پچیس جولائی عام انتخابات عوام کے لئے ایک نیا سورج طلوع
ہو۔ا خواہشات ابھریں ،روشن امنگیں جگمگانے لگیں ۔موجودہ ھکومت کے سو دن
ہونے کو ہیں پاکستان میں جابجا گرج چمک کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
غریب کی جیب پر بھاری تبدیلی،کم سرمایہ لگا کر کاروبار کے خواہاں کے لئے
تبدیلی،ہر اس شخص کے لئے تبدیلی ایک تلوار کی مانند ثابت ہوئی جو ہفتے بھر
کی سبزی اور پھل اتوار،منگل یا جمعہ بازار سے لیتے ہیں۔ کیونکہ جناب سوپر
مارکیٹس ،سوپر اسٹورز اور انچی دکانوں والوں کی کمائی کم ہو گئی تھی۔ لو جی
ہم تبدیلی لے آئے اور محلوں اور علاقوں میں لگنے والے بازاروں پر پابندی
عائد کر دی۔ کیونکہ تبدیلی تبدیلی ہے بھائی ۔ساتھ شروع ہوا تجاوزات کو جگہ
پر لانے کا کام اور بند ہو گئیں وہ ساری دکانیں کہ جن کو کبھی کرائے کے نام
پر ،کبھی مینٹینس کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر لینڈ مافیہ نے نچوڑا ۔تو
جناب تبدیلی پیچھے کیوں رہے۔ اس کو تو ان سے نمبر لے جانا تھا سو انہوں نے
ان کا کاروبار ہی بند کر دیا۔ آئے دن ان کو درپیش مسائل کا حل تبدیلی نے
جھٹ سے دے دیا۔کیونکہ تبدیلی تبدیلی ہے بھائی۔ تبدیلی کے ساتھ چونکہ نام
جڑا ہے انصاف کا تو پھر یوں ہوا کہ شریف خاندان کے جن کے خلاف عرصہ دراز سے
محاذ آرائی کی جا رہی تھی اور جیل تک کی راہ دکھائی گئی تھی خود اس راہ سے
بھٹک کر انہیں واپس رائیونڈ محل کے سپر کر دیا گیا۔ کیونکہ تبدیلی تبدیلی
ہے بھائی۔ ان تمام مافیہ اور گروہوں کو پکڑنے کے بجائے عام شہری پر تبدیلی
کو بخوبی برسایا جا رہا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جنہوں نے دوسروں کے حق
کھانے میں بے جا تجاوز کیا،جنہوں نے غیر قانونی املاک کی منظوری دینے میں
بے جا تجاوز کیا ،جنہوں نے ان جگہوں پر تجاوز کرنے کی پہلی جسارت کی اس کو
پکڑا جاتا اور غریب عوام کا خون نچوڑ کر اپنے محل تعمیر کئے انہیں مسمار
کیا جاتا لیکن ایسا ہوا نہیں۔کیونکہ جناب اُن کے یا تو ہاتھ بہت لمبے ہیں
یا پھر تبدیلی کا قد بہت چھوٹا ہے جو ان کے گریبان تک پہنچنے سے قاصر
ہے۔کراچی شہر کی اگر بات کریں تو پبلک کے لئے ایک تعمیر شدہ بہترین مقام دو
دریا بھی ایک مافیہ کی نظر ہو گیا جو انچے اونچے پلازے بنانے کے ماہر سمجھے
جاتے ہیں ۔جن کا نام سن کر ہر شریف آدمی اپنا دامن بچا کر گزرنے میں ہی
عافیت سمجھتا ہے ۔کیا ان کے عزائم کا علم تبدیلی کے نام لیواؤں کو معلوم
نہیں،کیا یہ جگہ قانونی نہیں تھیں تو گزشتہ بیس سال سے لیز پر لی گئی جگہ
کو دوبارہ کیوں نہ دیا گیا۔اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں کہ جو چیخ چیخ کر
اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جناب چہرے تبدیل ہوئے لیکن سسٹم نہیں۔پارٹی
تبدیل ہوئی لیکن نظریہ نہیں،نئی سوچ لانے والوں کی سوچ میں پرانے بیج زیادہ
اثر انداز ہیں۔ان میں چھپی وہ کالی بھیڈیں جو پرانا اثر لیکر اب یہاں زیادہ
موثر ہیں۔جس کے باعث وہی اپنوں کو نوازنے اور دوسروں کو دھتکارنے کا کام
عروج پر ہے۔میرٹ کے نام لیوامیرٹ کا تماشا بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سب سے
بڑی بات کے دوسری جماعتوں کے کرپٹ مافیہ کو اٹھا کر اگر آپ تبدیلی کی بات
کریں گے تو مجھے تو کہنا پڑے گا کہ تبدیلی تبدیلی ہے بھائی۔کیونکہ یہاں
ایسا کونسا فلٹر ہے جو سیاہ کو سفید اور کرپٹ کو پارسا بنا دیتا ہے۔اب
دیکھنا یہ ہے کہ جو ہمارا وتیرہ ہے یو ٹرن اس کی باری کب آتی ہے۔ |