ریمنڈ
ڈیوس جسمانی ریمانڈ اور تفتیش کے بعد جیل جائے گا ،رانا صاحب امریکہ سے
ڈریں ،امریکہ کا خوف کریں،اپنا نہیں تو اپنے لیڈر اور اِس دکھوں کی ماری
غلام قوم کے حال پر ہی رحم فرمائیں، وہ کوئی اِنتہائی بیوقوف اور اَحمق
غلام ہی ہوتا ہے جو اپنے پالنہار اور آقا کو ناراض کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
جب سے اِس ناہنجار پولیس کے نکمّے اور نااہل اہلکاروں نے آقا و مولا ریمنڈ
ڈیوس صاحب کو تھانے لے جانے کی غلطی ہے(حالانکہ اُنہیں پولیس سٹیشن میں ہر
ممکنہ سہولت میسّر ہے) ایک اَن دیکھے خوف میں، میں گزشتہ رات سے مبتلا ہوں۔۔۔
کَپکپی طاری اور رونگھٹے کھڑے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں چند بیوقوف
لوگوں کے کیئے کی سزا پوری قوم کو نہ بھگتنا پڑ جائے؟؟؟رانا ثنا ءاللہ کی
تو یہ بات بھی کافی حد تک ناگوار ہے کہ حکومت مقتولین کے ورثاء کی مالی
امداد کرے گی ،ہمدردی اور اِنصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔۔۔رانا جی اپنے
حریفوں اور آقاؤں میں فرق رکھنے کی تمیز بھولنی نہیں چاہئے۔۔۔آپ کے سیاسی
حریف تو ہیں نہیں کہ آپ گدھے اور گھوڑے کی تمیز نہ کر سکیں۔۔۔آپ کو علم
ہونا چاہئے کہ آپ کے ہمدردی کے دو بول کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔۔۔اب بھی وقت
ہے اپنی نادانیوں کا کفّارہ ادا کرتے ہوئے جذباتیت ،پاگل پَن اور حماقتوں
سے پرہیز کرتے ہوئے نا صرف اپنے الفاظ واپس لیں بلکہ جو لوگ عزّت ماآب ڈیوس
کی گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں اُن کو عبرت ناک سزا دیں تاکہ آئندہ کسی غلام
کو آقا کے" منہ لگنے "کی جرات نا کر سکے۔۔۔بہرحال میں اَپنی طرف اور پوری
غلام قوم کی جانب سے شرمندگی کا اِظہار کرتے ہوئے (حالانکہ میرے پاس معذرت
کے الفاظ نہیں ہیں)آقاو مولا ،عزت ماآب،قبلہ وکعبہ،پالنہار اور اِس پوری
قوم کے روزی رساں امریکن قونصلیٹ سے معافی کا طلبگار اور دس بستہ عرض گداز
ہوں کہ "حضور" ہماری غلطیوں سے صرفِ نظر اور ہماری "سابقہ خدمات "کے پیشِ
نظر ہماری اِس حالیہ عظیم غلطی کو معاف فرما اگر تو نے ہمیں معاف نا فرمایا
تو تیرا در چھوڑ کر ہم جاہل کس کا در کھٹ کھٹائیں گے۔۔۔حضور۔۔۔ معافی،معافی
اور بس معافی۔۔۔ |