تحریر:عامر ظہور سرگانہ
کچھ دنوں سے تنقید کے بارے میں تجسس تھا کہ یہ کیا بلا ہے۔ہم لوگوں نے اسے
ایک ہنر ایک مہارت سمجھ لیا ہے۔تو ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں نے
کہا، ’’حضرت آپ تنقید اور آزادیِ اظہار کے بارے میں کیا کہتے ہیں‘‘۔کہنے
لگے،’’ تنقید کا اختیار آزادی اظہار کا حصہ ہے۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں
ہونا چاہئے‘‘۔ میں نے کہا،’’ حضرت انسان سب سے اعلیٰ جانور ہے۔آزادیِ اظہار
میں جانوروں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ جو بھی کرتے ہیں اپنی یکسر آزادی سے
کرتے ہیں‘‘۔ کہنے لگے، ’’تنقید عرفان کا پہلا باب ہے۔اگر آپ میں تنقید
برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں تو آپ خود شناسی کبھی نہیں کرسکتے‘‘۔
میں نے کہا،’’ حضرت یہ سیاسی تنقید کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘‘۔کہنے لگے،’’
یہ تنقید کی سب سے واہیات قسم ہے‘‘۔میں نے پوچھا،’’ حضرت تنقید کی شدت سب
سے زیادہ کن لوگوں میں پائی جاتی ہے۔کہنے لگے شعراء اور لکھاریوں میں‘‘۔میں
نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا۔نعیم بخاری صاحب سے کسی اینکر نے سوال کیا کہ
،’’حضرت فلاں سیاست دان نے آپ پر بڑی تنقید کی ہے‘‘۔ تو موصوف ہنستے ہوئے
کہنے لگے کہ،’’ کرتے رہیں اس سے میرا کیا جاتا ہے۔میرے لیے نظریہ اہم ہے
لوگوں کا میں نے کیا کرنا۔ تو کہنے لگے یہ تو برداشت ہے۔ تنقید اور برداشت
دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عمومی طور پر تنقید کرنے والے لوگ برداشت سے عاری
ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ظرف کامل کسی میں یکجا ہے تو وہ بڑا باکمال آدمی ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’ حضرت تنقید کا مثبت جواب کیسے دینا چاہئے‘‘۔کہنے
لگے،’’اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ کوفہ یا غا لباً دمشق کا گورنر تبدیل ہوا
تو اس کی محفل میں کچھ لوگ بیٹھے تھے۔محفل میں سے کسی نے کہا کہ جناب اس
دور میں حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بڑا صاحبِ علم کوئی نہیں ہے تو
گورنر نے کہا ابھی پرکھ کے دیکھ لیتے ہیں۔ اس نے قاصد کو بلوایا اور کچھ
نازیبا الفاظ کہے اور حکم دیا کہ بھری محفل میں یہ بات حضرت حسن ابن علی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہنا اور جو وہ جواب دیں وہ لے کر واپس آجانا۔حکم کی
تعمیل میں قاصد آنحضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش ہو ا اور کہنے
لگا آپ کے لیے گورنر صاحب نے یہ پیغام بھیجا ہے۔تو آپ نے قاصد کو فرمایا کہ،
’’گورنر سے کہنا کہ جو اس نے کہا ہے ،وہ میرے اندر ہے تو اﷲ تعالیٰ مجھ پر
رحم فرمائے اور اگر وہ میرے اندر نہیں ہے تو اﷲ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے‘‘۔
قاصد آنحضرت کا جواب لے کر جب لوٹا تو جواب سن کر گورنر سکتے میں آگیا اور
بھری محفل میں کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ ،’’میں گواہی دیتا ہوں کے عصرِ حاضر
میں نواسہ رسول ﷺسے بڑا کوئی صاحبِ علم نہیں ہے۔
میں نے کہا جناب یہ تو بڑا احسن طریقہ ہے۔کہنے لگے یہ اسلامی طریقہ ہے۔کہنے
لگے آج کی نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ چیزوں کو پرکھتی نہیں ہے۔ ان کی
اپنی رائے محض اس حد تک ہے کہ جی میاں صاحب نے کہا ہے۔خاں صاحب تو غلط بات
کر ہی نہیں سکتے جی۔یہ تو سب فوج کروا رہی ہے۔بیرونی طاقتیں ہیں جی جو سب
کروا رہی ہیں۔ بندہ پوچھے اس سارے عمل میں تمہاری اپنی رائے کہاں
ہے؟مشاہدہ،شعور کیا کرائے پہ دیا ہوا ہے ،جو میاں صاحب کے مستعار لیے ہوئے
دماغ پہ کام چلانا ہے۔کہنے لگے جی یہ جو خان صاحب ہے کیا یہ انسان نہیں ہے؟
اس سے غلطی نہیں ہو سکتی؟میں نے کہا جی بالکل ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے پھر یہ
سیاپا ختم کیوں نہیں ہوتا۔
میں نے کہا حضرت سیاست سے ہٹ کے کوئی بات کریں۔یہ موضوع تو دردِ سر بن گیا
ہے۔ کہنے لگے تو نہ بناؤ۔ بولے کبھی دبلا پتلا سیاستدان دیکھا ہے؟یہ جو
کہتے ہیں کہ جی میاں صاحب قوم کی فکر اور مستقبل کے اندیشے میں دن بدن دبلے
ہوتے جارہے ہیں۔توسن کر قہقہے لگانے کا من کرتا ہے۔ او جی خاں صاحب کو
راتوں کو نیند نہیں آتی۔ آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں۔ ہمیں ان کا ساتھ دینا
چاہئے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک آدمی کے پاس سوائے ووٹ دینے کہ رہ بھی کیا
گیا ہے۔
آدمی جب بھی سیکھتا ہے اپنوں کی تنقید سے سیکھتا ہے۔دشمن یا کسی دوسرے کی
تنقید محض تنقید سمجھی جاتی ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ اپنا کوئی کیوں کر
تنقید کرے اس نے اپنا حقہ پانی بند کروانا ہے۔ میں ہنسی میں لوٹ پوٹ ہوتا
ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔میں نے کہا حضرت تنقید کس حد تک برداشت ہو
سکتی ہے۔؟نرم لہجے میں قریباً سرگوشی سے بولے برداشت کے لیے صاحب علم ہونا
ضروری ہے۔اور اﷲ والا ہونا بھی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔میں نے کہا قبلہ
تنقید کتنی قسم کی ہوتی ہے۔؟کہنے لگے بھئی تنقید تو تنقید ہوتی ہے۔اس میں
کوئی اچھا برا کیا ہوا۔ ایک چیز برداشت نہیں ہوئی تبھی تو تنقید ہوتی ہے۔
تنقید کرنے والا کتنا بھی اچھا ہو سامنے والے کے دل سے اتر جاتا ہے۔ یہ
مسئلہ ہر آدمی کا ہے جو معصوم نہیں ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اٹھ
کے چل پڑا۔ |