’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘کے مصداق اس وقت امریکاوہی
کچھ کررہا ہے، جو چین چاہتا ہے۔ چین کی خواہش ہے کہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی
جائے جس میں سب کچھ کسی ایک ملک کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اس وقت عالمی سیاست و
معیشت پر امریکا متصرف ہے۔ اس نظام کو’’یونی پولر‘‘ یعنی یک قطبی کہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سیاست و معیشت کے تمام فیصلے امریکا کی مرضی کے
محتاج ہیں۔ چین اور روس چند دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کرمتعدد طاقتوں
پر مبنی نظام یعنی ’’ملٹی پولر سسٹم‘‘لانا چاہتے ہیں۔ یہ ’’کثیر قطبی‘‘نظام
تمام چھوٹی بڑی طاقتوں کو متوازن رکھنے کیلئےہوگا، یعنی کوئی ایک ملک دنیا
کے تمام اہم معاملات پر متصرف نہیں ہوگا۔
امریکا نے چند برسوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے، وہ انتہائی
خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ کئی ممالک ہی نہیں بلکہ خطے تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔
اب امریکا کو بہت حد تک احساس ہوچلا ہے کہ معاملات اُس کے ہاتھ سے سرکتے
جارہے ہیں۔اس کیفیت کو پوری طرح بھانپنا اور بات ہے اور ہضم کرنا اور بات۔
امریکی پالیسی ساز زمینی حقیقتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر پھر بھی وہ
طاقت برقرار رکھنے کیلئےکچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جہاں
طاقت کا استعمال ناگزیر نہ ہو وہاں بھی طاقت بے محابا بروئے کار لائی جارہی
ہے۔ ایران کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ امریکی پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ
ایران کوایک مثال بناکر پورے خطے کو دبوچے رہیں۔ 2015ء کے ہمہ جہت جوہری
معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف اقتصادی
پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جو 5نومبر 2018ء سے نافذ ہو رہی ہیں۔
یہ سب کچھ چین کو کسی حد تک اپنی بات منوانے کا موقع دے رہا ہے۔ کئی ممالک
اب تک تذبذب کے عالم میں تھے مگر اب امریکا جو کچھ کر رہا ہے اسے دیکھتے
ہوئے وہ بھی ایک طرف ہو رہنے کو ترجیح دیں گے۔
امریکا کا ایران سے طے پانے والے معاہدے سے الگ ہونا کوئی ایسا قدم نہیں،
جسے جذباتی ابال کا نتیجہ قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے۔ چین نے بیلٹ
اینڈ روڈ منصوبہ شروع کیا ہے اور اس کا ایک اہم جُز چین پاک اقتصادی
راہداری (سی پیک) بھی ہے۔ امریکا نے ایران کے خلاف جاکر تیل کی عالمی منڈی
کو شدید بحران سے دوچار کردیا ہے۔ خام تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے
میں کئی ممالک کی معیشت ڈانوا ڈول ہو رہی ہے۔ چین کو ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘
منصوبے پر عمل کرنے میں اب غیر معمولی دشواریوں کا سامنا ہے۔ امریکا مختلف
طریقے اختیار کرکے چین کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہا ہے
تاکہ وہ ایک ایسی بڑی طاقت بننے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کرسکے جس کے
ہاتھ میں پوری دنیا کا نظام ہو۔
امریکا نے ایران کے ساتھ جوکچھ کیا ہے،اس کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے سو
طرح کے خدشات کا اظہارکیاہے۔ان کاکہناہے کہ ایران کودیوارسے لگانے کی کوشش
تہران میں نئی قیادت کے ابھرنے کی راہ بھی ہموارکرسکتی ہے۔ اعتدال پسند
عناصر ایک طرف ہوجائیں گے اور انتہا پسند عناصر اقتدار میں آسکتے ہیں۔
ایسا ہوا تو پورے خطے کی سیاست داؤ پر لگ جائے گی۔ ایک بار پھر فرقہ
وارانہ بنیاد پر تقسیم زیادہ نمایاں ہوجائے گی اوریہی امریکا کی خواہش ہے
کہ اس خطے کے مسلمان ممالک میں فرقہ واریت کی آگ کواس قدربھڑکایاجائے جس کے
جواب میں ان ممالک کے وسائل اپنی عوام کی ترقی کی بجائے آپس کی خانہ جنگیوں
میں ضائع ہوجائیں اورامن وامان کی بجائے انارکی پیداہوجائے ،اوراس کی آڑمیں
امریکاکی پشت پناہی میں اسرائیل خطے کانگران بن جائے۔
امریکا نے ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تو
اگلے ہی دن چین کے سب سے بڑے سرکاری اخبار اور کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان دی
پیپلز ڈیلی کے ادارتی صفحے پر ’’صدائے چین‘‘کے قلمی نام سے ایک مضمون شائع
ہوا، جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ امریکی خارجہ پالیسی سب کو ساتھ
لے کر چلنے کی ڈگر سے ہٹ کر اب من مانی کی راہ پر گامزن ہوتی دکھائی دے رہی
ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی صدر چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہو وہ
امریکا کی مرضی کے تابع ہو۔ اخبار نے مزید لکھا کہ امریکا نے جوہری معاہدے
سے الگ ہونے کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو یکسر نظر انداز کیا۔ اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی پالیسی ساز اب کسی کو خاطر میں لانے
کیلئےتیار نہیں اور سب کچھ تن تنہا کرنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کئی عشروں سے چین کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی دنیا
تشکیل دی جائے، جس میں کوئی ایک طاقت تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ
رکھے بلکہ چند بڑی طاقتیں مل کر دنیا کو چلائیں۔ ایک طرف تو چینی قیادت
اپنی تہذیبی وراثت کی بنیاد پر عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کردار ادا
کرنے کے قابل ہونا چاہتی ہے اور دوسری طرف اسے اندازہ ہے کہ تنہا جانا بہت
خطرناک ہوگا، اس لیے وہ چاہتی ہے کہ روس، بھارت، پاکستان،جاپان اور دیگر
بڑی قوتیں بھی مل کر نئے نظام کی مدد کریں۔ اس صورت میں امریکا اور یورپ کو
بہتر انداز سے کنٹرول کرنا ممکن ہوسکے گا۔ اس وقت امریکا ہی من مانی کر رہا
ہے۔ یورپ مجموعی طور پر پُرسکون اور اعتدال پسند ہے۔ امریکی پالیسی ساز
یورپ کے قائدین کو بھی بعض اوقات مجبور کردیتے ہیں کہ وہ امریکا کا ساتھ
دیں۔ چین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس کی ابھرتی ہوئی طاقت کی راہ میں اگر
کوئی رکاوٹ ہے تو صرف امریکا ہے۔ امریکی پالیسی ساز چین کو عالمی سیاست و
معیشت میں اس کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں۔ چین کو یورپ سے بھی کچھ خاص
خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یورپ بھی اب ’’ہارڈ
پاور‘‘(Hard Power) کی راہ سے ہٹ چکا ہے اور(Soft Power)’’سوفٹ پاور‘‘کے
ذریعے آگے بڑھنے کے موڈ میں ہے۔ چینی پالیسی سازوں نے تین عشروں کے دوران
بہت کچھ سیکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی ملک پر چڑھائی کرکے تباہی
کی راہ ہموار کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ معاشی قوت کے ذریعے لوگوں کے
دلوں کو مسخّر کیا جائے۔ سرمایہ کاری کے ذریعے بہت سے ممالک کو چین نے ہم
نوا بنایا ہے۔ افریقا کے کئی ممالک میں چین نے غیر معمولی سرمایہ کاری کی
ہے، جس کے نتیجے میں وہاں ترقی بھی ہوئی ہے اور لوگوں نے ایک بڑی قوت کو
قدرے نرم اور قابل قبول رویے کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس حوالے سے بھی امریکا اور
یورپ نے بہت پروپیگنڈا کیا ہے مگر چین کے پالیسی ساز اپنی راہ سے ہٹے نہیں۔
چین چاہتا ہے کہ امریکا اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے،
جن سے چین اور دیگرابھرتی ہوئی قوتوں کو نمایاں ہونے اورعالمی سیاست ومعیشت
میں اہم کرداراداکرنے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے یورپ سے بھی اہم کردار ادا
کیے جانے کی توقع وابستہ کی جاتی رہی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ فی الحال ایسا
نظام تشکیل دیا جائے، جس میں چند قوتیں خطوں کو بانٹ لیں اور اپنے اپنے
دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں۔ امریکا اس کیلئےتیار نہیں۔ چین کی خواہش ہے
کہ ایشیا میں امریکی عمل دخل زیادہ نہ ہو۔ امریکی پالیسی ساز دور افتادہ
ایشیائی ممالک میں بھی مداخلت سے گریز نہ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
چین اس امر کیلئےکوشاں رہا ہے کہ یورپی یونین امریکی بالا دستی کے سامنے
طاقت کے متبادل مرکز کی حیثیت سے ابھرے مگر امریکا اور یورپ کے عمومی اتحاد
نے اب تک اِس کی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ یورپی یونین بعض معاملات میں قدرے
تذبذب کا شکار بھی دکھائی دیا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ یورپی یونین اپنی
پالیسیاں آزادانہ حیثیت میں ترتیب دے،ان پرامریکا کی چھاپ نہ ہو یا زیادہ
گہری نہ ہو۔ یورپی یونین اس حوالے سے اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکا۔ چین
کو اندازہ ہے کہ اگر یورپی یونین نے اپنی پالیسیوں کو امریکی گرفت سے آزاد
کرالیا تو عالمی سیاست و معیشت میں اُس (چین) کیلئےبہت کچھ کرنے کاموقع
پیداہوگا اور وہ زیادہ جم اور ڈٹ کر اپنی بات کہہ سکے گا۔
امریکا نے دنیا بھر میں پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔ کئی خطوں میں اس کی شراکت
داری موجود ہے۔ وہ کئی اتحادوں کامرکزی کردارہے۔یہ سب کچھ کثیرقطبی دنیا کے
ابھرنے کی راہ میں بڑی دیوار ہے۔ چین بھی اس بات کو سمجھتا ہےمگرساتھ ہی
ساتھ یہ بھی توایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا پردنیابھرمیں کچھ نہ
کچھ کرنے کادباؤہی وہ عامل ہے جوامریکاکوتمام معاملات میں تن تنہاجانے سے
روکتا ہے۔ امریکا کی اپنی پالیسیاں اس کی راہ میں کسی حد تک دیوار ثابت ہو
رہی ہیں۔ چین اور روس کو مل کر جو کچھ کرنا ہے، وہ امریکی پالیسی ساز خود
کر رہے ہیں۔ یورپ بھی اس بات کواچھی طرح سمجھتاہے کہ امریکاواحدسپرپاورہونے
کااب محض دعویدارہے۔ٹھیک ہے،کوئی اور ملک بھی واحد سپرپاورہونے کادعوٰی
کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگرامریکابھی یہ دعوٰی نہیں کر سکتا کہ وہ سب کچھ
اپنے طورپرکرسکتاہے۔اس میں کوئی شک نہیں عالمی مالیاتی نظام پراس کی گرفت
اب بھی ہے۔آج بھی عالمی سطح پر لین دین کیلئے امریکی ڈالرہی
پرانحصارکیاجاتاہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکا تمام مالیاتی
معاملات میں حرفِ آخرکادرجہ رکھتاہے۔
یورپ کے مدبرین اس امرپرحیران اورپریشان ہیں کہ پوری دنیامیں
بھرپورطورپرقبول کیاجانے والا ’’گورننگ میکینزم‘‘تیزی سے
کمزورپڑرہاہے۔عالمی اداروں کی دنیاکے تمام معاملات پرجوگرفت چند عشروں پہلے
تک تھی،وہ اب نہیں۔ امریکااوریورپ دونوں ہی اب اپنے اپنے طورپرچل رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ’’لبرل انٹر نیشنل ٹریڈ سسٹم‘‘ابھر رہا ہے۔ بیشتر معاملات
علاقائی سطح پر طے کیے جارہے ہیں۔ پوری دنیا کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے
والا نظام دکھائی نہیں دے رہا۔ اقوام متحدہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ
محض برائے نام ادارہ ہے۔ آج کی دنیا میں ہر خطہ اپنے مفادات خود طے کر رہا
ہے اور امریکا یا یورپ کی بالا دستی کے شکنجے سے نکلنے کی بھرپور تیاری
کررہاہے۔چین کواس بات کابھی اندازاہے کہ امریکابیشترمعاملات میں یکطرفہ
کارروائی کی راہ پرگامزن رہاتوقلیل المیعادبنیادپراس کانقصان اُسے(چین
کو)پہنچے گا۔
امریکانے عالمی تجارتی تنظیم کے طے کردہ اصولوں اورڈھانچے کوایک طرف
ہٹاکرتنہا جانے کا فیصلہ کیاہے۔ چین سے اس کی تجارتی جنگ اسی امرکی
مظہرہے۔چینی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی عائد کرکے امریکانے ثابت کیاہے کہ وہ
اپنی بالادستی کوآسانی سے ختم نہیں ہونے دے گا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے
کے خلاف ٹیرف کی سطح پراقدامات کافیصلہ کیاہے۔ ٹرمپ نے چین کی 60؍ارب
ڈالرکی مصنوعات پردرآمدی ڈیوٹی عائد کی توجواب میں چین نے بھی امریکی
مصنوعات پردرآمدی ڈیوٹی عائدکردی۔امریکا نے انتباہ کیاہے کہ اب اگرچین نے
اس طورجواب دینے کی کوشش کی توبھرپورجواب دیاجائے گا۔ یہ بیان اس امرکا
ثبوت ہے کہ امریکا خوفزدہ ہے اورکسی بھی اقدام کے جواب میں کی جانے والی
کارروائی سے پریشان بھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکااوریورپ کے اختلافات ابھرہی نہیں رہے بلکہ
پنپ بھی رہے ہیں۔ امریکاچاہتا ہے کہ یورپ ہرمعاملے میں اس کا ساتھ دے۔یورپی
طاقتوں کوایساکرناقرینِ دانش دکھائی دیتا ہے نہ زمینی حقیقتوں کے مطابق۔
یہی سبب ہے کہ یورپی یونین نے امریکا سے ہٹ کر اپنے
طورپرچلناپسندکیاہے۔افریقااورایشیاکے بہت سے ممالک کے حوالے سے یورپ نے
آزاد پالیسی اختیار کی ہے، جو امریکی اثرات سے پاک ہے۔اس کاواضح مطلب یہ
ہواکہ امریکاجو کچھ بھی کرناچاہتاہے اس کاساتھ دینااب یورپ کو لازم دکھائی
نہیں دیتا۔ یورپ کے مدبرین اس نکتے کوسمجھتے ہیں کہ امریکاکااندھادھندساتھ
دینے کی صورت میں یورپ کیلئےمشکلات بڑھیں گی اوروہ کبھی بھی کسی بندگلی میں
کھڑاہوسکتاہے۔
یورپ دیگرتمام خطوں سے بہترعلمی،ثقافتی اورتجارتی روابط چاہتاہے۔اس نے سوفٹ
پاورکی راہ پرگامزن رہناپسندکیاہے۔یورپ کے پالیسی سازوں کی اکثریت تصادم سے
گریزکی راہ پرگامزن ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ تصادم سے معاملات محض خرابی کی
طرف جاتے ہیں۔ یورپ زیادہ سے زیادہ خطوں اورممالک سے تجارت چاہتاہے۔اس نے
اپنے لیے ایک ایساطریقہ کاروضع کیاہے جس میں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک
سے تجارت کا دائرہ بڑھے اور ٹیکسوں کا دائرہ محدود سے محدود تر ہو۔ یورپ کے
بہت سے ممالک برائے نام ڈیوٹیز کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے
مستفید ہونے والے ممالک کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں، اور وہ تجارت کو
وسعت دینے کی تحریک پائیں۔
ایران کے خلاف جانے کے معاملے میں بھی یورپ نے امریکا کا ساتھ دینے کی زحمت
گوارا نہیں کی۔ جنرل اسمبلی سے حالیہ خطاب میں فرانس کے صدر ایمانویل
میکراں نے بھی امریکا کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے
جوہری معاہدے میں جو کچھ طے کیا تھا وہ اس پر اب تک پوری پابندی سے عمل کر
رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کا اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان غیر
ضروری ہے۔ اگر کسی بات پر اختلاف تھا بھی تو بات چیت کے ذریعے دور کیا
جاسکتا تھا۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے چین، روس، جرمنی, فرانس نے
ادائیگیوں کاایک متبادل نظام اپنایا ہے۔یہ نظام SWIFT کہلاتاہے۔اس نظام کے
سامنے لائے جانے کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ امریکاکی جانب سے عائد کی جانے
والی پابندیوں سے عالمی سطح پرمالیاتی نظام کومشکلات کاسامنانہ ہو۔اگر
عالمی مالیاتی نظام متاثرہوتوکوئی ایک ملک نہیں بلکہ درجنوں ممالک اورخطے
متاثرہوں گے۔ ایسے میں لازم ہے کہ امریکی اقدامات کے اثرات زائل کرنے
کاکوئی متبادل نظام موجودہو۔امریکانے ایران سے لین دین کرنے والے ممالک کے
خلاف پابندیوں کااعلان کیا ہے۔ سوئفٹ کی مدد سے امریکی پابندیوں سے بچنا
ممکن ہوسکے گا کیونکہ ڈالر میں لین دین کرنے کے باوجود یہ نظام اس دائرے سے
باہر ہے، جس کیلئےامریکا نے پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ اگر امریکی قیادت
ایران سے لین دین کرنے والے ہر ملک سے لین دین سے انکار کرتی ہے تو پوری
دنیا کا مالیاتی نظام بہت بری طرح متاثر ہوگا اور کئی خطے اس کی لپیٹ میں
آئیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکی قیادت ایران کے معاملے میں جو کچھ کر رہی ہے، اُسے
ہر طرف سے قبولیت مل رہی ہے۔ امریکی اتحادی (برطانیہ، فرانس اور جرمنی) اور
شراکت دار (مثلاً بھارت) بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ امریکا کسی بھی
اعتبار سے تنہا جاکر ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرے۔ وہ ابھی سے اس امر
کیلئےکوشاں ہیں کہ ایران پر ڈالا جانے والا امریکی دباؤ کم کریں۔ بھارت
زیادہ پریشان یوں ہے کہ وہ ایران سے سستا تیل خریدرہا ہے اورامریکی
پابندیوں کے بعد اسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں سے مہنگا تیل خریدنا
پڑے گا اور ادائیگی کے معاملے میں بھی وہ سہولت نہیں ملے گی، جو ایران
فراہم کیا کرتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے مفادات کیلئے فوری
طورپردوبارہ اپنے سب پرانے اوربڑے حلیف روس کے کے
لڑاکاطیارے(fifth-generation fighter aircraft)ساتھ کئی سال کی تاخیرکے
بعد13جولائی2018ء کوپانچویں نسل (ایف جی ایف اے) کے لئے تفصیلی ڈیزائن کو
حتمی شکل دینے اور ملٹی بلین ڈالر کے شریک ترقی منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنے
کے معاہدے پر رضامندی ظاہرکردی ہے۔بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق تقریبا
ًتمام زمینی کام ،جیٹ کے تفصیلی ڈیزائن کے ساتھ ساتھ کچھ اور اہم مسائل کے
حل کو مکمل کرنے کیلئے کاروائی مکمل کرلی گئی ہے۔اس منصوبے پر روس کے ساتھ
بات چیت میں ملوث ہونے والے ایک اعلی افسر نے کہا کہ سال کے دوسرے نصف میں
اس پردستخط ہونے کی قوی توقع ہے جس کوبھارتی دفاعی ماہرین ایک بڑاسنگ میل
قراردے رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں یہ بھی بتایاگیاکہ اس معاہدے میں
منصوبے کی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پربھارت منتقلی سے منسلک کیا گیاہے
اوردونوں ممالک شریک ڈویلپرز ہوں گے اور بھارت کو ٹیکنالوجی کے مقابلے میں
برابر حقوق ملیں گے۔اس منصوبے کیلئے مذاکرات میں، بھارت نے ضروری مطلوبہ
کوڈ اور اہم ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگی تاکہ اس کی ضروریات کے مطابق
طیارے کو اپ گریڈ کرسکیں۔
اس معاہدے کی آڑمیں بھارت نے امریکاکوجوپیغام دیاتھااس میں وہ مکمل طور
پرکامیاب ہوگیاجس کے نتیجے میں امریکانے بھارت کونہ صرف ایران سے تیل کی
خریداری پرپابندی ختم کردی بلکہ چاہ بہاربندرگاہ کیلئے بھی پابندیوں کے
خاتمے کی مراعات حاصل کرلیں۔انہی مراعات کی آڑمیں امریکانے اپنے
دیگراتحادیوں اٹلی،جاپان اورجنوبی کوریاکے علاوہ دیگرپانچ اتحادیوں کوبھی
ایران سے تیل خریدنے کی پابندی سے استثنی دے دیاہے۔اب ایسے میں امریکا کے
یورپی اتحادیوں نے اعلان کیاہے کہ وہ جلدہی مل کر کوئی نہ کوئی ایسا نظام
تیار کریں گے جس کی مدد سے ایران یا کسی اورملک کے خلاف امریکاکی یکطرفہ
پابندیوں کاسامناکیاجاسکے۔یورپ نے امریکاکویہ باور کرانے کی کوشش بھی کی ہے
کہ جوکچھ وہ ایران کے حوالے سے کررہاہے وہ محض جذباتیت ہے۔ آنکھ بند کرکے
کسی ملک پرپابندیاں عائدکرناامریکااوریورپ دونوں کیلئےانتہائی خطرناک ثابت
ہوسکتاہے۔ایران کی حالت مزید بگڑی توامریکااوریورپ کیلئےاس خطے میں قبولیت
کی سطح گرے گی اور زیادہ سے زیادہ لوگ چین اور روس کی طرف دیکھنا شروع کریں
گے۔ روس، ترکی اورچین اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئےتیاربیٹھے
ہیں۔ایسے میں امریکی پالیسی سازوں کیلئےلازم ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر قدم
اٹھائیں اورکسی بھی ملک کے خلاف اقدامات کرکے معاملات کو مزید نہ بگاڑیں۔ |