پاکستان جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی سکھ یاتریوں کیلئے
بغیر ویزہ سسٹم کے کرتار پور بارڈر کھول رہا ہے. پاکستان کے اس اقدام کی
بدولت انڈیا میں موجود سکھ برادری میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اس وقت
ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں. پاکستان کو بھی دنیا بھر میں قدر کی نگاہ
سے دیکھا جا رہا ہے. اور اس فیصلے کی تعریف کی جا رہی ہے. کرتار پور ضلع
نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے. گردوارا کرتار پور بابا گرو نانک
صاحب جی کی آخری آرام گاہ ہے. سرحد پار سے گردوارے کا فاصلہ صرف تین سے چار
کلومیٹر کا ہے. یاتری تیس منٹ پیدل مسافت طے کرکے گردوارا دربار صاحب پہنچ
سکتے ہیں. 1999 میں پاکستان نے دربار کی یاترا کیلئے بھارت کو پیشکش کی تھی
کہ یہاں باڑ لگا کر ایک رستہ بنا دیتے ہیں تاکہ یاتری صبح آئیں اور شام کو
واپس چلے جائیں مگر بھارت نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا .اور اب
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کے
نقش قدم پر چلتے ہوئے کرتار پور بارڈر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی
پاکستانی پیشکش ٹھکرا دی ہے. وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا کہنا تھا کہ پنجاب
میں بھارتی فوجیوں کی اموات اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ہوتے ہوئے میں
پاکستان نہیں جا سکتا. ایک طرف پاکستان جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی سکھ
یاتریوں کی آسانی کیلئے کرتار پور بارڈر کھول رہا ہے، اور دوسری طرف بھارت
کے لیڈر اپنی زبان سے ہمیں جو بھاشن دے رہے ہیں اس سے لگتا تو یہی ہے کہ
ہماری طرف سے بڑھنے والے دوستی کے ہاتھوں میں اب بھی سوائے نفرت اور رسوائی
کے کچھ نہیں آئے گا. کیا ہمارے حکمرانوں کی یاد داش اتنی کمزور ہو گئی ہے
کہ ہمیں دو دن پہلے کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والا دہشتگرد حملہ
بھول گیا جس کے تانے بانے بھارت سے جا ملتے ہیں.اتنا بڑا واقعہ ہو گیا
ہمارے دو اور جوان دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے،اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا
تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھاتے کہ ہم اپنے دوست ملک کے قونصل خانے کی بھی
حفاظت نہیں کر پائے. چائنہ اور پاکستان کی دوستی کی سب سے زیادہ تکلیف بھی
بھارت کو ہوتی ہے اور وہ پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے آئے روز اوچھے
ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے. انڈیا کو آج تک 26 نومبر 2008 میں ہونے والے
ممبئ حملے نہیں بھولے جس میں بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ
حملہ آور سرحد پار سے آئے تھے اور اجمل قصاب کا تعلق بھی پاکستان سے ہے.
حالانکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان حملوں کے مرکزی کردار اجمل قصاب کا
تعلق بھارت کی ریاست اتر پردیش سے تھا. اس کا ڈومیسائل منظر عام پر آنے کے
بعد انڈین حکومت سکتے میں آ گئی اور اسے جعلی قرار دے کر منسوخ کر دیا گیا
. دس سال بیت گئے ان حملوں کو اور بھارت آج تک ان کی آڑ لے کر پاکستان سے
مذاکرات کیلئے نخرے دکھا رہا ہے اور آئے روز نہتے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا
کرکے انہیں شہید کر رہا ہے، بھارت نے پاکستان سے ہر قسم کے تجارتی و سفارتی
تعلقات بھی ختم کر دیے ہیں. یہاں تک کہ ہم آئے روز ان کی ایک کرکٹ میچ
کھیلنے کیلئے منت سماجت کر رہے ہوتے ہیں. قوم ایسے میچ دیکھنے کے حق میں
نہیں جو پاکستان کی عزت اور انا کا سودا کرکے دکھائے جائیں. اگر امریندر
سنگھ کو اپنے فوجیوں کی اموات کا دکھ ہے تو ہمیں بھی اپنے سینکڑوں جوان جو
بھارت کی طرف سے روزانہ ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ سے شہید ہو جاتے
ہیں اس سے بڑھ کر دکھ ہے. اس کے باوجود ہم بھارت سے تعاون کر رہے ہیں. ہمیں
بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی لاشوں پر اپنے تعلقات کا ہرگز سودا نہیں کرنا
چاہیے ، ہمیں بھی اپنے ملک میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی میں شہداء کے
خون کا اپنے تعلقات سے ہرگز سودا نہیں کرنا چاہیے. ہاں بلوچستان میں شدت
پسندوں کو سپورٹ کون کر رہا ہے، افغانستان میں خودکش حملہ آوروں کو تربیت
کون دے رہا ہے جو آئے روز ہماری فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے
ہیں.کلبھوشن یادیو کس ملک کا جاسوس ہے. ساری دنیا کو بھی اس بات کا علم ہے.
بھارت جو ہر وقت دہشت گردی، دہشت گردی کا شور مچاتا رہتا ہے ہم سے پوچھے
دہشتگردی کیا ہوتی ہے 9/11 کے بعد ہم پچھتر ہزار جانیں گنوا چکے ہیں.
پاکستان نے بھارت کی طرف سینکڑوں مرتبہ دوستی کے بڑھائے اور ہر بار اسے
سوائے ندامت کے کچھ حاصل نہیں ہوا. اب پاکستان کی طرف سے کرتار پور بارڈر
تو کھل جائے گا لیکن کیا بدلے میں بھارت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے دل
بھی کھل پائیں گے. |