تحریر: دختر اسلام
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہ
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اْٹھا کے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے میں نے ٹی وی لگایا ہوا تھا ایسے ہی چینل بدلتے
ہوئے ایک نیوز چینل پر ہاتھ رک سا گیا جس پر بھارت کے خبیث ذہنیت کے حامل
میڈیا نے ایک خبر نشر کی ہوئی تھی۔کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان
منان وانی دہشت گرد تنظیم حزب مجاہدین میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب بندر کیا
جانے ادرک کا سواد کے مصداق انہیں کیا پتہ جہنم اور جنت کا انہیں شناس ہی
کب ہے دہشت گرد اور مجاہد کی بس خباثت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے سو ہر جگہ
شروع۔ کبھی پاکستان اور پاک فوج کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں، تو کبھی
کشمیری مجاہدین کے خلاف اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا اس لیے میں نے بار
بار وہ خبر سنی میرا دل چاہ رہا تھا میں ابھی اسی وقت اپنے اﷲ تعالیٰ کے
حضور سجدہ ریز ہو جاؤں کہ جنہوں نے برہان مظفر وانی شہید کے بعد اسلام کے
ایک اور بہادر بیٹے کو اسلام اور کشمیر کی خدمت کے لیے چن لیا ہے ۔
اگر ایسا ہی جذبہ ہر اسلام کے بیٹے کے دل میں رہا تو ان شاء اﷲ بہت جلد اﷲ
تعالیٰ کی مدد اور فتح سب مظلوم مسلمانوں کا مقدر ٹھہرے گی لیکن جب میں ان
کی شہادت کی خبر سنی توکچھ وقت کے لیے مجھے ہوش ہی نہ رہا۔ جب اپنے حواسوں
میں واپس آئی تو ان کی اتنی عظیم الشان موت پر رشک تو آیا ہی شہادت کی موت
کہ جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی بھی خوبصورت اور بڑی سے بڑی چیز بھی نہیں
ٹھہرائی جا سکتی۔ آج ان کی شہادت پر میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں کیا
لکھوں لیکن ذرا سی دیر کے لیے ہی سہی پر ان ماں باپ کے بارے میں سوچا جائے
کہ ان پر کیا بیتی ہوگی جن کا جواں سال خوبرو بیٹا خوں میں لت پت لاش کی
صورت ان کے سامنے لیا گیا ہوگا تو ان پہ کیا بیتی ہوگی؟
وضو ہم اپنے لہو سے کر کے
خدا کے ہاں سرخرو ہیں ٹھر
ہم عہد اپنا نبھا چلے ہیں
تم عہد اپنا بھلا نہ دینا
شہید تم سے یہ کہ رہے ہیں
لہو ہمارا بھلا نہ دینا
قسم ہے تم کو
اے سرفروشو !
عدو ہمارا بھلا نہ دینا
وہ اجڑے گلشن ویران گلیاں
وہ جلتے باغ
اداس کلیاں
ہماری ماؤں کے بھتے آنسو
قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا
کشمیر کا ایک اور بہادر ہونہار بیٹا اپنے وطن عزیز کی آزادی کے لیے اپنی
جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو گیا۔ کشمیر
کو ایک اور ہونہار بیٹے سے محروم کر دیا گیا ۔کشمیر کو ایک بار پھر لہولہان
کر دیا گیا، آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا ،آخر کب تک ہم ایسے اندھے گونگے
اور بہرے تماشائی بنے ظالموں درندوں کی اندھیرنگری کے ظلمت کے کھیل دیکھتے
رہیں گے ؟آخر کب تک ایسے پھول سے جوان سال شہزادوں کے خوں سے لت پت لاشیں
بوڑھے کندھے ڈھوتے رہیں گے کب تک کب تک آخر کب تک اور کیوں؟
خدارا اب کشمیر کا بھی کوئی بہتر حل تلاش کریں جو ظلم کی چکی میں پستے ہوئے
مظلوم کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق اعلیٰ اور عملی اقدامات
کریں کچھ اقتدار کے ایوانوں والے جن کی غیرت کو سکوں کی جھنکار تلے گمراہی
کی گہری نیند سلا دیا گیا ہے۔ جنہیں اتنا کچھ ہوتے ہوئے کچھ بھی نظر نہیں
آتا اور شاید نہ ہی کبھی آئے گابھی پر ہم ہمیشہ حق کی آواز بلند کرتے رہیں
گے ۔جب تک یہ گمراہی کی گہری نیند سے بیدار نہیں ہو جاتے ،یہ جلتے گاوں
روندے ہوئے کھیت محلوں کے محلے خاکستر یہ کشمیر ہے ۔سڑکوں پر سسکتی تڑپتی
جانیں ،زمین کا چپہ چپہ خون سے لت پت ،سرِبازار عصمتیں تاتار ،گھر زنداں،
بازار مقتل، بے گور وکفن پڑی نعشیں،قید و بند اور دار و رسن کی صعوبتوں کو
خوش آمدید کہتے یہ کشمیر کے بیٹے آسمان بھی ان کی قربانیوں پر ششدر ہو
گا۔چشم فلک نے آزادی کے لیے ایسا لازوال جذبہ نہیں دیکھا ہو گا جس کا
مظاہرہ کشمیر کے بیٹے بیٹیاں کر رہے ہیں۔دست قاتل شل ہو جائے گا مگر سر پیش
کرنے والے ذرا پس و پیش نہیں کریں گے۔یہ جانباز خودمختار اور خوشحال کشمیر
کے لیے اس جدوجہد کو کبھی ترک نہیں کریں گے اور ان شاء اﷲ بہت جلد اﷲ
تعالیٰ کی مدد اور فتح کشمیر کا مقدر ٹھہرے گی۔
|