اﷲ سبحان تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا’’اور جو
لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں
کرتے تو آپ ان کو دردناک سزا کی خبر سنادیں۔جس دن (اس مال کو )دوزخ کی آگ
میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں اوران کی گردنوں اور ان کی
پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا )یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لئے جمع
کر کے رکھا تھا پس اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو(التوبہ۔۴۳۔۵۳) ایک اورمقام
پرارشاد ہوا’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں سے دینے میں جو اﷲ نے انہیں
اپنے فضل سے دی ہے، اسے ہرگز اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے
برا ہے۔ عنقریب وہ مال جس میں انہوں نے بخل کیا تھا (اور راہِ خدا میں خرچ
نہیں کیا تھا) قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق ہو گا(الِ عمران۔ 180)قارئین
محترم آج راقم معاشرے کا ایک انتہائی فکرانگیزپہلوپیش کرنے کی جسارت کرنے
جارہی ہے،اُمیدہے آپ غورفرمائیں گے،آپ نے دیکھاہوگاکہ ہم لوگ گھرمیں
موجوداضافی کپڑے جوتے اوردیگرچیزیں سنبھال رکھنے کی بجائے اپنے
اردگردموجودغریبوں،مسکینوں،حق داروں میں تقسیم کردیتے ہیں تاکہ اُن کوبھی
آسانی میسرآئے اورہمیں بھی بوجھ ہلکاکرکے کچھ راحت ملے اورساتھ ہی آخرت
کیلئے بھی کچھ سامان ہوجائے۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح اپنے اپنے اندازمیں،
اپنی اپنی حیثیت کے مطابق غربیوں ،مسکینوں کیلئے حصہ نکالتے ہیں،یہاں بھی
درجات ہیں کوئی اپنے وسائل کازیادہ حصہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتاہے
توکوئی کم۔یہ بھی سچ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نیتیں دیکھتاہے رقم یاچیزوں کی
تعدادیاوزن معنی نہیں رکھتے ۔بیشک اﷲ سبحان تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے
والوں کودنیاوآخرت میں اجرسے نوازاجاتاہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اﷲ تعالیٰ
کے عطاکردہ نعمتوں کواﷲ سبحان تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسکینوں میں تقسیم
کرنے کاحکم ہے توپھرکیوں ہم لوگ اﷲ رب العزت کاعطاکردہ علم وہنرحقداروں میں
تقسیم کرنے میں بخل کرتے ہیں؟علم وہنربھی تواﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جورزق
کمانے کابہترین ذریعہ ہیں۔کیااپنی کمائی میں سے کچھ خرچ کردینے سے مقصد
پوراہوجاتاہے؟کیاجن مسکینوں پرہم خرچ کرتے ہیں وہ کبھی خودکفیل ہوپاتے
ہیں؟جواب ہے نہیں بالکل بھی نہیں وہ ہمیشہ غربت کی چکی میں پستے رہتے
ہیں،علم وہنرکبھی خرید نہیں پاتے۔ہم اپنی محنت کی کمائی میں سے اﷲ تعالیٰ
کی راہ میں جن پرخرچ کرتے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں طرف یعنی مخلوق کی طرف متوجہ
رہتے ہیں۔جب ہم اپنی محنت سے کمایاسرمایہ اﷲ تبارک تعالیٰ کی راہ میں خرچ
کردیتے ہیں توپھرہم ایسے ناداراورحق داروں کووہ ہنرکیوں نہیں سیکھاتے
جوہمیں اﷲ پاک نے عطاکیاہوتاہے۔کوئی غریب جب ہم سے ہنرسیکھنے آتاہے،کسی
چھوٹے موٹے کام کیلئے مشورہ یامعلوماتی رہنمائی حاصل کرناچاہتاہے توہم
اکثرایسے لوگوں کوجھڑک دیتے ہیں،کسی غریب کابچہ کہیں کام (ہنر)سیکھنے کیلئے
شاگردی کرے تواسے چار چارسال تک اپنی دکان،کارخانے کی صفائی،چائے لانے
بنانے اوربرتن دھونے میں لگائے رکھتے ہیں،اس بچے اوراس کے والدین پرساری
زندگی احسان جتاتے ہیں ،کیاہی بہتر ہوکہ ہم ایک ایسی مہم کاآغازکریں جس کے
تحت ہم میں سے جس کے پاس جو ہنرہے وہ اپنے اردگردغریبوں
کوجلداورپوراہنرسکھائے،جس کے پاس اﷲ تعالیٰ کے فضل سے مال ودولت کی فروانی
ہے وہ کسی غریب پرایسے خرچ کرئے کہ وہ اپنے ہنرکے مطابق کام شروع کرسکے
تاکہ آنے والے وقت میں وہ غریب بھی کچھ اورلوگوں کوہنرسیکھائے ،مالی سپورٹ
کرکے اپنے پاؤں پرکھڑاہونے میں مددکرے۔جن کے پاس علم کی دولت ہے وہ اپناکچھ
وقت نکال کر غریبوں کے بچوں کوتعلیم کے حصول میں مددکیلئے مفت
پڑھادیاکریں،کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم پیسے،کپڑے،جوتے،آٹادالیں،گھی
اورنمک تیل وغیرہ تواﷲ تعالیٰ کی راہ میں دے دیتے ہیں پرجب باری آتی علم
وہنرکی توسانپ بن کرکاٹنے کودوڑتے ہیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسی مہم
کاآغازکیاجائے جس کے تحت لوگ ایک دوسرے کواس بات پرقائل کریں کہ وہ اپنے
رشتہ داروں اوراردگردموجودحق داروں کوعلم وہنرسیکھنے سے لے کرتب تک ایسے
اندازمیں مددکرتے رہیں کہ وہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائیں۔یاشائدہم لوگ یہ
سمجھ بیٹھے ہیں کہ پرانے کپڑے،جوتے یاچندروپے خرچ کردینے سے ہمیں اﷲ تعالیٰ
کی رضاحاصل ہوجائے گی؟راقم نے یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی ہے کہ جب تک
ہماری نیت کسی غریب کواُس کے پیروں پرکھڑاکرنے کی نہیں ہوگی تب تک اﷲ رب
العزت کے احکامات کی مکمل پیروی ممکن نہیں چاہے عارضی مدد پرزیادہ خرچ
کردیاجائے۔بیشک رازق اﷲ تعالیٰ ہے ہم کسی کوکچھ نہیں دے سکتے یہ زندگی
توایک آزمائش ہے جس پرپورے اترنے کیلئے ہمیں خلوص دل ونیت کے ساتھ کوشش
کرتے رہناچاہئے۔جوعلم وہنر ہمیں اﷲ تعالیٰ نے عطافرمایاہے اسے بھی حقداروں
میں ایسے دل کھول کرتقسیم کرناچاہیے جیسے کوئی سخی لنگرتقسیم کرتاہے۔یہ
ضروری نہیں کہ ہماری پہلی یاآخری کوشش معاشرے میں غربت کوختم کردے البتہ
ہمیں اپنے حصے کاچراغ جلاکرسخت اندھیروں کے سکوت کوتوڑدیناچاہئے تاکہ ہماری
آنے والی نسلیں بھی اسی طرززندگی کو اپنائیں۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
اوررسول اﷲ ﷺ کی احادیث میں بیشمارمرتبہ اس مسئلہ پرتفصیلی روشنی ڈالی
ہے۔جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے’’ہا ں تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اﷲ کی راہ
میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر بعضے تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے
ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے سے بخل کرتا ہے اور اﷲ توبے
نیاز ہے (یعنی کسی کا متحاج نہیں)اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم (بخل کر کے
اس کے حکم سے )رو گردانی کرو گے تو اﷲ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوموں کو
پیدا فرمادے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔(محمد۔۸۳) اﷲ سبحان تعالیٰ سے
دعاہے کہ ہمیں نیک عمل کرنے ،نیکی ،بھلائی اورخیرخواہی کی دعوت عام کرنے
اورمسکینوں کے دکھ دردبانٹنے کی توفیق وطاقت عطافرمائے(آمین) |