تحریر: سعید الرحمن صدیقی
ریاست جموں و کشمیر کی معروف دینی ، سیاسی و سماجی شخصیت پروفیسر شہاب
الدین مدنی کو ہم سے بچھڑے تین سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی بیت گیا۔ خوبصورت
نورانی چہرہ اور قد آور جسامت کے مالک پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒکا روشن
چہرہ آج بھی نظروں کے سامنے ہے۔ تین سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود دل آج
بھی ماننے کو تیار نہیں کہ پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒاس دنیا میں نہیں رہے
۔ لیکن جب خطہ کشمیر میں پھیلے ہوئے جا بجا درسگاہوں مساجداور نظریاتی و
فکری تربیت یافتہ نسل پر نظر پڑتی ہے تو پروفیسرمدنی ؒ زند ہ و تابندہ نظر
آتے ہیں۔ گو کہ پروفیسرمدنیؒ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اور آزاد
کشمیر میں ان کا خاندان اہل حدیث مکتبہ فکر ومرکزی جمعیت اہل حدیث کا بانی
قراردیاجاتا ہے اور وہ خود اس جماعت کے سربراہ بھی تھے لیکن راقم نے کبھی
ان سے کسی مسلک کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنا ۔ مسلک اہل حدیث سے تعلق
رکھنے والے بعض شدت پسند لوگ پروفیسرمدنی ؒ پر تنقید بھی کرتے تھے کہ وہ
مخالف فرقوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے اور جمعیت اہل حدیث کے مراکز سے کفر
کے فتوے کیوں نہیں صادر کیے جاتے لیکن مد نی ؒ ہمیشہ مسکرا کے اس کا جواب
یوں دیتے تھے کہ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ امت کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کے
لیے مبعوث کیے گئے تھے اور میں محمد عربیﷺ کا ادنی غلام ہوں اوران ہی کی
سنت پر عمل کروںگا ۔
پروفیسر مدنی ؒکی شخصیت کے بہت سے خوبصورت پہلو تھے جن سب پر اگر لکھا جائے
تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں،لیکن ابھی مدنی مرحوم کے حالات زندگی
پر اختصار کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں ،میرا پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒ کے
ساتھ تقریبا 20 سال سے زائد کا تعلق رہا ہے ،طالب علمی کے زمانے سے ہی ان
کے پاس آنے ،ان سے ملنے اور بیٹھنے کا موقع ملا۔ مدنی مرحوم کے ساتھ بیشتر
مرتبہ سفر میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ حلیم طبع ،سخاوت،امانت داری اور عجز
وانکساری پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ کی شخصیت کے اہم پہلوہیں ۔ پروفیسر شہاب
الدین مدنی ؒ یکم جنوری 1958 کو مظفرآباد کے نواحی علاقے گھیناں میں پید ا
ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مظفرآباد میں حاصل کی بعد ازاں پرائمری کمیٹی سکول
مظفرآباداور پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے مڈل کیا اور تعلیم کے حصول کے
لیے عالم اسلام کی مشہور درسگاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلے گئے اور
وہاں سے آپ نے میٹرک ،انٹر میڈیٹ ،گریجویشن ،ایل ایل بی شریعہ و شھاد ۃ
العالمیہ کی ڈگریاں امتیازی نمبروں سے حاصل کیں۔1983 میں وطن واپس آئے اور
پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی و جامعہ کشمیر سے ایم اے اسلامیات کی
ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔بعد ازاں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر
کے گورنمنٹ ڈگری کالج پلندری میں لیکچرر تعینا ت ہو گئے ۔پروفیسر مدنی اپنے
والد گرامی مولانا محمد یونس اثری ؒ کے کہنے پر 3سال کے بعد سرکاری نوکری
کو خیر آباد کر کے اپنے والد کے ساتھ دینی محاذ پر مصروف ہو گئے اور مساجد
و مدارس کی تعمیرات کے ساتھ قدیم علمی و دینی درسگاہ دارلعلوم محمدیہ میں
در س و تدریس کا آغاز کر دیااور پھر مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ کی تعمیر
کے بعد آپ ادارے کے نائب رئیس کے طور پر انتظامی معاملات میں اپنے والد
گرامی مولانا محمد یونس اثریؒ کی معاونت کرتے تھے ۔ افغانستان میں روسی فوج
کے خلاف افغان عوام کی جدوجہد آزادی میں عملی طور پر شریک رہے اور جمعیت
اہل حدیث افغانستان کے سرکردہ افغانی کمانڈر شہید شیخ جمیل الرحمن کو جہاد
میں مکمل معاونت کرتے رہے ۔ پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒ الحاق پاکستان کے
داعی تھے اوردھرتی پاکستان سے آپ کو بے پناہ عقیدت تھی ۔ تحریک آزادی
کشمیر کے آغاز پر جب مولانا محمد یو نس اثریؒ نے تحریک المجا ہدین جموں و
کشمیر کی داغ بیل ڈالی تو پروفیسر مدنی ؒہی مولانا اثری ؒکے معتمد خاص کے
طور پر تحریک المجاہدین کے سارے معاملا ت کو دیکھتے تھے ۔کشمیری مجاہدین کو
ہتھیاروں کی فراہمی ہو یا ان کے قیام و طعام کا بندوبست ہو پروفیسر مدنیؒ
انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود اس کا خاطر خواہ اہتمام کیا کرتے تھے۔
مقبوضہ کشمیر سے اس وقت جب مہاجرین کی آمد شروع ہوئی پروفیسر مدنیؒ ان کی
میزبانی میں بھی پیش پیش نظر آتے تھے۔ مولانا محمد یو نس اثریؒ کی زند گی
میں ہی پروفیسر مدنی ؒتحریک المجاہدین کے نگران اعلیٰ اور بعداز وفات
مولانا اثری ؒ ،پروفیسر مدنیؒ تا حیات سرپرست اعلیٰ کے منصب پر فائض رہے
اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے مقبوضہ کشمیر اور بیس کیمپ مظفرآباد وعالمی
سطح پر بھی انہوں نے بھر پور کر دار اداکیا۔ پروفیسر مدنی نے سعودی عرب،
متحدہ عرب امارات اور کویت سمیت متعدد خلیجی ریاستوں کا متعدد مرتبہ دورہ
کیا ۔ اس دوران مسئلہ کشمیر وتحریک آزادی کے حوالے سے مختلف کا نفرنسز و
سمینا رز میں شرکت کی اور کشمیر کا ز کو اجا گر کیا ۔
کویت میں مسئلہ کشمیر انہوں نے اس وقت منظر عام پر لایا جب کویت اس حوالے
سے لاعلم تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ کویت میں مسئلہ کشمیر کو متعارف کروانے
والے پروفیسر شہاب الدین مدنیؒ ہی ہیںتو یہ غلط نہ ہو گا ۔ 90 کے عشر ے میں
آزاد کشمیر میں جوبلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اس میں انہوں نے آزادحیثیت
سے حصہ لیا اور بھر پورعوامی تائید سے ضلع کونسل کا الیکشن جیتنے میں
کامیاب ہوگئے ضلع مظفرآباد میں دوسرے نمبر پرزیادہ ووٹ حاصل کرنے والے
کامیاب امیدوار ثابت ہوئے ۔انہوں نے بحیثیت ممبر ضلع کونسل عوامی مفاد کے
متعدد منصوبوں پر کام کیا اور اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکومت
سے درجنوں منصوبے لیے۔ پروفیسر مدنی ؒممبر مرکزی زکوٰۃ کونسل ،ممبر مرکزی
علماء و مشائخ کونسل ،ممبر اسلامی نظریاتی کو نسل ، وائس چیئر مین علمائو
مشائخ کونسل کے منصب پر بھی فائض رہے ۔ آپ کو پاکستان کے حکمرانوں جن میں
وزیر اعظم شوکت عزیز ، وزیر اعظم چوہدری شجا عت حسین ، وزیر اعظم میر
ظفراللہ خان جمالی ، وزیر اعظم سید یو سف رضا گیلانی ، صدر مملکت آصف علی
زرداری سمیت متعدد اہم پاکستانی لیڈروں سے متعدد مرتبہ ملنے کا موقع بھی
ملا ۔ حامد نا صر چٹھہ کی زیر صدارت کشمیر کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں شرکت
کی ، وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر خارجہ سطح
کی بریفنگزمیں شرکت کرنے کا بھی موقع ملتا رہا ۔2006 تا 2011 کے مسلم
کانفرنس کے حکومتی دورمیں حکمران پار لیمانی پارٹی کے اعزازی ممبر رہے اور
اہم حکومتی فیصلوں کا حصہ رہے ۔ مسلم کانفرنس پروفیسر مدنی کے تمام مشوروں
اور سفارشات کو من و عن تسلیم کرتی تھی ۔
پروفیسر مدنی ؒ رابطہ عالم اسلامی کے مندوب برائے کشمیر اور سعودی حکومت کی
تنظیم ورلڈ اسمبلی آف یو تھ کشمیر چپٹر کے سرپرست اعلی رہے ۔ حکومت سعودیہ
عرب کے فلاحی ادارے موسسئۃ الحرمین الخیریہ کے ممبر ،اوراحیاء التراث
الاسلامی کویت کے ساتھ بھی مدنی مرحوم کے گہرے روابط تھے۔خلیجی ممالک اور
بالخصوص سعودی عرب میں متعدد عالمی سطح کی اہم کانفرنسز میں شرکت کرنے اور
وہاںریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ سعودی و کویت
حکومت پروفیسر مدنی ؒکی سفارش پر پاکستانی شہریوں کو ویزے جاری کرتی رہی
اور ان کے تزکیہ پر سعودی عرب کی یونیورسٹیز میں پاکستانی و کشمیری طلباء
کو داخلہ اور سکالر شپ دیا جاتا رہا ۔ عالم اسلام کے مشہور عالم دین ،مفتی
اعظم الشیخ عبدالعزیز بن باز، ؒ پروفیسر مدنی ؒ کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے
تھے اور آپ کاشمار ان کے انتہائی فرمانبردار اور محنتی شاگردوں میں ہو
تاتھا ۔ پروفیسر مدنی ؒ عرب زبان کے تقریبا سب لہجوں سے واقف تھے اور اس کے
ساتھ افریقی زبان کو بھی کسی حد تک سمجھ لیتے تھے۔مسلم کانفرنس کے سپریم
ہیڈ و سابق صدر و وزیر اعظم سردار محمد عبدالقیوم خانؒ بھی پروفیسر شہاب
الدین مدنی ؒ کی عربی زبان و گرائمر و لہجہ کے معترف تھے اور آزاد کشمیر
میں عربی کے حوالہ سے پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒ اور سیکرٹری مذہبی امور
آزاد کشمیر سید نظیر الحسن گیلانی پر اعتماد رکھتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں ایک
کانفرنس کے دوران حکومت سعودی عرب نے اس قدر عزت و احترام و تکریم کی کہ
امام کعبہ الشیخ سعودالشریم اور انہیں روم میٹ رکھا گیا۔ پروفیسر مدنیؒ
اکثر ملاقاتوں میں راقم کو کہا کرتے تھے کہ جب بھی میرا دل بیت اللہ و روضہ
رسول ﷺکی زیارت کو کرتا ہے تو اللہ غیبی مدد بھیج کر اس کا اہتمام خودکر
دیتا ہے ۔ بغیر وسائل کے سعودی حکومت کے مہمان کی حیثیت سے بلاوا آ جاتا
تھا۔2006ء میں انہیں اس وقت کے سعودی حکمران شاہ عبداللہؒ نے حج پر اپنے
مہمان کی حیثیت سے آنے کی دعوت دی لیکن اسی سال آپ کوحکومت آزاد کشمیر نے
حج وفد کے سربراہ کی حیثیت سے حجاز مقدس جانے کی استدعا کر دی اور بعد ازاں
آپ نے کشمیری حج وفد کی قیادت کی ۔
اس حج وفد میں سا بق وزیر حکومت حنیف اعوان، موجودہ ممبر آزاد کشمیر اسمبلی
و مسلم لیگ ن کے رہنما احمد رضا قادری ،ممتاز صحافی سید ابرا ر حیدر ،نوائے
وقت کے نمائندہ سلطان سکندر اور سیکرٹری مذہبی امور سید نظیر الحسن گیلانی
سمیت متعد د اہم شخصیات شامل تھیں ۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث چونکہ مسلم
کانفرنس کی ہمیشہ اتحادی رہی اس لیے اسلامائزیشن کے حوالے سے آج جو کچھ بھی
نظر آ رہا ہے وہ مولانا محمد یونس اثریؒ اور پروفیسر مدنیؒ ہی کی کاوشوں کا
ثمر ہے ۔ جن میں چید ہ چیدہ کا احوال کچھ اس طرح سے ہے کہ اسلامی نظریاتی
کونسل کے ممبر ان کی ممبر اسمبلی کے برابر مراعات حکومت سے منظور کروائیں
،محکمہ زکوٰۃ کے قیام سے 2008تک اس میں کام کرنے والوں کا کوئی بھی پنشن کی
مراعات حاصل نہ تھیں آپ کے کہنے پر وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے
محکمہ زکوٰۃ کو پنشن کا حق دیا ۔محکمہ قضا و افتاء (قاضی و مفتی صاحبان) کی
پروموشن نہیںتھی جو جس گریڈ میں تعینات ہوتے تھے اسی میں ریٹائرڈ ہو جا تے
تھے۔ آپ کی محنت اور وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کی خصوصی دلچسپی سے
قاضی و مفتی صاحبان کو گریڈ ز و پروموشن کا حق دلوایا اور انہیںپھر وہ تمام
حقوق حاصل ہو گئے جو کہ ججز صاحبات کو دیئے گئے تھے، مسلم کانفرنس حکومت کے
اتحادی ہونے کے باعث میرٹ پر تقرریاں ،تبادلے اور تعمیر و ترقی کے کام
تواتر سے حکومت سے کرواتے رہے،مدنی مرحوم نے حکومت سے وہ کام بھی کروائے جو
ممبران اسمبلی بھی نہ کروا سکے ۔ وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان سے آزاد
کشمیر کا ٹورازم شارٹسٹ وے اسلام آباد ،مری ،مظفرآباد ،کہوڑی، گھنیاں،کوہ
مکڑاتا شوگراں سڑک کا منصوبہ منظور کروایا ۔ 2000ء میںپروفیسر مدنی ؒ مر
کزی جمعیت اہل حدیث آزادجموں و کشمیر کے نائب امیر مقرر ہوئے ۔2001ء میں
قائم مقام امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث کا منصب سنبھالا ،آپ اپنے والد محترم
مولانا محمد یونس اثریؒبانی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں وکشمیر کی
وفات 21ستمبر 2004ء تک اس منصب پر فائض رہے ۔21مئی 2005ء کو آپ کو مرکزی
جمعیت اہل حدیث کی مرکزی مجلس شوریٰ و عاملہ نے اتفاق رائے سے امیر منتخب
کیا او ر تا حیات اس منصب پر فائض رہے ۔
8اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا آپ
کو متعدد مرتبہ اندرون و بیرون ملک سے چاہنے والوں نے بالمشافہ اور ٹیلی
فون پر مظفرآباد چھوڑکر وہاں آنے کی بمعہ اہل خانہ دعوت دی ۔ مگر آپ نے
شکریہ کہہ کر اور ساتھ یہ کہتے ہوئے تمام دعوتوں کو مسترد کر دیا کہ اللہ
نے جب زندگی دوبارہ بخشی ہے تو اس کو نیکی میں لا نا ہے ۔اور پھر دنیا نے
بھی دیکھا اور مظفرآباد ،باغ،بالاکوٹ کے عوام نے بھی پروفیسر مدنیؒ کو
عوام کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا ۔ 8اکتوبر کے زلزلے کے بعد آپ نے دُکھی
انسانیت کی بھر پور انداز میں مدد کی اور اپنے ادارے جامعہ محمدیہ جو کہ
مرکزی جمعیت اہل حدیث کا مرکزی سنٹر ریلیف کیمپ تھا اس سے متعدد ریسکیو
آپریشن کو خود مانیٹرکرتے رہے ۔ اس دوران آپ کی اولاد جس میں ہونہار
فرزند دانیال شہاب مدنی اوربرادر اکبر، محی الدین اثری ریلیف آپریشن میں
سرگرم عمل رہے ۔ مظفرآباد نیلم ، باغ، اور جہلم ویلی کے عوام کیلئے بھر
پور انداز میں کھانے پینے کا سامان ،کمبل ،خشک راشن ،میڈیسن ،ترپال،خیمے
،شیلٹرز کی تقسیم بلا تخصیص کی اور متعد د تعلیمی اداروں کو اشیائے ضروریہ
اور طلباء کے لیے کتب کی فراہمی بھی کی ۔ آپ تمام مسالک میں یکساں مقبول
تھے ۔ اہل تشیع کی امام بارگاہ مظفرآباد میں بم دھماکہ دہشت گردوں نے
9محرم الحرام کی شب کیا ، اور ایسے میں پروفیسر شہاب الدین مدنی ؒ نے اپنے
والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل تشیع سے اظہار ہمدردی کرنے کیلئے سب سے
پہلے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے 20رکنی وفد کے ہمراہ ان کی امام بارگاہ میں
پہنچ گئے ۔ انھوں نے اس مشکل وقت میں اتحاد و اتفاق و مذہبی ہم آہنگی
کوفروغ دینے کیلئے تمام مکاتب فکر کو دوبارہ راستہ دکھا دیا ۔آزاد کشمیر
میں بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے آپ کا اہم کر دار ہے ۔
آپ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ آزاد کشمیر کے سینئر نائب صدر کے منصب
پربھی فائض رہے جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام و مدارس دینیہ کے
مہتمم صاحبان موجود تھے۔ لیبیا کے حکمران وقت کرنل معمر قذافی کے فرزند سیف
السلام قذافی آزاد کشمیر پاکستان کے دورہ پر آئے تو پروفیسر شہاب الدین
مدنی ؒ کوان کا ترجمان مقرر کیاگیا۔ آزاد کشمیر میں لیبیا کی حکومت کی جانب
سے زلزلہ متاثرین امداد کی بڑی کھیپ تقسیم کی گئی۔ 8اکتوبر 2005ء کے زلزلے
کے بعد سائوتھ ایشیاء میں امریکی نمائندے ڈیوڈ جے کیڈز آپ سے ملا قات
کیلئے مرکز اہل حدیث جا معہ محمدیہ آئے اور مرکزی جمعیت اہل حدیث اور آپ
کی خدمات برائے متاثرین زلزلہ کو زبردست سراہا ا ور امریکی حکومت کی جانب
سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پروفیسر مدنی نے اس وقت امریکی حکومت سے ملنے
والی امداد کی پیش کش شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی تھی ۔ آپ کی خدمات پر اور
آپ کے حالات زندگی پر انٹریو کرنے کیلئے مشہور رائٹر جانتھن پاول مرکزاہل
حدیث جامعہ محمدیہ مظفرآباد خصوصی طور پر آئے اور پھر مشہور رسالہ انٹر
نیشنل ہرلاڈٹریبیون میں آپ کی خدمات و آپ کی زندگی پرتحریر شائع کی
گئی۔سعودی حکومت کی جانب سے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں شیلٹرز پروگرام شروع
میں آ پ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر آپ نے شکریہ کہہ کر معذرت کر
لی کہ اتنا بڑا کام سرکاری سطح پر ہی کیا جائے تاکہ اس کے دورس نتائج سامنے
ائیں ۔پروفیسر مدنی کی تجویز پر یہ شیلٹرز پروگرام حکومت کے زریعے پایہ
تکمیل تک پہنچایا گیا۔ 21ستمبر 2004ء کو جب مولانا محمد یو نس اثریؒ کی
وفات ہوئی اس وقت تک آزاد کشمیر بھرمیں اہل حدیث مساجد کی تعداد 228ہو گئی
تھی اور پھر آپ کی قیادت میں ان مساجد میں اضافہ ہوا اور آپ کی وفات تک
ان مساجد کی تعداد ریاست بھر میں 422سے زائد ہو چکی تھی، مظفرآباد میں
خصوصا وہ تمام مساجد جو زلزلہ میں شہید ہو چکی تھی،پروفیسر مدنیؒ کی کوششوں
سے تقریبا و ہ تمام اہل حدیث مساجد از سر نو تعمیر ہو گئی تھیں اور آزاد
کشمیر کے 190سے زائد مقامات پر عیدین کے اجتماعات کا انعقاد بھی ہونا شروع
ہوئے ۔پروفیسر مدنی ؒ رمضان المبارک میں مرکزی جامع مسجد اہل حدیث محمدی
مدینہ مارکیٹ میں تراویح کے دوران تلاوت کیے جانے والے سپارے کی تفسیر بیان
کرتے اور تکمیل قرآن کے مو قع پر آشوب دعا کروانا شہر بھر میں اس قدر
مشہور تھا کہ دور دراز سے لوگ اس دعا میں شرکت کے لیے آتے تھے۔
عیدین کی نماز جو کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث گزشتہ 60سال سے زائدعرصہ سے
یونیورسٹی کالج گرائونڈمظفرآباد میں ادا کر رہی ہے،جہاں پہلے مولانا محمد
یونس اثری ؒ امامت کرواتے تھے اور بعد ازاں پروفیسر مدنی ؒ نماز و خطبہ
عیدارشاد فرماتے تھے ،اس موقع پر آپ کی دعا کروانا اور پھر اس دعا کا اثر
کرنا ،اتنا مثالی تھا کہ دل خود بخود نرم ہوتے چلے جاتے تھے اور آنسو تھمنے
کا نام نہیں لیتے تھے ،بیشتر مرتبہ وہاں پر دیگر مسالک کے لوگوں سے ملنے کا
اتفاق ہوا تو سب کا اک ہی کہنا ہوتا تھا کہ جو سکون مدنی صاحبؒکی دعا
کروانے میں اور اس میں شامل ہونے میں ملتا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے ۔آپ
ؒنے آ خر وقت تک منبر و محراب کے ساتھ اپنا تعلق رکھا، اپنی وفات سے5 دن
پہلے اپنا آخری عوامی خطاب ،خطبہ جمعتہ المبارک کی صورت میں انہوں نے
کیا۔آپ نے تقریباً 25سال سے زائد عرصہ مرکز اہل حدیث جامعہ محمدیہ اپر چھتر
میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا،آپ جامعہ محمدیہ کے رئیس بھی تھے اور آخر وقت
تک حدیث کے اسباق طلباء کو خود پڑھایا کرتے تھے۔آ پ 25نو مبر2015کو بروز
بدھ صبح فجر کے وقت 5:25پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ آ پ کی نمازجنا زہ
یونیورسٹی کالج گرائونڈ میں ممتاز عالم دین و نائب امیر مرکزی جمعیت اہل
حدیث آزادجموں و کشمیر (وقت)مولانامحمد صدیق صدیقی بالا کوٹی کی اقتداء
میں ادا کی گئی ۔
آ پ کے جنا زہ کا شمار ریا ست کے بڑے جنا زوں میں ہو تاہے،آپ کی نماز ہ
جنازہ میں ہرشعبہ زندگی و ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔آپ
کی نماز ہ جنازہ کی ادائیگی کے موقع پر یونیورسٹی کالج گرائونڈ میں ہر آنکھ
اشک بار تھی۔ آپ کو آنسوئوں و دعائوں میں اپر چھتر مظفرآباد کے قبرستان میں
سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد تعزیت کا طویل سلسلہ جاری رہا ،جس میں
آزاد کشمیر،پاکستان اور بیرون ممالک سے اہم شخصیات نے مدنی ہائوس میں آ کر
ان کے فرزند دانیال شہاب مدنی سے تعزیت کی۔ آپ نے پسماندگان میں ایک بیوہ
اور تین بیٹے چھوڑے ہیں، بڑے فرزند دانیال شہاب مدنی ہیں جو مرکزی جمعیت
اہل حدیث آزادجموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ ونائب رئیس الجا معۃ المحمدیہ کے
منصب پر فائض ہیں آ پ کے فرزند نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی
حاصل کر رکھی ہے اوربزنس ایڈمنسٹریشن و اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریز حاصل
کر رکھی ہیں ۔ حافظ اسامہ شہاب کمپیوٹرسائنسز میں ماسٹرز کر چکے ہیں اور سب
سے چھوٹے بیٹے خبیب شہاب میرپور انجینئر نگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم
ہیں۔مرکزی جمعیت اہل حدیث آزاد جموں وکشمیر کی قیادت عملی طور پر اس وقت
بھی پروفیسر مدنی ؒ کے گھرانے کے ہاتھوں میں ہے اور اشاعت دین کے حوالے سے
پروفیسر مدنی کے ہونہار اور با صلاحیت فرزند دانیا ل شہاب مدنی اک نئے عزم
و حوصلہ کے ساتھ آج بھی میدان عمل میں موجود ہیں۔ دانیال شہاب مدنی بہترین
قائدانہ صلاحیت کے ساتھ جدید اسلوب کے تحت جماعت کو چلانے کی بھر پور
صلاحیت رکھتے ہیں۔دانیال شہاب مدنی کی صورت میں آزد کشمیر میں مرکزی جمعیت
اہل حدیث کا مستقبل توانا اور روشن نظر آ رہا ہے ۔ |