کپتان نے اپنے سو دنوں کی کارکردگی کے اعلان کے بعد فوری
طور جو فیصلہ کیا وہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا ہے جسکے بعدگورنر ہاؤس
بھی آزاد ہوجائیگا آزادی ایک نعمت ہے جسکی قیمت ہم سب گذشتہ 71سالوں سے ادا
کرتے آرہے ہیں مگر یہ نعمت ہم سے روٹھی ہی رہی کبھی اسلام کے نام ہمیں
نیلام کیا گیا کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے سہانے خواب دکھا کر ہمیں بیوقوف
بنایا گیا تو کبھی روشنیوں کی چکا چوند سے ہمیں اندھا بنادیا گیااب تبدیلی
اور نئے پاکستان کے نام پر کپتان کو اپنے سروں پر بٹھا لیا ہے ملک پی ٹی
آئی کی حکومت کو ایک سو دن سے اوپر ہوچکے ہیں مگر وہ تبدیلی جسکا خواب
عمران خان نے دکھا یاتھا ابھی تک ملک کے کسی بھی کونے سے رونما ہونا شروع
نہیں ہوئی خاص کر پنجاب میں تبدیلی کے جو بلند بانگ دعوے کیے گئے ان میں سے
ابھی تک سوائے موٹر سائیکل والوں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی اور غیر قانونی
بیٹھے چند قابضین کی تعمیر کی ہوئی مختلف جگہوں کی توڑ پھوڑ کے علاوہ نئے
پاکستان کی بنیادیں کہیں نظر نہیں آرہی پنجاب کے وزیر اعلی ابھی تک اپنی
شناخت کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے لگتا ہے کہ ابھی بھی وہ اپنے آپ کو
تحصیل ناظم کی سطح کا وزیراعلی ہی سمجھ رہے ہیں کوئی محکمہ سیدھا ہوا نہ ہی
کوئی سرکاری ملازم راہ راست پر آسکا سوائے تبادلوں کے سیلاب کے اور کوئی
قابل ذکر کارنامہ پنجاب حکومت کے نامہ اعمال میں شامل نہیں ہے لگتا ہے کہ
عمران خان کی بہتری کی تمام کوششوں کو پنجاب حکومت میں شامل تمام اتحادی مل
جل کر سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے اسمبلی کا اجلاس ہو تو اپوزیشن اراکین کے
ایک ہی دبکے سے حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے اراکین کو سانپ سونگ جاتا ہے اب
تک کے ہونے والے تمام اجلاسوں میں سپیکر کی ایک نہیں چلی اور اپوزیشن چھائی
رہی جبکہ بعض اوقات تو ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ پنجاب میں ابھی تک
مسلم لیگ ن کی ہی حکومت چل رہی ہے رہی بات اداروں کی وہ ابھی تک اپنی سمت
درست نہیں کرسکے کریں بھی تو کیسے خادم اعلی کی نوازشوں کے سائے تلے پروان
چڑھنے والے آج بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وہی
افسران جو کبھی میاں شہباز شریف کے کار خاص ہوا کرتے تھے آج بھی اہم عہدوں
پر تعینات ہیں جو محنتی اور قابل افسران میرٹ پر کام کرنا جانتے ہیں وہ اس
وقت بھی خوار تھے اور اب بھی ہیں اور رہی سہی کسر پنجاب پولیس نے پوری
کررکھی ہے جو مسلسل دیہاڑیا ں لگانے میں مصروف ہے عوام پہلے بھی ان سرکاری
بدمعاشوں سے تنگ تھی سو اب بھی ہے اس وقت نئے پاکستان کے حوالے سے سب کی
نظریں پنجاب اور بلخصوص لاہور پر ہیں اور لاہور میں ہی اس وقت پی ٹی آئی کی
کمزور گرفت ہے یہاں تھانہ کچہری کا نظام بدل سکا نہ ہی پولیس کے نظام میں
کوئی تبدیلی آئی آئے روز پولیس کے حوالہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا
جارہا ہے اوربعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ حکومت کے آتے ہی
تمام ادارے بے لگام ہوگئے خاص کر پولیس نے تو اپنی تمام کثریں نکالنا شروع
کردی ہیں اس وقت باقی تمام صوبوں اور شہروں کو تو چھوڑ دیں صرف شہر اقتدار
لاہورکو ہی دیکھ لیں جہاں وزیراعظم عمران خان کی ہر وقت نظریں لگی رہتی ہیں
شریف النفس عثمان بزدار وزیراعلی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں انکے نیچے
پوری کابینہ دن رات مصروف ہے آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی تبادلوں
اور معطلیوں میں مصروف ہیں مگر پولیس والے بدل سکے نہ ہی پولیس کا نظام
بدلا جاسکا آج بھی لاہور میں جواریے اور بکیے راج کررہے ہیں منشیات گلی
محلوں سے ہوتی ہوئے تعلیمی اداروں میں داخل ہوچکی ہے مظلوم ویسے ہی پس رہا
ہے جیسے پہلے تھا پولیس مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم کے ساتھ کندھے سے
کندھا ملا کر چل رہی ہے الیکشن سے پہلے تبدیلی کے جو نعرے لگائے گئے تھے
انہی سے متاثر ہوکر عوام نے کپتان کو ووٹ دیے تھے کہ شائد عام انسان کی
زندگی بھی تبدیل ہو جائے منافقت کی سیاست سے جان چھوٹ جائے اور انصاف کی
دستک انکی دہلیز تک بھی پہنچ جائے مگر گذرنے والے سو دنوں میں کچھ بھی تو
تبدیل نہیں ہوا سوائے چہروں کے باقی تو سب ویسے ہی چل رہا ہے جیسے پہلے تھا
ہاں ایک فرق ضرور پڑا کہ پولیس افسران میں جو ڈر اور خوف تھا وہ ختم ہوچکا
ہے ہمارے تھانے روز بک رہے ہیں انسانوں کی بولیاں لگائی جاتی ہیں بے گناہوں
کو پکڑا جاتا ہے مک مکا کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے گناہ گاروں کے اڈوں کی پولیس
سرپرست بن چکی ہے یہ لاہور کے قصے ہیں جناب اور ان شہروں کا کیا حال ہوگاجو
لاہور سے سینکڑو میل دور ہیں اور جہاں سب ادارے ہی آزاد اور ہر بااثر شخص
اپنا ہی قانون رکھتا ہے وہاں کے مظلوموں کا کیا حال ہوگا کیونکہ شہر اقتدار
کے باسی ابھی تک تو انصاف کی آواز سے ہی محروم ہیں اعلان کب ہوگا اور پھر
اس پر عملدرآمد کب ہوگا کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ غریب کو کب انصاف کی ٹھڈی
ہوا کا جھونکہ میسر آئے ابھی تک تو لاہور والے ہی انصاف کو ترس رہے ہیں
تھانہ کاہنہ کی رہائشی صائمہ بی بی ،تھانہ سبزہ زار کا رہائشی اعجاز عرف
ججی انصاف کے حصول کے لیے دربدر ہیں پولیس تھانہ کاہنہ نے صائمہ بی بی کے
ساتھ زیادتی کا مقدمہ کچھ دن انتظار کرنے کے بعد اپنی مرضی سے درج کرلیا
مگر ملزمان کو ابھی تک تحفظ فراہم کیا جارہا ہے دوسری طرف تھانہ سبزہ زار
کے علاقہ کا رہائشی اعجاز عرف ججی ابھی تک مقدمہ کے اندراج کے لیے کوشاں ہے
دو ہفتوں سے زائد ہونے کے باوجود پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی باقی
پنجاب کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے جہاں غریب اور مظلوم کو حصول انصاف کے
لیے دربدر کی خاک چھاننا پڑے کپتان کی ذمہ داری ہے کہ جو بھی ظلم کی دیوار
انصاف کی راہ میں حائل ہو اسے بھی فورا گرا دیں ورنہ سابق حکمرانوں کے دعوے
تو کپتان سے بھی بلند وبانگ تھے۔ |