ایک تہائی مال کا جھگڑا

ڈالر ایک سو اکیالیس روپے ہونے کی خبر سن کر کچھ لوگوں کی وہ پشین گوئیاں سچی لگنے لگی ہیں جو ڈالر کے ایک سو پچاس تک پہنچ جانے سے متعلق کی جارہی تھی۔یہ پشین گوئیاں تک ہوئیں جب ڈالر ابھی ایک سو بیس تک ہی پہنچا تھا۔ایسی پشین گوئیوں پر تحریک انصاف کی حکومت والے کہا کرتے تھے سوچنا بھی مت ۔ہم ریلیف دینے والے ہیں تکلیف دینے نہیں۔ ڈلر ایک سو اکیالیس روپے کا ہونے پروزیر اعظم عمران خان قوم کو تلقین کررہے ہیں کہ وہ گھبرائے نہیں۔بھئی کیسے نہیں گھبرائے اسے مہنگائی کا یک طوفان اٹھتا نظر آرہا ہے۔آمدن بڑھی نہیں۔مہنگائی بڑھ رہی ہے۔پچھلے دنوں ڈالر یک دم ایک سو سینتیس تک جاپہنچا تھا تو مہنگائی ؂کا ایک سیلاب آیا تھا۔چیزیں بیٹھے بٹھائے مہنگی ہوگئیں۔آپ کہہ رہے ہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ڈالراب ایک سو اکیالیس روپے کا ہوجانے پرمہنگائی کا طوفان دوبارہ اٹھتا نظر آرہا ہے۔قوم بھلا کیوں کر نہ گھبرائے؟ آپ کل تک اپنے سودن کی کامیابیوں کی تالیاں بجواتے نظرآئے۔آپ کے گفتار کے غازی ترجمانوں نے سودن کے قریبا تمام ٹاسک پالیے جانے کا دعوی کیا تھا۔ایک بھی ناکامی تسلیم نہیں کی گئی۔ان سودنوں میں مہنگائی دونی ہوئی ہے۔آپ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔آپ اپنی ہی بات کرتے چلے جانے کے عادی ہیں۔ اس مداری کی طرح جو ابھی آپ کو یہ کرکے دکھاتاہوں۔کہہ کہہ کر مجمع کو اکٹھا کیے رہتا ہے۔مگر کچھ کر نہیں پاتا۔مجمع کے لوگ دھیرے دھیرے کھسکتے چلے جاتے ہیں۔وزیراعظم عمران خاں ایک طرف تو سب اچھا ہونے کی بات کرتے ہیں۔برے دن گزرگئے۔ایماندار اور اچھے لوگ آچکے۔اب ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہوگا۔اب بچت ہوگی۔ریلیف ملیں گے۔دوسری طرف حکومت کا کوئی نہ کوئی اقدام عوام کو کسی نئی تکلیف سے دوچار کرتاہے۔جانے ریلیف عملاکب ملے گا؟آپ اچھی طرح کیلکولیشن کیوں نہیں کرلیتے۔آپ پوری طرح معاملات کا جائزہ لے لیں پھر کوئی حتمی بات قوم کو بتائیں۔یہ جو کچی پکی باتیں حکومتی لوگ کرتے رہتے ہیں۔اس سے مایوسیاں پھیل رہی ہیں۔

سودنوں کا ایجنڈا پورا کرنے میں حکومت کی ناکامی غیر متوقع نہیں۔ جو راستہ اختیار کیا تھا اس کی منزل یہی تھی۔آدھ ادھوری معلومات اور کچی تیاری سے کیے گئے کام ایسے ہی نتائج لاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا پانامہ کیس میں عدالت کو مہیا کیے گئے ثبوتوں والا معاملا تھا۔ عدالت نے تحریک انصاف کو ان ثبوتو ں پر ڈانٹ پلائی تھی۔ثبوتوں کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔کہا کہ اس طرح کے کاغذات میں تو پکوڑے بیچے جاتے ہیں۔اب تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے بھی ایسے ہی ادھ ادھورے پلان سامنے لارہی ہے۔مسائل حل کرنے کے لیے جو واجبی سا راستہ اختیار کیا گیا ہے وہ سودن بعد تو کیا سو سال بعد بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے پائے گا۔آپ ایک کروڑ لوگو ں کو روزگار دینا چاہتے ہیں۔پچاس لاکھ گھر بناکر دینا چاہتے ہیں۔کیسے دے پائیں گے؟عملا تو دھیلا پاس نہیں کروڑ بندوں کی تنخواہ کہاں سے آئے گی۔پچاس لاکھ گھربنانے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟آپ ایک ایک پائی کے لیے ترلے لیتے پھر رہے ہیں۔کبھی سعودیہ جاتے ہیں کبھی چین کبھی کہیں اور پھر آپ یہ دعوے کیوں کررہے ہیں؟پتہ نہیں خاں صاحب خوش فہمی میں کیوں مبتلاہیں ۔اصل مسئلے کی انہیں یا تو سمجھ نہیں یا پھر وہ اسے سمجھنے کے موڈ میں ہی نہیں۔ مسئلہ وسائل کی بانٹ کا ہے۔درست بانٹ نہ ہونے کے سبب نتائج نہیں مل رہے۔عمران خاں جب تک یہ بانٹ درست نہ کرپائیں گے بات نہ بنے گی۔کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے پینسٹھ فیصد وسائل نام نہاد ریاستی خدمت گاروں کی نظر ہورہے ہیں۔ان کی تنخواہوں ۔سہولیات اور لوازمات میں بلاشک وشبہ پینسٹھ فیصد کے قریب وسائل خرچ ہورہیں۔حکومتی محکمے ۔اسٹیبلشمنٹ ۔انتظامیہ ۔اور دیگر بیوروکریٹس آپ حساب کرلیں۔ان کے مجموعی اخراجات میں وسائل کا پینسٹھ فیصد نکل جاتاہے۔وسائل کا صرف ایک تہائی بچتاہے جو منتخب حکومت کو دیگر کمال دکھانے کی امید کی جاتی ہے۔پی پی تھی ۔پھر مسلم لیگ ن آئی اب تحریک انصاف ہے۔سبھی کو مداری پن کرنے کی پیش کش ہوئی۔سبھی ناکام رہے ہیں۔نہ پی پی والے یہ جادو دکھا پائے تھے۔نہ مسلم لیگ ن والے کامیا ب ہوپائے ہیں۔نہ تحریک انصاف والے ہوپائیں گے۔جب تک بانٹ کی یہ کانی تقسیم باقی رہے گی بات نہیں بنے گی۔نوازشریف واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اصل مسئلے کا ادراک کیا۔وہ ایک تہائی مال کے لیے مارا ماری کروانے والوں کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ایک تہائی سے جادو دکھانے کی دھوکہ دہی کرنے کی بجائے دوتہائی وسائل پر قابضین سے کچھ وسائل واگذار کروانے کی سوچ رکھتے ہیںیہ گستاخی انہیں بہت مہنگی پڑرہی ہے۔وہ نشان عبرت بنا دیے گئے۔پھر بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ۔ڈٹے ہوئے ہیں۔عمران خاں جب تک وسائل کی بانت کی یہ کانی تقسیم درست نہ کریں گے۔کامیابی کا تصور بھی نہ کریں۔ناکامی کا سبب یہی ہے کہ سبھی ایک تہائی کی بانٹ کا حق پانے میں مرے جارہے ہیں، موقع پانے کے لیے منتیں کررہے ہیں۔ترلے لیے جارہے ہیں۔یہ لوگ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکہ ہ دے رہے ہیں-

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.