بھارتی آرمی چیف کی گیدڑ بھبھکی اور کشمیر میں نوید جٹ کی شہادت

 بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں کوڈرون سے نقصان کے لئے تیار رہنا ہوگا اور ایل اوسی پار بھی کارروائی کرسکتے ہیں کشمیریوں کو ڈرون سے نقصان کیلئے تیار رہنا ہوگا، ڈرون سے ایل اوسی پار بھی کارروائی کرسکتے ہیں۔ رواں سال ستمبر میں بھارتی آرمی چیف نے جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا جنگ ڈھنڈورا پیٹ کر نہیں ہوتی، حکومت کی اجازت ملتے ہی جنگ شروع ہوجائے گی، ہمارا پلان تیار ہے، ضروری نہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک ہوں، لیکن کارروائی کرسکتے ہیں۔اس سے قبل بھی بپن راوت نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ایک اورسرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت ہے لیکن تفصیل نہیں بتا سکتا، پاکستان کو معمول کے تعلقات کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے. جس کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی نے ہمارے صبر کا امتحان لیا تو پاک فوج قوم کو مایوس نہیں کرے گی ۔مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ ڈاکٹر محمد عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے بھارتی فوجی سربراہ کے اس بیان پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کشمیر میں ڈرون حملے کرنے کی بات کی ہے۔ اتنی بڑی فوج کے سربراہ کا چند جوانوں کو زیر کرنے کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر طاقت کے استعمال کی دھمکی مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ بچگانہ بھی ہے۔ دس لاکھ فوج جدید اسلحہ سے لیس ہوکر بھی ہمارے آزادی پسند جیالوں کے عزم اور حوصلے کے آگے کمزور پڑ رہے ہیں، اس سے بڑھ کر فوجی سربراہ کی تسلیم شکست اور کیا ہوگی۔اخلاقی اور جمہوری پیمانوں سے آپ یہ جنگ کب کے ہار چْکے ہیں، اسی لئے ڈرون حملوں کی مدد سے پوری آبادی کو نیست نابود کرکے یہاں کی زمین پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کی سازش رچاتے ہیں جو قابض اور غاصب طاقتوں کا ہمیشہ سے شیوہ ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تنقید اور کچھ حساس اور باضمیر آوازوں کے خوف سے بھارت کے یہ بہادر سپاہی ایسا کرنے سے گریز کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فوجی سربراہ نے ایسی تنقید اور ویویلا نہ ہونے کی صورت میں یہ کارنامہ انجام دینے کی تیاری کا عندیہ دیا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرکے بھارتی فوج کو تسلی نہیں ہوئی، ہزاروں جوانوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کرکے ان کے سنگ دل نرم نہیں ہوئے، بے شمار خواتین کی بے حرمتی اور عصمت ریزی کرکے ان کے سر شرم سے نہیں جھکے، عربوں اور کھربوں مالیت کی املاک کو تباہ وبرباد کرکے اْن کی انا کو تسکین نہیں ملی، معصوم بچوں کی پیلٹ گنوں سے بینائی چھین کر ان کی آنکھیں کبھی نم نہیں ہوئیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے قتل وغارت گری کا نہ تھمنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور روزانہ درجنوں کے حساب سے ہمارے جوانوں کے سر کٹنے سے بھارتی فوج اور حکمرانوں کے طریقہ کار پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس تباہی وبرباری کے دلدوز واقعات چشم فلک نے کم ہی دیکھے ہوں گے جب 18ماہ کی معصوم ہِبا کو دنیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ کہلانے والی بہادر فوج کی طرف سے پیلٹ گن سے زخمی کرکے بینائی سے محروم کیا جاتا ہے۔ ہر نئے، جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کو ریاست جموں کشمیر کے حدود میں ہی آزمایا جارہا ہے۔ ملک کا تاج قرار دئے جانے اس بدنصیب ریاست کو فوجی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ Collateral Demageمیں نشانہ بننے والے لوگ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں عالمی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے بدنام القاب سے نواز کر سبق سکھانے کی بھارتی پالیسی ساز عملانے کی تاک میں رہتے ہیں، تاکہ محکوم اور مجبور عوام میں خوف وہراس کا ماحول قائم کرنے کے ساتھ ہی اکثریتی ووٹ بنک کے جگر کو ٹھنڈک بھی نصیب ہو تاکہ روزانہ کی کٹی گردنوں، لٹی عصمتوں اور کھنڈرات کے کارہائے نمایاں کے عرض انہیں اقتدار کے رنگ محل تعمیر کرنے میں آسانی ہو۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی کے دوران ضلع بڈگام میں دو اور کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیاہے۔ ان نوجوانوں کو ضلع کے علاقے چھتر گام میں تلاشی اور محاصرے کی ایک کارروائی کے دوران شہید کیا۔نوجوانوں کی لاشیں کارروائی کے دوران تباہ کئے گئے ایک مکان کے ملبے سے ملی ہیں۔ایک سینئر پولیس افسر نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ نوجوان کشمیری مجاہدین تھے جن میں سے ایک کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا کمانڈر نوید جٹ ہے۔ اس جھڑپ میں تین بھارتی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض انتظامیہ نے ضلع میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔ کشمیریوں کی طرف سے جٹ، جٹ، نوید جٹ کے زبردست نعرے لگائے جاتے رہے۔ حریت کانفرنس کے قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک اور محمد اشرف صحرائی نے بڈگام میں شہید نوجوانوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ نوید جٹ کی شہادت کی خبر پر ہزاروں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے اور بھارتی فوج کے ظلم و دہشت گردی کیخلاف زبردست احتجاج کیا۔ کشمیری نوجوانوں نے بھارتی فورسز اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا۔ کشمیریوں کا سخت احتجاج دیکھ کر بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گن کے چھرے برسائے اور بدترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی جس سے 30سے زائد کشمیری نوجوان زخمی ہوگئے جن میں سے نصف درجن نوجوانوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ زخمی کشمیریوں کو مختلف ہسپتالوں میں داخل کروادیا گیا ہے۔حریت قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اورمحمد یٰسین ملک نے بڈگام میں شہید ہونے والے کشمیری مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نوجوان عالمی ضمیر کو جگانے اور اپنی قوم کو بھارتی تسلط سے نجات دلانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تاکہ اقوام عالم کشمیریوں سے کئے گئے اپنے وعدے پورے کرے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ نوید جٹ 2011ء میں مقبوضہ کشمیر داخل ہوا تھا اور بھارتی فورسز کیلئے درد سر بنا ہوا تھا۔ بعد ازاں 2015ء میں وہ کولگام کے بہی باغ گاوں سے زخمی حالت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ کمانڈر نوید جٹ رواں سال چھ فروری کو بھارتی حراست سے فرار ہو ئے اور بحفاظت کشمیری مجاہدین کے ساتھ مل گئے تھے۔ نوید جٹ کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں بھارتی فورسز اہلکاروں کی جانب سے نہتے کشمیریوں کی گاڑیوں کے شیشے اور دروازے ٹوٹے ہوئے دکھائے گئے ہیں جبکہ مقامی کشمیری بھارتی درندگی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔تعلیمی اداروں کے طلباء نے بھی احتجاجی مظاہرے کئے اور شہیدکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی،میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی کشمیر کے طول وعرض میں بھارتی قابض فورسز کی طرف سے بڑے پیمانے پر جاری نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا اٹھارہ ماہ کی حبہ کو کیوں پیلٹ گنوں کا نشانہ بنایا گیا ؟کیااس نے بندوق یا پتھر اٹھا رکھا تھا۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم کو جائز ٹھہرانے کے لئے بھارت ہمارے مقتولین کو دہشت گرد اور ہماری املاک اور نہتے لوگوں کو دہشت گردوں کا معاون قرار دے رہا ہے۔ بھارتی حکمران اور جموں وکشمیر میں تعینات اسکی فورسز نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و جبر اور قتل و غارت کا سلسلہ دراز اور تیزکردیا ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کو اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی جاری رکھنے سے روکنا ہے۔
 

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 30 Articles with 20068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.