ممبئی حملے انڈیا کا اپنا رچایا جانے والا ڈرامہ
ہیں۔اس جملے کی بازگشت گزشتہ دس برسوں میں بار بار سنی گئی۔ اہل علم و قلم
سے اس واقعہ کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں۔ واقعاتی و عینی شواہد ہوں یا
عدالتی کاروائی و مجرم کی سزائے موت سب اس واقعہ کو سانحہ ثابت نہیں کرتے
اور اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان جیسے پر امن ملک کو دہشت گردی کے
گھناؤنے کھیل میں ملوث کرنے کی ناکام سازش ایک کھلا ڈرامہ ہے جو بری طرح
فلاپ ہوا۔انڈیا کو شاید اپنی فلم انڈسٹری پر اتنا ناز ہے کہ وہ اس خام
خیالی میں رہا کہ میں جو فلم لانچ کرنے جا رہا ہوں اس سے پاکستان کو دہشت
گرد ثابت کر لوں گا مگر بے سود۔ بے کار میں اپنے ہی ملک میں انڈین کے ساتھ
ساتھ درجن سے زائد غیر ممالک کے شہری بھی مروا لیے اور حاصل کچھ نہ ہو
سکا۔کس قدر تعجب انگیز بات ہے کہ جس دن دس حملہ آور ممبئی میں داخل ہوئے ان
کے داخلی راستے سے لے کر حملے کے مقام تک کوٹ کیمرہ ورکنگ کنڈیشن میں نہ
تھا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک، دو نہیں بلکہ پورے دس افراد ایک بڑے شہر میں
داخل ہوئے اور کسی نے ان کو یا ان کے سامان کو چیک نہ کیا۔ پھر جیسا کہ سب
جانتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ انڈیا نے بھی واقعہ رونما ہونے کے
بعد سارے شواہد جن سے معاملے کی تحقیقات میں مدد ملتی خود ہی مٹا دیے۔ دس
میں سے سوا ئے ایک کے سارے مارے گئے اور ان کی باقیات کو بجائے جانچ کرنے
کے ضائع کر دیا گیا۔ اور جس کو زندہ پکڑا اور پورے زور و شور سے اس کا
پاکستانی ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی جس میں بعض پاکستانی میڈیا پرسن اور
حکومتی و اپوزیشن کے افراد بھی اس کے ہمنوا بن گئے اور کیوں نہ بنتے کہ یہ
مخلوق جمہوریت میں طے شدہ شرط تھی کہ انڈیا کو کھلی چھٹی دی جائے گی۔ اور
آفرین ہے ان ضمیر فروش سیاستدانوں پر جنھوں نے محض اپنے اقتدار کی حفاظت کی
خاطر ملکی سلامتی و وقار کو داؤ پر لگا دیا۔ اور پاکستان میں حکومت کے مزے
بھی لیے مگر زبان انڈیا کی بولتے رہے۔ باقاعدہ ٹی وی پروگرام کیے گئے اور
کیمرہ لے جا کر ایک گاؤں اور گھر دکھایا گیا جس کو مبینہ طور پر اجمل قصاب
سے منسوب کیا گیا۔ لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی اور ناحق کو حق ثابت کرنے کے
لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔پھر اسی قبیل کے بعض دانشور آج بھی یہی رٹ
لگاتے ہیں کہ جب ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ حملہ آور پاکستانی تھے تو پاکستان
کیوں اکیلا انکار پر مصر ہے۔ پاکستان کو بھی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
گویا ان دانشوران کے نزدیک حق کی دلیل یہ ٹھہری کہ ایک کثیر تعداد میں لوگ
اس کی تائید کرتے ہیں۔ اگر یہی حق کو پرکھنے کا معیار ہے تو صد حیف ہے ان
کی بصیرت اور فہم و دانش پر۔
اگر زمینی حقائق کی بات کی جائے تو جرمن صحافی ایلیس ڈیوڈسن کی لکھی گئی
کتاب The Betrayal of India ایک اچھی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں اس
معاملے کی مکمل وضاحت کی گئی ہے اور بات کتاب کے ٹائٹل سے ہی واضح ہے کہ وہ
بھی اس واقعہ کو انڈیا کا دھوکہ اور فروغ گوئی قرار دیتے ہیں۔ کتاب چونکہ
انگریزی زبان ے تحریر کی گئی اس وجہ سے پاکستان میں لوگوں کی کثیر تعداد اس
کتاب سے کما حقہ مستفید نہ ہو سکی۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے
مایہ ناز لکھاری جناب طارق اسماعیل ساگرنے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا اور
اس کو اردو زبان میں شائع کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ طارق اسماعیل ساگر کا
قلم حق گوئی و بے باکی اور حب الوطنی کی پہچان ہے۔ ان کی تحریر میں ایک خاص
کشش اور جاذبیت ہے اور ان کے الفاظ قاری کے دل میں گھر کر لیتے ہیں اور فہم
و بصیرت کو دو چند کر دیتے ہیں۔ ان کی صحافتی خدمات کئی زندگیوں کو بدلنے
کا موجب بنیں۔ میں اپنے حلقہ احباب میں بھی ایسے بہت سے لوگوں سے واقف ہوں
جو خاص طور پر ان کی تحریروں سے متاثر ہیں۔ معاصرین و متقدمین میں کوئی ان
جیسے کمال تک نہیں پہنچ پایا۔ یہ اﷲ تعالی کا خاص لطف و کرم ہے جو خاص ان
کو عطا ہوا۔ ایلیس ڈیوڈسن کی کتاب کے اردو ترجمہ کا ان کا یہ کارنامہ نا
صرف اردو دان طبقہ کے لیے ایک سہولت کا موجب ہے بلکہ پاکستان کے حوالے سے
جن حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا رہا ان کی قلعی کھولنے کا بھی ذریعہ ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں اس کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ مجھ
ناچیز کو بھی اس مجلس میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا جس کے لیے میں اپنے
سینئر ساتھی، کالم نگار اور بھائی شاہد محمود کا خصوصی طور پر مشکور ہوں
جنہوں نے مجھے اس تقریب میں مدعو کیا۔ اپنی نوعیت کی یہ پہلی تقریب تھی جس،
میں میں نے شرکت کی۔ اس تقریب میں کتاب اور مصنف کے حوالہ سے اور ممبئی
حملوں کے سلسلہ میں معلومات افزا بیانات سننے کو ملے۔ طارق اسماعیل ساگر
صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے والد ماجد کی قومی خدمات کو بھی سراہا گیا اور
انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تقریب میں نامور صحافیوں اور میڈیا پرسنز نے
کتاب کے ترجمہ کی افادیت کو بیان کیا اور مترجم کو اس کارہائے نمایاں پر
بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ یقینا وہ اس سے کہیں زیادہ قابل قدر ہیں کہ ان
کے اس کارنامہ سے اردو دان طبقہ اصل حقائق تک رسائی حاصل کر سکے گا اور
انڈین پروپیگنڈہ کا اثر زائل ہو گا۔
|