سارک کا مستقبل

جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان علقائی تعاون کی تنظیم (سارک)کا سربراہ اجلاس مسلسل تیسرے سال بھی نہ ہو سکا۔ کرتار پور اور گورداسپور کے درمیان راہداری منصوبے کے شروع ہونے سے یہ گمان ہو چلا تھا کہ بھارت اب اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کر دے گا۔ مگر یہ صرف پاکستان کی خوش فہمی ثابت ہوئی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان بھارتی وزیراعظم کو سارک اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد مدعو کرے گا۔ مگر یہ اعلان یک طرفہ ثابت ہوا۔ بھارت نے اس کا مثبت جواب نہ دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے فضریہ طور پر کہا کہ وہ اس بارے میں مثبت جواب نہیں دے سکتیں۔ نریندر مودی پاکستان نہیں جا ئیں گے۔ سشما سوراج نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کرتار پور راہداری کا پاک بھارت جامع مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محترمہ نے وہی رٹ لگایی کہ دہشتگردی بند ہونے تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ یہ ہرزہ سرائی ہے۔ الزام برائے الزام تا کہ دنیا کو گمراہ کیا جا سکے۔ سارک میں بھارتی شرائط کی بھی یہی روایت ہے کہ پاکستان مسلہ کشمیر پر بات نہ کرے یا کشمیر سے دستبردار ہو جائے تب بھارت کوئی بات کرے گا۔ یہ صرف بہانہ ہے۔ اسے بھارت کا راہ فارار سمجھا جا رہا ہے۔ بھارت سنجیدگی نہیں دکھا رہا۔ نومبر 2016میں پاکستان نے 19ویں سارک سربراہ کانفرنس کی میزابنی کرنا تھی اور صدارت سنبھالنا تھی۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں بھارت کے ہمنوا بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان بھی بن گئے۔ تین سال سے یہ کانفرنس نہ ہو سکی۔ عمران خان کی حکومت نے اس سلسلے میں نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت دینے کا اعلان کیا۔ مگر اس کا منفی ردعمل دیا گیا۔ عمران خان کبھی نواز شریف پر بھارت سے تعلق یا دوستی کی بات کرتے تھے۔ مگر یہ تعلق یا دوستی بھی سارک کانفرنس نہ کرا سکی۔ عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو ایک خط بھی لکھا۔ جس میں سارک کانفرنس کی بات کی گئی۔ سارک کانفرنس ہر سال منعقد ہونے ہوتی ہے۔ یا حالات کے تقاضا کے مطابق اس کا انعقاد ہوتا ہے۔ مگر اسے قائم ہوئے 33سال ہو گئے۔ صرف 17سربراہ اجلاس ہو سکے۔ پاکستان میں فوجی حکومت کا بہانہ بنا کر 1999میں بھارت نے سارک میں شرکت سے انکار کیا جس کے بعد پانچ سال تک اس کا اجلاس نہ ہو سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کو لکھے خط میں جموں و کشمیر، سیاچن، سر کریک، مذہبی سیاحت ، دہشتگردی سمیت تمام ایشوز پر بات کرنے کی پیش کش کی۔ مگر اس کا منفی جواب دیا گیا۔

پاکستان امن اور دوستی ، کی بات کرتا ہے مگر بھارتی آرمی چیف کشمیر کے آر پار ڈرون حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں سارک اجلاس کا اجلاس کیسے ہو سکتا ہے۔ سار ک میں افغانستان کی شمولیت کے بعد اس علاقائی تعاون کی تنظیم میں چین بھی شامل ہونا چاہتاتھا لیکن بھارت اس کی شمولیت ویٹو کر دیتا تھا۔ سارک کے تمام ارکان ممالک کو ویٹو پاورز ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ اتفاق رائے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب بھی پاک بھارت شخصیات کے درمیان بات چیت ہوتی ہے تو ہر بار برف پگلنے ، جامع مزاکرات کی بحالی، اعتماد سازی کے اقدام ، بریک تھرو وغیرہ جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ صورتحال 71سال کی ہے۔ جس دوران کئی بار سربراہ بات چیت ہوئی۔ دفتر خارجہ کے حکام میں گفتگو ہوئی۔ وزارتی سطح کے سیشنز بھی ہوئے۔ فوجی آپریشنز کے ڈی جیز کے درمیان بھی ہاٹ لائن پر رابطے قائم ہوئے۔ جنگ بندی لائن پر مقامی فوجی افسران کے درمیان فلیگ میٹنگز بھی ہوئیں۔ ان کے درمیان گولہ باری اور گلدستوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ ایک دوسرے پر فائرنگ کرنے والے مٹھائیوں اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔ جہا ں گولیوں کا تبادلہ ہوا وہاں سے بسوں اور ٹرکوں پر انسانوں اور گھریلو ساز وسامان کی نقل و حرکت جاری رہی ہے۔

کبھی سارک سربراہ اجلاس میں اپنے خطاب کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم نریندر مودی کے عقب سے گزرتے ہوئے آتے اور جاتے میڈیا نے دکھایا ۔ مسٹر مودی کی بے رخی کو پیش کیا، اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم پاکستان سے کسی تعلق کے بارے میں سوچنے سے زیادہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین اور بندوق کے سائے میں ہونے والیانتخابی عملسے مطمئن تھے۔ بھارت دنیا میں عوام کے ووٹ کو بھارت کے حق میں ووٹ قرار دیتا ہے۔ اسی سفارتی کامیابی نے وزیر اعظم مودی کو سکون کا سانس نصیب کیا ہے۔ کشمیر میں بھارت کا انتخابی حربہ ناکام ہو۱۔ لیکن بھارت نے بات چیت کے لئے پاکستان کا رخ نہ کیا۔کشمیری عوام تن تنہا مصائب کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ 30سال میں انہوں نے لاشیں ہی اٹھائی ہیں۔ بھارتی ظلم و بربریت کا بھی مقابلہ کیا ہے۔بد قسمتی سے پرویز مشرف نے بھارت کو لا تعداد سہولتیں دیں۔ اسے جنگ بندی لائن پر دیوار اور بنکرز تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ اسے بارودی سرنگین بچھانے اور دفاع کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔ کشمیری اس جنگ بندی لائن کو ختم کرنے کے لئے نکلے تھے، مشرف صاحب نے اس دیوار کو پختہ کر دیا۔ دوسری طرف بھارت میں جنونی ہندوؤں نے زات پات کی بنیاد پر اپنا نیٹ ورک وسیع کیا۔ کٹر اور جنونی ہندو فوج اور دیگر اہم اداروں میں بھرتی کر لئے۔ ان کی وجہ سے ہی مودی آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ اور وہ طاقت کے غرور میں ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتے۔ بھارت کی اس مغرور پالسیی میں ہمارا بھی نمایاں کردار ہے۔ کشمیر کی جدو جہد کو بھی کمزور کیا گیا اور خالصتان تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت کی مدد کی گئی۔ یہ پاکستان کے مفادات پر کاری ضرب تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی ملک کے مفاد میں اس پر از سر نوغور کیا جائے۔ پاکستان کو اگر خطے میں مضبوط معیشت چاہیئے تو ایسے اقدامات ضروری ہونگے جن سے ملکی ترقی کی مخالفت قوتیں یا تو اپنے ناپاک عزائم پر عمل در آمد نہ کر سکیں یا اپنے ہی حالات میں الجھ جائیں۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد یا کسی بھی طرح کے تشدد نے لاکھوں کشمیریوں کو مصیبت سے دوچار کیا۔ بھارتی فوج کو جارحیت اور مظالم کا موقع ملا۔ گولی چلی تو دونوں طرف سے کشمیری ہی اس کا نشانہ بنا۔ اگر خالصتان، ماؤ، نکسل یا دیگر بھارتی تحریکوں یا عوام کی آزادیوں کو قابل توجہ سمجھا جاتاتو دشمن کمزور ہو سکتا تھا۔ یوں بھی بھارت میں کسی طرف سے بھی تشدد ہو تو مسلمان کو ہی بلا وجہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے ہی دہشتگرد اور پاکستان نواز قرار دے کر یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر کال کوٹھریاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔ بھارت میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں کا مسلم نوجوان انتقام اور ہندو انتہا پسندی کا نشانہ نہ بنا ہو۔ بلوچستان میں پاکستان مخالف تشدد کے لئے بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی ہیں ۔ جن کا اعتراف پرویز مشرف تک نے کیا ہے۔ افغانستان میں بھارتی دہشتگردوں کے سلیپر سیل کام کررہے ہیں۔ افغان حکومت کو اس کا علم ہے۔

سارک کے درمیان یوپین یونین جیسے تعلقات کی خواہش رکھنے والوں کو شاید ابھی مزید انتظار کرنا پڑے۔ کیوں کہ سارک ممالک کے درمیان ابھی تک آپسی تجارت کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ یورپین یونین کے ممالک کی آپسی تجارت کی شرح 66فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ جس طرح جرمنی اور فرانس کے تعلقات دوستانہ ہوئے بغیر یورپین یونین ناکام رہی اسی طرح پاک بھارت دوستی کے بغیر سارک کی کامیابی کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ پاک بھارت دوستی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک مسلہ کشمیر کا کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں نکالا جاتا اور بھارت اپنی ہٹ دھرمی ترک نہیں کر لیتا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485917 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More