امریکا نے نائن الیون کے بعد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف
جو جنگ چھیڑی اس کے ہولناک نتائج پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک پر پڑے۔
نائن الیون کے بعد اب تک 48لاکھ کے قریب انسان ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف’’جنگ‘‘
میں مارے جاچکے ہیں۔ 244,000عام شہری جاں بحق ہوئے تو ان کے مقابلے میں صرف
650کے قریب امریکی ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکا نے 7800ایسے افراد کو بھی موت کے
گھاٹ اتارا جس کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، 21ملین سے زیادہ
افغانی، عراقی، پاکستانی اور شام کے لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ عراق
اور افغانستان میں امریکا نے 170بلین ڈالر خرچ کیے لیکن اس کا بیشتر حصہ
انسانی و معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے امریکی فوجیوں کی دیکھ بھال
اور جنگی سازو سامان پر خرچ ہوئے۔ عراق، افغانستان، شام کی جنگوں کی لاگت
قریباً 5.9ٹریلین ڈالر ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا نے ان جنگوں
سے انخلا کے لیے قابل ذکر کام نہیں کیا، یہاں تک کہ افغانستان میں جب
امریکا بذات خود افغان طالبان سے مذاکرات کررہا ہے تو صدر ٹرمپ نے شکوک و
شبہات پیدا کرنا شروع کردیے ہیں کہ ’’پتا نہیں مذاکرات کامیاب ہوں گے کہ
نہیں، شاید ہوں گے، شاید نہیں ہوں گے۔‘‘
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے مسلم اکثریتی ممالک میں جس قدر جنگ
مسلط کی وہ ایک بھیانک عمل ہے۔ 48لاکھ انسانوں کا مارے جانا بہت بڑا المیہ
ہے جس پر انسانی حقوق کے علم بردار ممالک اور تنظیموں کی خاموشی سمیت اقوام
متحدہ کا کردار بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ براؤن یونیورسٹی کے زیر
اہتمام واسٹن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل و پبلک افیئرنے نائن الیون کے بعد دنیا
میں مرتب ہونے والے حالات و واقعات پر گہری ریسرچ کی ہے۔ اعداد و شمار کے
گنجلک دائرے میں جانے کے بجائے ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ دہشت گردی
کے خاتمے کے نام پر 48لاکھ انسانوں کو امریکا نے اپنی جنگ میں ہلاک کیا
لیکن ان کی ڈاکٹرائن میں یہ دہشت گردی نہیں کہلاتی، بلکہ دہشت گردی کے خلاف
’’جنگ‘‘ کہلاتی ہے، جس کا دوسرا مطلب امریکا کے نزدیک یہ 48لاکھ انسان دہشت
ہوسکتے تھے، ہوں گے یا دہشت گردوں کے سہولت کار۔ جب کسی بھی ملک پر دہشت
گردی مسلط ہوتی ہے تو وہ اس جنگ کو اپنے ملک تک محدود رکھنے کی کوشش کرتا
ہے۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ اس وقت کئی ممالک ’’دہشت گردی‘‘ کی جنگ کو
دوسرے ممالک میں منتقل کررہے ہیں۔
امریکا کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ امریکا میں ہر سال 30ہزار
افراد دہشت گردی کی مختلف واقعات کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان میں سکولوں کے
طلبا، نائٹ کلب و ایونٹس پراندھا دھند فائرنگ، گاڑیوں کو عام شہریوں پر
چڑھانے سمیت چھریوں سے متعدد امریکی شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے واقعات
شامل ہیں۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف اسٹرٹیجی تبدیل
کی تھی اور اپنی ریاستوں کے گرد حفاظتی حصار کو سخت سے سخت کیا تھا۔ یہاں
تک کہ پناہ گزینوں کی آمد پر پابندی سمیت میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی
تعمیر جیسے اقدامات کیے۔ یہاں تک کہ تارکین وطن کو روکنے کے لیے انتہائی
سخت فیصلوں میں امریکا میں غیر قانونی طریقے سے آنے والے پناہ گزینوں کے
بچوں کو والدین سے بھی علیحدہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی، لیکن اس کے
باوجود کہ امریکا دنیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی رکھتا ہے، اس کے تفتیشی
ادارے دنیا بھر میں امریکا کی حفاظت کے نام پر جنگ مسلط کروا کر خود محفوظ
رکھنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان بھی امریکا کی وجہ سے گزشتہ چار
عشروں سے عالمی قوتوں کی جنگ میں’’دانستہ‘‘ کودا اور گزشتہ دو دہائیوں میں
مملکت کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہوا اوراب وطن عزیز ان مشکلات سے نکلنے
کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ لیکن ملک دشمن عناصر نے فروعی مقاصد کے لیے
پاکستان کی سرزمین کو عالمی پراکسی وار کا دنگل بنادیا ہے۔ اس وقت فرقہ
وارانہ، لسانی، مسلکی، گروہی، نسلی اور قوم پرستی کے مہیب سائے چھائے ہوئے
ہیں۔ کراچی میں چینی قونصل خانے کے حملے سے لیکر اورکزئی میں کلایا بازار
بم دھماکے تک پاکستانی سکیورٹی فورسز و عوام کو چیلنج در چیلنج درپیش ہیں۔
کراچی کے ایکسپو سینٹر میں 27نومبر تا 30نومبر کو 50 ممالک پر مشتمل
آئیڈیاز 2018 کا 10ویں ایڈیشن منعقد ہو رہا ہے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں
اور دنیا بھر سے آنے والے وفود جنگی ساز و سامان کی خریداری کے معاہدے اور
یادداشتیں دستخط کرتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والی یہ دفاعی جنگی سازو سامان
سے متعلق نمائش ہر بار کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے۔ ملک دشمن عناصر نے جہاں
سی پیک منصوبے کو لیکر چینی حکومت میں عدم اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی تو
دوسری جانب دنیا میں یہ منفی پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی کہ پاکستان اب
بھی محفوظ مملکت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ ملک دشمن عناصر کا
یہ پیغام دنیا بھر میں جاتا کہ جو ملک اپنی حفاظت نہیں کرسکتا وہ دوسرے
ممالک کے لیے دفاعی ساز و سامان کیونکر فراہم کرسکتا ہے۔ اﷲ تعالی کا شکر
ہے کہ سیکورٹی اداروں نے جان کی قیمتی قربانیاں دے کر چینی قونصل خانے کے
عملے اور ویزا کے لیے آنے والے افراد کو یرغمال ہونے سے بچایا۔ اگر
خدانخواستہ ملک دشمن عناصر کا یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو اس کے نتائج خوف
ناک ہوتے۔ واضح مقصد یہی نظر آتا تھا کہ 27نومبر کو ہونے والی آئیڈیا 2018
تک دہشت گرد چینی قونصل خانے کو یرغمال بنانا چاہتے تھے۔ کیونکہ جس تیاری
کے ساتھ آئے تھے وہ دہشت گردوں کے مقاصد کو عیاں کررہا تھا کہ ان کا منصوبہ
کیا تھا۔ اس سازش کے تانے بانے بھارت اور افغانستان سے مل چکے ہیں۔ اس خوف
ناک سازش میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملنے کے باوجود
پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ کو کرتار پور بارڈر
تقریب میں دعوت دینا ایک مثبت قدم تھا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہش مند
اور بھارت کے خلاف، اس جیسا مخالف رویہ اختیار نہیں کرنا چاہتا، ورنہ کراچی
جیسا واقعہ اگر بھارت میں رونما ہوتا تو بھارتی میڈیا پوری دنیا کو آسمان
پر اٹھا لیتا۔ تقریب منسوخ کردیتا اور بے بنیاد پروپیگنڈوں سے دنیا بھر میں
پاکستان کے خلاف بھرپور مہم چلاتا۔
پاکستان نے کراچی اور اورکزئی سانحے کے باوجود خطے میں قیام امن کیلئے
پڑوسی ممالک کو ایک اور موقع کی دعوت دی لیکن بھارتی وزیر خارجہ نے شرکت سے
معذرت کرکے اپنے دلی بغض کا عملی مظاہرہ کیا۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ تشدد
کے ساتھ متواتر جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ امریکا کی مثال ہمارے سامنے
ہے کہ نائن الیون کا واقعہ چاہے کتنا متنازع یا مشکوک کیوں نہ ہو لیکن اس
کے ردعمل میں لاکھوں انسانوں کا ہلاک ہونا اور کھربوں ڈالرز کے اخراجات اگر
کسی بھی ملک کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جاتے تو دنیا کی
نصف آبادی کو غربت سے نجات دلائی جاسکتی تھی۔ ہر مملکت کو اپنی سرزمین کے
دفاع کا مکمل حق ہے لیکن ان کی ترجیحات میں شدت پسندی کی وجوہ کا سدباب
ہونا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کے عوام کو اپنی حکومتوں کو یہ باور کرانا ہوگا
کہ ٹیکسوں کی رقم ان کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جائیں گی۔
|