اردو زبان کی ایک معروف ضرب المثل ہے کہ اگر بندرکے ہاتھ
میں استرا دے دیا جائے تو اس کے بھیانک نتائج بر آمد ہوتے ہیں یہ ضرب المثل
عام طور پر ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جسب کسی نا اہل انسان کو اختیارت
سونپے جاتے ہیں۔موجودہ حالات میں گو کہ اس ضرب المثل کی حقانیت کے نمونے
ممکن ہے ہر ملک اور خطے میں مل جائیں لیکن نا اہلی کا ایک بڑا نمونہ سعودی
ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔
جنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی نا اہلی کےذریعے عالم اسلام کو بہت بڑے
مسائل سے دوچار کر دیا ہے محمد بن سلمان نے اقتدار سنبھالتے ہی جو سب سے
پہلا کام کیا وہ اسلام کو نقصان پہچانےجیسے اقدامات کا آغاز تھا جب سے آل
سعود کا خاندان سعودی عرب کا حاکم ہوا ہے تب سے امریکہ اور یورپ کا سب سے
بڑا مطالبہ یہی رہا ہے کہ سعودی عرب کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنایا جائے۔
تا کہ پوری دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلامی اثرات کو کم کیا جا سکتے لیکن سعودی
عرب کی تاریخ گواہ ہے کہ خادم الحرمین کہلانے والے کسی بھی سعودی حکمران کو
یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اسلام کے خلاف اقدامات اٹھائیں بلکہ خادم الحرمین کا
ٹائٹل رکھنے والے شاہوں نےاسلام اور عالم اسلام کے لئے قابل قدر خدمت انجام
دیں حتی اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کو ختم کرنے اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد
کے لئے جنگ تک لڑی گئی اس لئے ممکن ہے جزوہ طور پر سابقہ سعودی شاہوں کی
سیاست سے اختلاف کیا جا سکے۔
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کرسکتا کہ سابقہ سعودی حکمرانوں نے نا صرف
اسلام کو نقصان پہنچانے کے کسی عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ اسلام کی
سربلندی کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں لیکن موجودہ شاہ سلمان کی سستی
کہیں یا ان کا جذبہ پدری کہ انہوں نے سعودی عرب کی باگ دوڑ ایک ایسے جوان
کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔
جس کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اس کو اگر غرض ہے تو
صرف اپنے اقتدار سے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ لا ابالی شہزادہ اپنے باپ کو
بھی راستے سے ہٹا کر سعودی عرب کا خود مختار حاکم بن بیٹھے گا۔اس لئے کہ
محمد بن سلمان نے سعودی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ جرات کی ہے کہ سعودی عرب
سے اسلام کی جڑوں کو کاٹ دے اس مقصد کے حصول کے لئے سعودی عرب جہاں اسلامی
قانون کا نفاذ تھا اب اسے بے دینی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور جن جن علما
نے محمد بن سلمان کے اسلام مخالف اقدامات کی مخالفت کی ان کو یا تو غائب کر
دیا گیا ہے یا پھر قتل کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں علما کو قید میں ڈال دیا گیا ہے محمد بن سلمان
امریکی صدر ٹرمپ کی شہہ پر ہر اس شخص کے خلاف سخت قدم اٹھا رہے ہیں جو ان
کے اقدامات کے مخالف ہیں اسی لئے انہوں نے سعودی معروف صحافی جمال خاشقچی
کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور دنیا نے دیکھا کہ صحافی کو انتہائی
فجیع انداز میں ترکی میں سعودی سفارت خآنے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس
صورت حال میں امریکہ نے چالاک لومڑی کی طرح اس معاملے کی ابتدا میں عالمی
سطح پر سعودی عرب کے خلاف فضا سازی کی اور اس کے بعد کہا کہامریکہ سعودی
عرب کے ساتھ کھڑا ہے اور اگر محمد بن سلمان صحافی کے قتل میں ملوث بھی ہوئے
تو اس سے سعودی امریکہ تعلقات میں کوئی سرد مہری نہیں آئے گی ۔
امریکی صدر ایک طرف محمد بن سلمان کی محبت کا دم بھر رہا ہے تو دوسری طرف
دوسرے ممالک کے ذریعے سعودی عرب پر دباو ڈال رہا ہے تا کہ سعودی عرب کی
مزید جیب خالی کی جاسکے۔
اس لئے موجودہ حالات میں جب ترکی سمیت اکثر ممالک خاشقجی کےقاتلوں کی
گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں محمد بن سلمان اس بحران سے خود کو نکالنے کے
لئے اپنے دوسرے بڑے دوست اسرائل کی طرف دیکھ رہے ہیں با خبر ذرائع کا کہنا
ہے کہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں اسرائل سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا
ہے کہ اسرائل غزہ پر حملہ کر دے تا عالمی برادی کی ترجہ خاشقجی کے قتل کے
مسئلہ سے ہٹ جائے محمد بن سلمان کی اقتدار کی ہوس میں سب سے زیادہ نقصان
اسلام اور مسلمانوں کو ہو رہا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائل ایک طرف سعودی عرب سے اپنے مطالبات منوانے کے
ساتھ ساتھ ایک بار پھر غزہ پر بھرپور حملہ کرے گا تاکہ یہ ثابت کر سکے کہ
اس نے اپنے دوست محمد بن سلمان کی مدد کی ہے حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ
امریکہ اور اسرائیل نہ کبھی کسی کے دوست ہوئے ہیں اور نہ انہوں نے برے وقت
میں کسی کی مدد کی ہے اللہ کرے یہ بات لا ابالی شہزادے محمد بن سلمان کی
سمجھ میں آ جائے اگر خدا نخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو محمد بن سلمان کے ہاتھ
میں استرے سے سعودی عرب مسلمان اسلام اور حتی وہ خود بھی محفوظ نہیں رہ
سکیں گے۔ |