سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی آخری آرام گاہ کرتار
پور میں ہے۔یہ علاقہ پاکستان میں نارووال ضلع میں دریا ئے راوی کے کنارے
ہے۔بھارت سے صرف تین کلومیٹر دور ہونے کے باوجوگوردوارا پہنچنے کے لیے سکھ
یاتریوں کوطویل سفرکرنا پڑتاتھا۔عموما وہ واہگہ کے ذریعے لاہور پہنچتے وہاں
سے کرتارپور کا راستہ پکڑا جاتا۔اب جب کہ وزیر اعظم پاکستان نے کرتار پور
راہداری کا افتتاح کردیا ہے۔سکھ یاتریوں کے لیے ایک بڑی آسانی کا سامان
ہوگیا۔ کرتارپور راہداری کے افتتاح کے دن وزیر اعظم نے پہلے افتتاحی تقریب
سے خطاب کیا پھر سیالکوٹ میں یونی ورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں
اپنے خیالات کا اظہا رکیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جرمنی او رفرانس کی طرح
یونین بنانا چاہیے۔آگے بڑھنے کے لیے ماضی کی زنجیریں توڑنا ہونگی۔دونوں طرف
سے غلطیاں ہوئیں۔ جتنی غربت یہاں ہے کہیں نہیں۔ہمیں آپس میں دوستانہ تعلقات
رکھنے چاہییں۔انہوں نے سنگاپور کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری برامدات
چونتیس ارب ڈالر ہیں اور سنگاپور کی تیس لاکھ کی آبادی کے باوجود تین سو
تیس ارب کی برامدات ہیں۔یہ فرق اس لیے کہ یہاں پر کرپٹ لوگوں کا قبضہ
تھا۔اب ایماندار قیادت آگئی ہے۔جلد مشکلات سے نکل جائیں گے۔
کرتار پور راہداری منصوبہ بھلے ہی کتنا اہم ہو۔مگر یہ پاک بھارت تعلقات کو
دوستانہ بنانے میں مددگار نہیں ثابت ہوسکا۔جب تک دونوں طرف سے تعاون نہیں
ہوگا تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔جتنا جوش پاکستان کی طرف سے ا س راہداری
کے معاملے پر دکھایا جارہاہے۔بھارت نے نہیں دکھایا ۔یہاں تو آرمی چیف اور
وزیراعظم سمیت پوری ملکی قیادت براجمان تھی۔جب کہ بھارت کی طرف سے ایک کوئی
قابل ذکر نمائندہ شریک نہیں ہوا۔وہاں کے آرمی چیف او روزیراعظم کی تو بات
ہی چھوڑیں۔ان کے وزیر خارجہ اور وزیراعلی پنجاب نے بھی آنے کی زحمت نہ
کی۔دوسرے لفظوں میں مطلب یہی لیا جاسکتاہے کہ بھارت کو اس راہد اری سے
متعلق کچھ دلچسپی نہیں ہے۔نہ وہ کوئی امیدیں لگائے ہوئے ہے۔اسے شاید ابھی
پاکستان سے متعلق پورا اعتماد نہیں ہوپایا۔ جہاں تک پاکستان حکومت کی طرف
سے شادیانے بجانے کی بات ہے پاکستانی عوام اس پر بھی حیرت زدہ ہے۔ابھی کل
تک نوازشریف صاحب ایسی باتیں کرنے پر مودی کے یار کا طعنہ سنا کرتے
تھے۔انہیں غدا راو ر وطن فروش تک کہہ دیا گیا۔ان کی دوستی اور قربتوں کی
باتیں سن کریہی عمران خاں او رکچھ دوسروں کو آگ لگ جایاکرتی تھی۔اب عمران
خاں اور وہی کچھ دوسرے راہداریوں کا افتتاح کرتے پھر رہے ہیں۔پاک بھارت
تعلقات کو دوستانہ بنانے کی فکرمیں دبلے ہورہے ہیں۔عام خیال یہی ہے کہ
ایشوز کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی چل رہی ہے۔اچھے تعلقات کے لیے جو اصل
لوازمات ہیں انہیں قصدا نظر انداز کیا جارہا ہے۔جب تک دونوں طرف سے اعتماد
سازی نہ ہوگی بات نہ بنے گی۔
وزیراعظم اگرجلد مشکلات سے نکل جانے کا عزم رکھتے ہیں تو حقیقت پسندانہ
رویہ اپنانا ہوگا۔ سنگا پور اور پاکستان کی ترقی کا فرق درست ہے مگر اس فرق
کی اصل وجہ عوام کو بتانے کی ضرورت ہے سنگا پور کی کامیابی ایک بہتر نظام
کے سبب ہے۔وہاں سب کچھ ایک ترتیب اور ربط سے ہورہاہے۔وہاں ہمارے جیسا
خلفشار نہیں۔نہ خلفشار پیداکرنے والے ہیں اور نہ ان کے اشاروں پر ناچنے
والی کٹھ پتلیاں۔اعلی عہدوں پر ذمہ دار اور اہل لوگ ہونے کے سبب یہ ترقی
ممکن ہوئی ہے۔ہمارے ہاں یاتو مداری ہیں یا ان کی ڈگڈگی پر ناچنے والوں کی
فوج۔اقتدار کے لالچیوں اور کرسی کے بھوکوں کا ہجوم ہے۔کسی نہ کسی طرح حکومت
پر بٹھادیا جائے۔یہ گدھے کو باپ کہنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔آپ پاکستان کے
پیچھے رہ جانے کا سبب یہاں کی کرپٹ قیادت کو قراردیتے ہیں۔یہ بالکل درست ہے
مگر سوال یہ ہے کہ آپ اس کرپٹ سسٹم کے خلاف کیا کررہے ہیں ؟آپ کے نزدیک
کرپٹ لوگ صر ف وہی ہیں جو لکیر کے اس پارہوں۔آپ کی پارٹی کے نوے فیصد لوگ
لکیر کے اس پار سے آئے ہیں۔آپ کے نزدیک وہ بھی پہلے کرپٹ تھے۔اب جب کہ وہ
لکیر کے اس پا رآچکے وہ کرپٹ نہیں رہے۔یہ بڑا غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے
۔اگر تھوڑے بہت لوگ جو اب بھی لکیر کے اس پار ہیں۔کل کو آپ کی طرف آجا تے
ہیں تو شاید آپ کے نزدیک کرپشن پوری طرح ختم ہوجائے گی۔قو م کرتار پور
راہداری پر بغلیں بجانے پر بھی حیران ہے اور کرپشن کرپشن کا شور مچانے پر
بھی مایوس ہورہی ہے۔اسے پل پل رنگ بدلتی اپنی قیادت سے متعلق کسی طو ربھی
اطمینان نہیں ہوپارہا۔ |