میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

وطن عزیز ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے دو اہم اور بڑے شہروں لاہور اور کراچی میں ایک ہی دن دہشت گردی کی بزدلانہ کاروائیاں کی گئیں جس کے نتیجہ میں لاہور میں تیرہ جبکہ کراچی میں تین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایس ایس پی ملیر کے مطابق کراچی میں حملہ آور کا ٹارگٹ عزاداروں کی بس تھی لیکن پولیس کی موبائل نشانہ بن گئی ، بم ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا جبکہ لاہور میں حضرت حسین ؓ کے چہلم اور حضرت علی ہجویری ؒ کے عرس کے شرکاء کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ویسے تو میڈیا کے مطابق پولیس ذرائع یہی کہہ رہے ہیں کہ لاہور میں ہونے والا دھماکہ خود کش حملہ تھا لیکن کچھ ذرائع اس کے برعکس کہانی بیان کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایک موقر روزنامہ میں چھپنے والی خبر کے مطابق لاہور کے اردو بازار چوک میں ہونے والے دھماکے میں میجک باکس اور مختلف تصاویر بیچنے والے ایک کمسن لڑکے کو استعمال کیا گیا اور اس کے میجک باکس والے بیگ میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا، جب اردو بازار کے نزدیک پولیس نے ایک چیک پوسٹ پر اس لڑکے کو روکا تو کسی دیگر شخص نے ریموٹ یا موبائل ڈیوائس سے دھماکہ کردیا جس سے اس تیرہ سالہ بچے کے بھی پرخچے اڑ گئے اور چیک پوسٹ پر موجود پولیس اہلکاروں سمیت تیرہ افراد خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ یہ تصور کیجئے کہ اگر وہ لڑکا کسی بھی طریقہ سے کربلا گامے شاہ یا دربار تک پہنچ جاتا تو جانی نقصان کس قدر زیادہ ہوسکتا تھا۔ اگر ہم پولیس اور انتظامیہ کو ان انتظامات پر قابل تحسین نہ جانیں تو یہ یقیناً ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے وسائل سے بڑھ کر سکیورٹی کے انتظامات کر رکھے تھے جس کے نتیجہ میں جانی نقصان بھی کم ہوا اور حملہ آور، چاہے وہ خود دہشت گرد تھا یا اپنی معصومیت میں دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا، اپنے ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکا، اس کے باوجود تیرہ انسانی جانوں کا ضیاع ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں دھماکوں میں شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں اور عوام کو جوار رحمت میں جگہ عنائت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے.... (آمین)

کچھ حکومتی عہدیدار ان دونوں دھماکوں کی کڑیاں ماسکو ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خود کش دھماکے سے ملا رہے ہیں، جبکہ دیگر رپورٹس کے مطابق یہ دہشت گردی فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی ایک منظم سازش تھی۔ لاہور دھماکے کے فوراً بعد کربلا گامے شاہ کے باہر شیعہ علماء کونسل کی طرف سے مظاہرہ کیا گیا اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ انہی دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں کی آڑ میں کچھ عناصر فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوتیں بھی دے رہے ہیں، کچھ روز پہلے الطاف حسین نے لندن سے براہ راست مطالبہ کیا کہ پنجاب میں مارشل لاء لگا دیا جائے جبکہ آج ایم کیو ایم کے رضا ہارون نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی فوج بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اے این پی اور مسلم لیگ والے کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایم کیو ایم والے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مارشل لاء کا....! یہ کیسی سیاست ہے؟ یہ کیسے عوامی اور سیاسی رہنما ہیں جو عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے، سکیورٹی اہلکاروں کا حوصلہ بڑھانے اور قوم کو اس جنگ سے نکالنے کی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے پوائنٹ سکورنگ میں مصروف و مشغول ہیں؟

سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے دشمن ہیں جو ہمارے ملک میں آئے دن اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں یا کرواتے ہیں؟ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے آئے دن خود کش دھماکے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں؟ یہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ آخر کیوں صرف ہمارا گھر ہی جلا رہی ہے؟وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر ”معصوم“ نوجوان اپنے جسم سے بم باندھ کر معصوموں کا ہی قتل کرنے اور دہشت پھیلانے جیسی مذموم کاروائیاں کرتے ہیں؟ یہ کس کا لگایا ہوا پودا ہے جو آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے اور جس سے بم دھماکے قطار اندر قطار ہمیں نشانہ بنائے چلے جاتے ہیں؟ کیا اقتدار کی بندر بانٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے، آپس میں برسر پیکار ہمارے بزعم خود سیاسی قائدین کبھی یہ بھی سوچیں گے کہ شہید ہونے والوں کے خاندانوں پر کیا بیتتی ہے؟ ان پر کیسی کیسی قیامتیں آتی ہیں؟ کس طرح وہ اپنے پیاروں کی یاد میں روز جیتے اور روز مرتے ہیں؟ ایک بم دھماکہ کتنے خاندانوں کے چراغ گل کردیتا ہے اور ساری عمر کا روگ ان کے لئے چھوڑ جاتا ہے؟ آخر کب تک ہم اپنے لہو میں نہاتے رہیں گے؟ کیوں دہشت گردی کے باپ امریکہ کو صاف اور سیدھا جواب نہیں دیا جاتا؟ کیوں بھارت، امریکہ، اسرائیل اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے؟ کیا ابھی بھی ہمیں اپنے دشمنوں کا علم نہیں ہوسکا، اگر یہ بات ٹھیک ہے تو ہماری ایجنسیاں کیا صرف پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے اور اس کے بدلے میں ڈالر سمیٹنے پر مامور ہیں؟ وہ اس ملک اور یہاں کے عوام کے لئے کب اپنی خدمات پیش کریں گی؟ اگر ان کا مقصد صرف حکمرانوں کی عیاشیوں کو تحفظ دینا ہے، اگر ان کی دلچسپی صرف اور صرف ڈالروں سے ہے تو یہ قوم انہیں چندہ اکٹھا کر کے دینے کو تیار ہے، خدارا اس ملک اور قوم کے لئے بھی کوئی نرم گوشہ پیدا کرلیں، یہاں کے عوام کی حفاظت کی بھی فکر کرلیں۔ پورے ملک کا کوئی بھی حصہ ایسی کاروائیوں سے پاک نہیں، نہ ہم گھر میں محفوظ ہیں نہ باہر، ایک قتل عام کی فضاء ہے، عوام کی ہر جانب سے قضاء ہے لیکن نہ قاتل کا پتہ نہ ماسٹر مائنڈ کا، نقاب پوش قاتلوں کا نقاب اتارنے کی نہ تو کسی میں جرات ہے نہ ہمت اور نہ کسی جانب سے کوئی کوشش ہورہی ہے، ایسے میں قوم کا بچہ بچہ پوچھتا ہے....
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.