عدنان خشقجی کی منگیتر حدیث سینگیز ترک خاتون کا کہنا ہے
کہ گزشتہ ہفتے بروز منگل جمال اور میں بہت ہی خوشگوار موڈ میں اپنے
اپارٹمنٹ سے نکلے اور سعودی ایمبیسی کی جانب روانہ ہوئے۔جمال نے مجھے
ایمبیسی کے باہر کھڑے ہونے کی تاکید کی اور کہا اگر میں واپس نہ آسکا تو
میری گمشدگی کی اطلاع صدر طیب اردگان تک پہنچا دینا۔ان کے ہاتھ میں ایپل کی
واچ تھی جس میں حساس آلات کیساتھ ، ساتھ خفیہ کیمرے بھی تھے۔جس سے تمام
آوازیں اور وڈیو ریکارڈ ہوچکی ہیں اس ایپل واچ کا تعلق باہر، جمال خشقجی کے
موبائل کیساتھ تھا۔اور سارا ڈیٹا اس میں آچکا تھا جو وہ پولیس کے حوالے کر
چکی ہیں۔اور یہ سارے ثبوت ترکی صدر تک بھی پہنچ چکے ہیں۔جو اس معاملے میں
ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس قتل کے ذمہ دار آٹھ افراد کی گرفتاریاں بھی عمل
میں لا چکے ہیں۔جمال کی منگیتر حدیث یہ بھی کہتی ہیں۔کہ میں نے کئ گھنٹے
ایمبیسی کے باہر کھڑے ہوکر جمال کا انتظار کیا اور پھر ترک حکومتی اداروں
کو اس واقعے کی اطلاع دی۔جلد ہی پولیس مجھ تک پہنچ گئ اور مجھے اپنی حفاظتی
تحویل میں لے لیا، مجھ سے میرا بیان اور ساری ریکارڈنگز کے ثبوت حاصل
کئے۔مجھے 24 گھنٹے پولیس نے اپنی حفاظت میں رکھا کیونکہ میں اس واقعے کی
واحد گواہ تھی۔جو جانتی تھی کہ جمال ایمبیسی گیا ہے اور واپس نہیں آیا۔
جبکہ جمال خشقجی کے سعودی ایمبیسی جانے اور واپس آنے کے بارے میں شروع میں
سعودی ایمبیسی کے اہلکاروں نے یہ بات ماننے سے ہی انکار کردیا کہ جمال
ایمبیسی میں ہی ہیں، وہ یہی کہتے رہے کہ جمال واپس جا چکے ہیں اور ثبوت میں
جو وڈیو پیش کی گئ اس میں موجود شخص کو بھی پہچان لیا گیا ہے۔وہ مصطفی
المدنی ہے جو سعودی شاہی خاندان کا ایک خاص قریبی ساتھی مانا جاتا ہے۔جسے
جمال کا وہی لباس جو انہوں نے ایمبیسی جاتے ہوئے پہن رکھا تھا پہنا کر
ایمبیسی کے پچھلے دروازے سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔پولیس نے اعتراض
کیا کہ یہ تو وہ دروازہ ہے جس سے ایمبیسی کا عملہ روانہ ہوتا ہے پر لباس
بلاشبہ وہی ہے۔
اس کے بعد سعودی ایمبیسی کے اہلکاروں کی بوکھلاہٹ بڑھی اور آخرکار انہوں نے
اقرار کیا کہ جمال کی، ایمبیسی کے عملے سے توتکار ہوگئ جس پر عملے کے ایک
فرد نے اسے قتل کردیا۔اس قتل کے حوالے سے اب تک جو حقیقت معلوم ہوچکی ہے وہ
رونگھٹے کھڑے کردینے والی ہے۔
جمال خشقجی کے جسم کے ٹکڑے کرنے کیلئے ایک خصوصی جلاد ڈاکٹر سعودیہ سے
بھیجا گیا کل ملا کر 15 افراد نے یہ وحشیانہ فعل انجام دیا اور سب کو ہیڈ
فونز پہ تیز موسیقی اس پورے عمل کے دوران سنائ گئ، اس کی سب سے پہلے
انگلیاں کاٹی گئیں ان کے چیخنے چلانے پر اسے نیم بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا گیا
تاکہ وہ مزاحمت نہ کرسکے۔ پھر چہرے کی کھال کھینچی گئ۔پھر بلاشبہ اس کے جسم
کو زندہ حالت میں 15 ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا، اور آخر میں اس کے سر کو تن
سے جدا کیا گیا۔
|