بین الاقوامی سیرت کانفرنس

گزشتہ سال انہی دنوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت اس شش وپنج میں مبتلاتھی کہ بارہ ربیع الاول کے حوالے سے سیرت کانفرنس کیسے منعقدکی جائے کیوں کہ حلف نامے میں ترمیم کی وجہ سے وہ زیرعتاب تھی ، تحریک لبیک کے فیض آبادمیں دھرنے کی وجہ سے وزیرقانون مستعفی ہوچکے تھے ،پورے ملک میں ن لیگ کے وزاراء کے لیے گھروں سے نکلنامحال ہوچکاتھانامورگدی نشین مسلم لیگ ن سے اعلان لاتعلقی کررہے تھے ایسے ماحول میں وفاقی وزیرمذہبی امورسرداریوسف کے لیے سیرت کانفرنس منعقدکرناکسی چیلنج سے کم نہیں تھا ، مگرانہوں نے یہ کانفرنس منعقدکی جس میں ملک بھرسے جیدعلماء کرام نے شرکت کی ،کانفرنس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری محمدحنیف جالندھری نے تقریرکرتے ہوئے تجویزدی کہ موجودہ حالات کاتقاضاہے کہ اگلاپوراسال ختم نبوت کے سال کے طورپربنایاجائے سرداریوسف نے اس تجویزکوقبول کرتے ہوئے اعلان کردیاکہ پوراسال ختم نبوت کے طورپربنایاجائے گا اور2018کی سیرت کانفرنس ،،ختم نبوت اورمسلمانوں کی ذمے داریاں ۔تعلیمات نبوی ؐکی روشنی میں،،کے عنوان سے منعقدہو گی اوراسی عنوان سے کتب ،نعت رسول اورمقالہ جات لکھے جائیں گے ۔

وزارت مذہبی امورہرسال بارہ ربیع الاول کوسیرت کانفرنس منعقدکرتی ہے گزشتہ 42سال سے یہ سلسلہ چلاآرہاہے امسال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی یہ پہلی سیرت کانفرنس تھی اس دوروزہ کانفرنس کاعنون ،،رحمۃ اللعالمین کانفرنس ،،رکھاگیاتھاجوگیارہ بارہ ربیع الالول کوکنونشن سنٹراسلام آبادمیں منعقدہوئی۔کئی سالوں سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ کانفرنس سے صدرمملکت خطاب کرتے ہیں مگرچوں کہ اب تبدیلی آگئی ہے تو کانفرنس سے صدرمملکت کے علاوہ وزیراعظم نے بھی خصوصی خطاب کیا۔

موجودہ حکومت نے برسراقتدارآنے کے بعد سودن کاپلان دیا ایسے میں وزارت مذہبی امورکے پہلے سودنوں میں سیرت کانفرنس کے علاوہ ؒکوئی بڑاکام نہیں تھا مگربدقسمتی سے وزارت مذہبی امورکی طرف سے اس سیرت کانفرنس کی شایان شان طریقے سے تیاریاں نہیں کی گئیں،وزارت مذہبی امورکے حکام نے آخری وقت میں لاکھوں روپے کے اشتہارجاری کرکے اپنی کارکردگی دکھانے اورسیرت کانفرنس کوسیاسی مقاصدکے لیے لیے استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ۔پی ٹی آئی کی حکومت نے سب سے پہلے ختم نبوت کاموضوع جوگزشتہ سال طے پایاتھا اس کوتبدیل کرتے ہوئے اسے کانفرنس کا ذیلی عنوان بنادیااوراس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم سمیت کسی بھی حکومتی عہدیدارنے ختم نبوت کے حوالے سے وہ بات نہیں کی جس کی توقع کی جارہی تھی ۔

حکومت نے سیرت کانفرنس کوبین الاقوامی کانفرنس کانام دے کریبرون ملک سے بھی چندغیرمعروف مذہبی سکالرزکومدعوکیاجبکہ دوسری طرف ملک کے جیدعلماء کرام نے اپنے تحفظات کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہیں کی حالانکہ ایسی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے علماء بڑی بڑی سفارشیں کروایاکرتے تھے اورکانفرنس کے دعوت نامے بڑے احتیاط سے تقسیم کیے جاتے تھے مگراس مرتبہ سات ہزارسے زائددعوت نامے بانٹے گئے پانچ ہزارسے زائدعلماء کرام کوبلایاگیا مگران میں سے بھی تین سوکے قریب علماء کرام نے شرکت کی، رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری ،معروف عالم دین علامہ راغب حسین نعیمی ،جامعہ اشرفیہ کے مہتمم مولانافضل الرحیم اشرفی ،مولاانازاہدالراشدی ،رابط المدارس کے سربراہ مولاناعبدالمالک،ڈاکٹرعطا الرحمن اورجڑواں شہروں کے نامورعلما کرام حتی کے محکمہ اوقاف سے وابستہ مساجدکے آئمہ کرام ،نظام صلوۃ کمیٹی کے اراکین نے بھی کانفرنس میں شرکت نہیں کی ،کانفرنس کے منتظمین نے جب علماء کی بے رخی دیکھی توکنونشن سنٹرکاہال بھرنے کے لیے پہلی مرتبہ ایک این جی اوکے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبا وطالبات کوبڑی تعدادمیں بسیں بھربھرکرکانفرنس میں لایاگیا۔

جوعلماء اس کانفرنس میں شریک ہوئے ان میں سے اکثریت ایسی تھی کہ وہ اپنے مسلک کی نمائندگی بھی نہیں کررہے تھے بلکہ بعض علماء کسی مسجداورمدرسہ سے بھی وابستہ نہیں ہیں اگرچہ ان کادعوی ہے کہ وہ ملک کی سترہزارمساجدکے نمائندہ ہیں ، اس لیے جب ان مذہبی رہنماؤں کو تقریرکاموقع دیاگیاتووہ کانفرنس کے موضوع اورسیرت نبوی پر بیان کرنے کی بجائے وزیراعظم ،وزیرمذہبی امورودیگرحکام کی تعریفوں میں مصروف رہے ایسے کاسہ لیس جوحکومت وقت کے سامنے کلمہ حق بیان نہیں کرسکتے وہ نہ صرف حکومت کی بدنامی کاباعث بنتے ہیں بلکہ حکمرانوں کوگمراہ بھی کرتے ہیں ۔

ایسے میں ایک عالم دین ڈاکٹراحمدعلی سراج نے تقریرکرکے علماء کی لاج رکھ لی اوروزیراعظم کوباورکرایایہاں سارے،، درباری ،،نہیں آئے ہیں کچھ علماء حق بھی موجود ہیں، انہوں نے موضوع کی مناسبت سے ختم نبوت پربات کی اورکہاکہ وزیراعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں ریاست مدینہ میں ختم نبوت کے ڈاکوؤں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی ،ریاست مدینہ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرصدیق نے خلافت سنبھالنے کے بعدسب سے پہلے منکرختم نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جہادکیا انہوں نے وزیراعظم کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ آئین میں قادیانیوں کے حوالے سے جوپابندیاں موجود ہیں ان پرعمل درآمدکیاجائے اور295-cکے قانون میں جوسزاہے اس پرعمل کریں ۔ڈاکٹراحمدعلی سراج جب یہ باتیں کررہے تھے تووزیراعظم سمیت دیگرحکام کے چہروں پربے چینی واضح نظرآرہی تھی وزاراء باربارپہلوبدل رہے تھے ؒمنتظمین نے یہ جب یہ حالت دیکھی توانہوں نے فوراڈاکٹرسراج کوپرچی تھمادی کہ آپ کاوقت پوراہوگیاہے۔ڈاکٹرعلی احمدسراج کی اس تقریرکے بعد قادیانیوں نے عمران خان سے شدیداحتجاج کیاہے اوراپنی ویب سائٹ ربوہ ٹائم پراس حوالے سے لکھاہے کہ وزیراعظم کی موجودگی میں ڈاکٹرسراج نے انہیں مبینہ طورپردھمکیاں دی ہیں ۔حالانکہ احمدعلی سراج نے کہیں بھی قادیانیوں کودھمکیاں نہیں دی ہیں بلکہ قرآن وسنت اورآئین وقانون تناظرمیں اپنی بات کی ۔

دینی جماعتوں کوتوقع تھی کہ وزیراعظم نے جس طرح اپنی حکومت کی معاشی ،سیاسی ،خارجہ ودیگر پالیسیاں بنائی ہیں اسی طرح اس کانفرنس میں ختم نبوت اورناموس رسالت کے حوالے سے اپنی حکومت کی پالیسی بیان کریں گے اورموجودہ حکومت کے چنداقدامات کی وجہ سے دینی طبقوں میں جوتشویش پائی جارہی ہے اس کاازالہ کریں گے مگروزیراعظم نے ،،رحمۃاللعالمین ،،کانفرنس کے عنوان کے تحت مذہبی جماعتوں کوہدف تنقیدکابنایااورکہاکہ پاکستان مدینہ کے بعد واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا لیکن بدقسمتی سے جو لوگ اسلام کے ٹھیکے دار بنے ہیں، انہیں اس فلسفے کی سمجھ ہی نہیں کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کیا ذات تھی۔وزیراعظم نے علماء کرام کونشانہ بنایاجس سے ظاہرہوتاہے کہ اب نئے پاکستان میں اسلام کی تشریخ علماء کی بجائے ایسے حکمران کریں گے جنھیں حضرت عیسی ؐکی ہیومن ہسٹری کابھی علم نہیں ،یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں جوصورتحال ہے کہ تحریک لبیک اوردیگرمذہبی جماعتوں کے کارکنوں سے جیلیں بھری جارہی ہیں اگر سیرت کانفرنس میں ٹھوس مؤقف اور لائحہ عمل کااعلان کردیاجاتاتوآج یہ حالات نہ ہوتے ۔البتہ وزیراعظم کی طرف سے یہ اعلان نہایت خوش آئندہے کہ جامعات میں نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر ایک خصوصی چیئر بنائی جائے گی، پاکستان مذاہب کی ہتک کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کنونشن پر دنیا بھر کے ممالک سے دستخط کرائے گا۔

کانفرنس کے دوسرے دن صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ ، ملک کی سڑکوں پر صورت حال دیکھ کر تکلیف ہوئی کہ ہم سب ناموس رسالت پر جان دینے والے ہیں، لیکن نبی کے اسوہ پر عمل نہیں کرتے، جن شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے اور موٹرسائیکل جلاتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟صدرمملکت نے بالکل درست فرمایاشہریوں کی املاک کوبالکل نقصان نہیں پہنچاناچاہیے، چاہے وہ ناموس رسالت کے نام پرہوچاہے وہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کے نام پرہو یالاک ڈاؤن کے نام پرہو؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 32737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.