ملک کا مستقبل کہلانے والوں کا اپنا مستقبل گم ہو گیا

 ملک کے دوسرے شہروں کی طرح گوجرانوالہ کی سڑکوں پر بھی ایسے چھابڑی یا ٹھیلے لگانے والوں کی اکثریت کیلا ، سیب ،امرود لے لو کی صدائیں لگاتی نظر آتی ہے ، آبادی کے لحاظ سے اب چوتھے نمبر پر آجانے والے شہر میں خوبصورت پڑھے لکھے نوجوان اچھی جاب کی آس چھوڑ کے اور مایوس ہو کر سڑکوں پر طرح طرح کی اشیاء فروخت کرتے پھر رہے ہیں ، بڑی سڑکوں پر بابوؤں کے لئے عینکیں بیچنے والے کمسن لڑکوں ، نوجوان ، کی اپنی آنکھوں کے سارے خواب گھر کا آٹا، ماں کی دوائی ، بہن بھائیوں کی روٹی پوری کرتے کرتے دھواں ہو گئے ہیں ، پیٹ پالنے کے لئے لگانے والی صداؤں میں انکے دلوں کے سارے ارمان ملیا میٹ ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ ورکشاپوں ،چائے کے کھوکھوں اور فرعون نماسخت گیر مالکوں کے گھروں پہ کام کرنے والی چھوٹیوں اور چھوٹیوں کے مستقبل کے بارے میں بڑے بڑے ایوانوں میں بات تک نہیں ہوتی ، یہ تعلیم و تربیت جیسی دولت سے محروم لڑکے بالے اور معصوم بچیاں جن کی عصمتیں تک ان امیرزادوں کے گھروں میں محفوظ نہیں ،ان کا سارا بچپن اور لڑکپن اپنے اور اپنے خاندان کی زندہ رہنے کی جنگ لڑتے لڑتے گم ہو جاتا ہے ، جن کی عمریں پڑھنے لکھنے ، کھیلنے کودنے اور لاڈ دکھانے کی ہیں وہ اپنی عمر سے بہت زیادہ بوجھ ڈھوتے نظر آتے ہیں ،بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ہر روز انہیں دیکھتے ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے نظر چرا کر گزر جاتے ہیں ، یہ غریب بچے اور نوجوان جو سیاستدانوں کی پر فریب تقریروں میں ملک کا مستقبل کہلاتے ہیں ، سڑکوں گلیوں میں رل رہے ہیں مگر ہم لمحہ بھر کو رک کر ان کے دکھ کو محسوس تک کرنے کی فرصت نہیں ، طاقت اور اختیار والوں نے کبھی نہیں سوچا کہ سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں گلی گلی پھر کے’گرم آنڈے ‘‘ بیچنا سچ میں کتنا تکلیف دہ امر ہے ، کوئی نہیں سوچتا کہ اپنی ماؤں کی آنکھ کا آنسو پونچھتے پونچھتے ان بچوں کی اپنی ذات علم کی روشنی کے بغیر کسقدر ادھوری رہ جائے گی،یہ ہر روزچند سو روپوں کے لئے یہ کتنا کچھ قربان کرتے ہیں ، یہ کتنا مہنگا سودا ہے،یہ ان غریب، مجبور ، مفلس اور حالات کے مارے ہوئے گھرانوں کے کتنے معصوم ، مظلوم، اور بے بس بچے ہیں ، یہی گوجرانوالہ شہر ہے جہاں ہم نے عام انتخابات میں دولت کا بدترین ضیاع دیکھا ہے ، اربوں روپے اشتہارات ، پینا فلیکس ، کھابوں اور ووٹ خریدنے کی 20-20کروڑ روپے انتخابی مہم میں جھونکنے والے سیاستدان اگر اس رقم کا چند فی صد بھی ان گھرانوں کی کفالت ، ان تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کے لئے وقف کردیں ،تو انکی روٹی بھی پوری ہو جائے اور ’’کھوتی سکول‘‘ میں پڑھنے کی’’ آزادی‘‘ بھی مل جائے کہ ماں باپ کی مجبوریاں زنجیر بن کر ان بچوں کے سکول جانیمیں حائل ہیں ، مفت تعلیم کا اعلان کرنے والے حکمرانوں کو کیا پتا کہ جس گھر میں اگلے وقت کا ٓٓآٹا نہیں ہوتا ،وہاں سکول جانا دنیا کا بے کارترین کام سمجھا جاتا ہے ، مڈل کلاس گھرانوں کے نوجوان پڑھ لکھ کر بھی ڈگریاں لئے پھرتے ہیں مگر کوئی انکی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کو تیار نہیں ، ماضی اور حال کی کسی حکومت نے نوجوانوں کے روزگار کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی ،ملک کے بڑے بڑے اور مہنگے ترین اداروں میں پڑھنے والے اے کلاس شہری، روٹی کپڑا مکان ، تبدیلی اور غربت کے خاتمے کے دعوے دار جھوٹے حکمران ،بڑی بڑی فیکٹریوں میں مزدوروں کا خون چوس کر اپنے اثاثوں میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جانے والے صنعتکار۔۔۔۔۔ اپنی دوکانوں پر ہر روز کروڑوں روپے کی تجارت کر کے دو ٹکے ٹیکس دینے والے تاجر۔۔۔۔۔آخر ان ’’لنڈے کے عوام‘‘ کو انسان سمجھنا کب شروع کریں گے ؟؟؟

FAISAL FAROOQ SAGAR
About the Author: FAISAL FAROOQ SAGAR Read More Articles by FAISAL FAROOQ SAGAR: 107 Articles with 66958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.