ناروے کے سابق وزیراعظم جیل میگنے بوندویک نے گزشتہ دنوں
نئی دہلی، سرینگر، اسلام آباد اور مظفر آباد کا اچانک دورہ کیا ۔ انہوں نے
آر پار کشمیری آزادی پسندوں، بھارت نوازوں اور پاک بھارت قیادت سے ملاقاتیں
کیں۔جمعۃ البارک23نومبر کو سرینگر میں حریت قائدین سید علی شاہ گیلانی، میر
واعظ عمر فاروق کے ساتھ بات چیت کی۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان سے
بھی ملاقات کی۔ جس پر بھارت کے سابق نائب وزیرخارجہ اورمقبوضہ کشمیر کے
سابق وزیراعلیٰ ، صدر نیشنل کانفرنس عمر عبد اﷲ نے بی جے پی حکومت سے سوال
کیا ، ـ’’ کشمیر میں نارویجن کی کیا دلچسپی ہے۔ کیا بھارتی وزیر خارجہ سشما
سوراج یا اجیت دوول جو نیشنل سیکورٹی مشیر ہیں ، کشمیر کے دونوں اطراف اس
دورہ پر درست روشنی ڈالیں گے یا ہم افواہوں پر ہی گزارہ کریں۔ ‘‘ تا ہم عمر
عبد اﷲ نے کہا کہ وہ نارویجن سابق وزیراعظم کی ملاقاتوں سے اپ سیٹ نہیں اور
وہ برف پگلانے میں کسی بھی قدم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔اس دورہ پر کانگریس نے
بھی سوالات اٹھائے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے کہا ’’ بوندوویک
ڈپلومیسی کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مودی گورنمنٹ نے کشمیر پر تیسری
پارٹی کی ثالثی کی اجازت دے کر نیشنل سیکورٹی پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اس لئے
مودی جواب دیں کہ ایک تیسرے ملک کے سابق وزیراعظم ’علٰحیدگی پسندوں‘(یعنی
حریت قائدین)کے ساتھ کیوں مذاکرات کر رہے ہیں جب کہ بھارت نے کشمیر کے ساتھ
ہمیشہ دو طرفہ ایشو کے طور پر نپٹا ہے‘‘۔ میر واعظ مولوی عمر فاروق نے کہا
، ’’ جیسا کہ ناروے دنیا بھر میں تنازعات کے حل میں تعمیری کردار اداکرنے
کے لئے معروف ہے، اس لئے انہوں نے بوندیویک پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں
روزانہ کی ہلاکتوں کے خاتمہ اور کشمیر ایشو کے فوری حل میں مدد کریں۔ ‘‘
جیل میگنے بوندویک ناروے کے دو بار وزیراعظم رہے ہیں۔ جب کہ وہ ملک کے نائب
وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر
بھی رہ چکے ہیں۔ ناروے کے 71سالہ لیڈرتھینک ٹینک ادارے اوسلو سنٹر فار پیش
اینڈ ہیومن رائٹس کے سربراہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی
ایلچی برائے افریقہ جیسی خدمات سمیت سری لنکاحکومت اور ایل ٹی ٹی ای باغیوں
کے درمیان ثالثی کے لئے معروف ہیں۔ یہ ثالثی اس وقت کی جب وہ ناروے کے
وزیراعظم تھے۔ کشمیری قائدین سے ملاقاتوں کے بعد انہوں نے کہا کہ مسلہ
کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ وہ توقع ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے امن
اقدامات سے پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔
مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ انٹر ویوکے دوران ناروے کے لیڈر نے کہا کہ ان
کا پاکستان اور آزاد کشمیرکادورہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے دورہ سے منسلک
ہے۔ وہ زمینی حقائق اور کشمیر تنازعہ کے بارے میں مختلف آراء سے زیادہ سے
زیادہ معلومات رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال میں کشمیری حریت پسندوں کی
کسی فارن سفارتکار کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ یہ دورہ اور ملاقاتیں
بھارتی ہندو دھرم کے گورو شری روی شنکر کی ایما پر ممکن ہو سکیں۔ جس کا
اعتراف خود بوندویک نے بھی کیا ہے۔ پہلے انہوں نے سرینگر کا دورہ کیا ۔ پھر
دہلی میں مختلف ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد اسلام آباد پہنچے ۔ وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی سے بات چیت کی۔ آزاد کشمیر کے صدر سے ملقات کی۔ اس کے بعد کہا
کہ ہمیں مسلہ کشمیر کا پر امن حل تلاش کرنا چاہیئے۔ حریت کانفرنس کے رہنما
سمجھتے ہیں کہ یہ ناروے کی سنجیدہ کوشش ہے کیوں کہ ناروے نے ماضی میں کئی
تنازعات حل کرانے میں کردار ادا کیا ہے۔ میرواعظ کا کہنا ہے کہ انہوں نے
ملاقات کے دوران کہا کہ عرصہ دراز سے پاک بھارت کے دو طرفہ مذاکرات آگے
نہیں بڑھ سکے ہیں۔ جب کہ بوندویک نے انہیں کہا کہ ان کا فوکس کشمیر کے پر
امن حل پر ہے۔ اور تشدد کا خاتمہ، بات چیت کا آگا ز چاہتے ہیں۔
بھارت نے بھی ناروے کے سابق وزیراعظم کو دورہ کشمیر سے نہ روکا۔ یہ بھی
دلچسپ پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ پاک بھارت بات چیت اور اس میں کشمیریوں
کی شمولیت کی بیرونی وکالت بھی پیش رفت ہے۔ سرینگر میں بوندیویک کی چیمبرز
آف کامرس اور بار ایسوسی ایشن سے ملاقاتیں بھی اہمیت کی حامل رہیں۔ وہ اس
میں بھارت کا موقف بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر پاک بھارت نے مسلہ کے حل کے لئے
کسی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی تو وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ تا ہم
بھارت نے اس طرح کی ابھی تک کوئی دعوت نہیں دی ہے۔ وہ پاک بھارت کی موجودہ
صورتحال بھی سمجھتے ہیں۔ ’’ میں بھولا بھالا نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ
بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں، اس لئے کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کی
بات کرنے کا یہ وقت نہیں‘‘۔جاری |