موجودہ حالات میں الیکشن یا ان
ہاؤس تبدیلی خطرناک ہوگی ! نواز شریف
پیپلز پارٹی حکومت کے حمایتی اپوزیشن
یہ میثاق جمہوریت کی کرامت ہے کہ نواز شریف اس حکومت کو پانچ سال پورے کرنے
دینا چاہتے ہیں اور اگلے پانچ سال پیپلز پارٹی بھی انکے راستے میں رکاوٹ
نہیں ڈالے اور انہیں حکومت کرنے کا موقع اسی طرح فراہم کرے گی ۔ لیکن اس
پورے دور میں نواز شریف پر لوٹ مار کے عائد الزامات پر کوئی کاروائی بھی
نہیں ہونے دے گی۔ اور کوشش کرے گی کہ انہیں ان الزامات سے بری کروا کر پاک
صاف کروا دے ۔ اسے کہتے ہیں ڈاکوؤں اور لٹیروں میں مفاہمت۔ یہ دونوں
پارٹیاں مل کر اس ملک میں ایک دوسرے کو مدد فراہم کرنے میں کمر بستہ ہیں
اور عالمی طاقتیں بھی محب وطن قوتوں کو لاچار کر کے اس ملک کو نقصان سے
دوچار کر نے کے اقدامات کر رہی ہیں۔
دونوں پارٹی سربراہ لوٹ مار کے بہت اعلیٰ رکارڈ کے حامل ہیں ان کی امارات
اور دولت کا شمار کرنا بہت مشکل ہے نواز شریف فیملی کی دولت اور کاروبار
دنیا کے دیگر ممالک میں بری طرح پھیلا ہوا ہے ان کے انگلینڈ کے مہنگے ترین
علاقوں میں مہنگے ترین مکانات انکی ملک سے محبت کے جذبے کے حقیقی ترجمان
ہیں۔ ان کی حب الوطنی کا اظہار ہے اس دولت کی ترسیل ظاہر ہے اس ملک ہی سے
ممکن ہوئی اور کمیشن اور کک بیکس کا کمال ہے اور باقی حکیم سعید کا الزام
ہے جنہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا ۔ سلمان تاثیر اور زاہد سرفراز کے
پاس انکے ثبوت تھے جو دونوں بلکہ تینوں راہی عدم ہو گئے ۔ ان کو کسی بابا
نے دو چیزیں عنایت کی جس سے انکا مقدر بن گیا ۔ ایک تو ایسی گیدڑ سنگی جو
صرف راتوں رات چھپر پھاڑ کر ہر سو دولت کے ڈھیر لگا دے دوسری چیز ایسی
عنایت کی انہیں ایسی کرامت دی کہ جو انکا مخالف ہو یا انکے لئے مشکلات پیدا
کرے اسکے حق میں بددعا کر دیتے ہیں اور وہ اس دنیا میں نہیں رہ سکتا ۔ اس
کا مشاہدہ اس طرح کیا جا سکتا ہے ان کی راہ میں آنے والا پہلا مخالف جنرل
آصف نواز جنجوعہ دوسرا مخالف حکیم سعید جنہوں نے انکے خاندان اور
بیوروکریسی کی بیرون ممالک دولت بھیجنے کی تفصیلات بیان کیں تو وہ بھی
چلدیے، ان کے دو اور مخالف تھے ایک زاہد سرفراز ان کا پتہ نہیں کیسے چلدیے
بحرحال وہ ہم میں نہیں۔ پھر جب انکی حکومت ختم کر دی گئی اور یہ خود باہر
بھاگ لئے تو اپنے آخری مخالف کو بد دعا دینے سے محروم رہے لیکن واپس آ کر
انہوں نے ان کو بھی بد دعا دے ہی دی اور سلمان تاثیر بھی کس طرح گئے پورا
ملک ہی جانتا ہے !
اب اتنے اعزازات کے حامل سابق وزیر اعظم کی کرامات دیکھ کر موجودہ وزیراعظم
بھی ان سے کرامات حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں اور شاید بابا ان پر بھی کوئی
مہربانی کر دیں لیکن لگتا ہے کچھ انہیں بھی مل گیا ہے ۔ ان کے بابا کی
کرامات ہیں کہ نیشنل بینک کے علی رضا بھائی نے خود ہی وزیر اعظم کی بیگم کے
قرضے معاف کرا دئے جنہیں وہ ادا نہیں کرپا رہی تھیں۔ اور وزیر اعظم کے
ساتھیوں اور انکے متعین کردہ افراد پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے جا رہے
ہیں لیکن وزیر اعظم ان کے خلاف ایسی کسی کاروائی کا ارادہ نہیں رکھتے جس سے
ان کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔ اچھا نواز شریف اپنی پارسائی کا ڈھول
بجا کر قوم میں اپنی ساکھ بنانے کے لئے کرپشن کے نعرے وقفے وقفے سے بلند کر
کے پنجاب حکومت کی لوٹ مار کو تحفظ دینے پر کمر بستہ ہیں۔
اگر انکوائریاں اس نظریے سے کی جائیں کہ اس میں کہیں پکڑ کا خدشہ ہو تو
ماہرین اسکی درستگی کے اقدامات کر کے چوروں کو کلئیرنس کے گر بتائیں تو پھر
کچھ باقی نہیں رہتا اس وقت اس ملک میں ایسی ہی فضا ان کم ظرفوں نے قائم کر
کے اداروں کا سسٹم ہی کرپٹ کردیا ہے ان کی خصوصیات یہ ہیں کہ انہی اداروں
کے لوگوں کو خرید کر ان ہی سے اپنی لوٹ مار کو جائز کرانے کے ثبوت ضائع
کرنے کے اقدامات کرتے ہیں تو کرپشن میں پکڑ کون کرے گا ۔ اسی بنیاد پر
شہباز شریف کہتے ہیں کی انکوائری کروا لو،اگر عدالت میں کوئی ہمارے خلاف
کرپشن ثابت کر دے تو ہم سیاست ہی سے کنارہ کش ہو جائیں گے ۔ حکمرانوں کے
رویے ایسے اسی لئے یہ پاکستانی بد قسمت قوم اس کا خمیازہ آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک کے آگے اپنی اولادوں تک کو گروی رکھنے پر مجبور ہیں ۔ اور یہی دو
بڑے لٹیرے اربوں ڈالر بیرونی ممالک میں لے جانے کے مجرم بھی ہیں انکے غیر
ممالک میں کاروبار، اکاؤنٹس، اثاثے اور امارات انکی حب الوطنی کی منہ بولتی
تصویریں ہیں۔
ان لٹیروں کو غیر ممالک کا تحفظ ہمیں ہمیں غلامی کے چنگل میں لے جا رہا ہے
۔ اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو ہم صدیوں غلامی کا طوق اتارنے میں
لگے رہیں گے اس غیر ملکی مداخلت کے خاتمہ کر کے کرپٹ عناصر سے اس ملک سے
نجات دلائیں۔ |