کسی زمانے میں ہندوستان میں روحانی علم کے کچھ بزرگوں کا
اپنے اپنے علاقے میں بہت شہرہ تھاحضرت میاں محمد شیر صاحب پیلی بھیت میں
نمایان شہرت کے مالک تھے تو حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آباد میں
مشہور تھے، حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب کا طوطی دیوہ مین بولتا تھااور
حضرت غوث علی شاہ صاحب پانی پت میں اپنے علم کے موتی بکھیراکرتے تھے۔خواجہ
حسن نظامی صاحب نے حضرت میاں محمد شیر صاحب کے بارے میں ایک واقعہ تحریر
کیا ہے
لکھتے ہیں
میں نے سنا پیلی بھیت میں حضرت میاں محمد شیر صاحب تسخیر جنات اور ہمزاد کے
بڑے عامل ہیں۔اس واسطے میں دہلی سے ریل میں سوار ہو کر پیلی بھیت گیا، جب
اسٹیشن پر اترا تو میری جیب میں صرف چار پیسے تھے،میں نے سوچا بزرگوں کے
پاس خالی ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔اس لیے میں نے ایک پیسے کے امرود لیے اور
شاہ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ منڈھیا پر سانولے رنگ اور
چھوٹے قد کے ایک بزرگ جن کی سفید لمبی داڑہی ہے اور سر پر نیلے گاڑھے کی
پگڑی ہے بیٹھے ہیں ۔ میں نے جا کر سلام کیااور امرود ان کے قدموں میں رکھ
دیے۔اور لوگوں کے ساتھ میں بھی بیٹھ گیا۔شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر
فرمایا کہو میان دہلی میں خیریت ہےْ
عامل ، پیر اور روحانیت کے استادوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آنے والے کے
بارے میں پیشگی طور پر جان لیتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے کہ میرے استاد ، جن کے
پاس اکثر سائے والے مریض آتے ہیں ۔مریض کے آنے سے قبل ہی اس کے بارے میں
معلومات اپنے ساتھیوں کو دے دیتے ہیں۔ دراصل ایسے افراد نے ایسی تمرین و
مشق کی ہوتی ہے یا ایسے چلے کاٹے ہوتے ہیں کہ ان کو روحانی طاقتین حاصل ہو
جاتی ہیں۔ ان روحانی طاقتوں میں مستقبل بینی، دوسرے کا ذہن پڑہنا اور مریض
کی سوچ پر اثر انداز کی قوت شامل ہوتی ہے۔یہ طاقت ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔
مگر اس کے لیے جو مشقیں کرنا پڑتی ہیں وہ ہر انسان کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔
پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میرے استاد کے پاس ایک نوجوان آیاجو تسخیر
جنات کا علم سیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی تعلیم ایف اے تھی۔اس کا سارا خاندان
لندن میں جبکہ وہ اکیلا ضلع راولپنڈی کی اس وقت کی تحصیل کہوٹہ کے ایک شہر
کلر سیداں کے پاس ایک گاوں میں رہتا تھا۔ والدین کی بنائی چار کنال کی
کوٹھی میں مقیم تھا۔ دولت کی بھی کمی نہ تھی۔ مگر اس کے دماغ میں جنات کو
قابو کرنے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ استاد محترم نے اس کو ٹالنے کی بہت کوشش
کی مگر اس نے ایک سال سے زیادہ عرصہ منت سماجت کر کے استاد جی کو راضی کر
ہی لیا۔ استاد جی نے اس کی قوت ارادی کا امتحان لینے کے لیے اسے ایک چلہ
بتایا جو رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر کرنا تھا۔ تسخیر جنات کے چلے کے
دوران عامل بننے والے شخص کو ایک تو نڈر ہونا چاہیے دوسرے اپنے استاد کے
بتائے ہوئے عمل اور وظیفے پر ہرحال میں کار بند رہنا چاہیے ۔ وہ نوجوان قوت
ارادی کو مضبوط کرنے والی چند ایک مشقیں کامیابی سے کر چکا تھا۔اب اس نے
رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر ایک عمل کرنا تھا۔ استاد جی نے اس کو ممکنہ
پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کر دیا تھااور یہ ہدائت بھی دی تھی کہ وہ کسی
صورت اپنا وظیفہ نہ چھوڑے ورنہ وہ کسی دائمی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
یہ وظیفہ یا چلہ اکیس دن کا تھا۔نوجوان ہدایات اور عزم لے کر جانے لگا تو
یہ بھی بتا گیا کہ وہ آنے والے اتوار کی رات سے چلہ شروع کرے گا۔ وہ دن
منگل کا تھااور ستمبر کا مہینہ تھا۔ سوموار والے دن استاد جی نے بتایا کہ ْ
انگلینڈیے ْ نے اپنے گھر میں ایک تالاب بنایا ہے اور اس میں کھڑے ہو کر رات
والا وظیفہ کیا ہے۔ استاد جی کو یہ خبریں ان کے جنات دیتے تھے۔ اگلے منگل
کو میں صبح کے وقت استاد جی کے پاس موجود تھا۔ انھوں نے بتایا رات کو ْ
انگلینڈیا ْ ڈر گیا ہے ۔ بے ہوش ہے اور ابھی لوگ اسے یہاں لا رہے ہیں۔ کچھ
دیر بعد ایک گاڑی آ کر رکی۔ لوگوں نے بے ہوش نوجوان کو گاڑی سے نکالا۔
استاد جی کو بتایا گیا وہ رات کے کسی پہر چیخیں مارتا ہوا گلی میں بھاگ رہا
تھا۔ پھر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ رشتے دار صبح کے وقت اس کو کلر سیداں میں
ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ ڈاکڑ نے بہت کوشش کی ۔ دو ٹیکے بھی لگائے مگر
نوجوان کو ہوش نہ آیا۔ عقلمندی اس نے یہ کی تھی کہ چلہ شروع کرنے سے پہلے
اپنے کچھ رشتے دار ساتھیوں کو اپنے چلے اور استاد کے بارے میں بتا دیا
تھا۔اس کے رشتے دار اس کو اٹھا کر استاد جی کے پاس لے آئے تھے ۔ استاد جی
کے پاس پہنچے کے ایک گھنٹے بعد اس کو ہوش آنا شروع ہوا ۔ اس دوران اس پر
تین بار مخصوص دم شدہ پانی چھڑکا جاتا رہا۔ڈاکٹر کو بلایا گیا اور تیسرے دن
اس کا بخار اترا۔ تسخیر جنات کا شوق بھی اتر چکا تھا۔ مگر خوف باقی تھا۔
استاد جی نے مجھے کہا دفتر سے تین دن کی چھٹی لو اور اس کے ساتھ رہو۔ جب
میں اور اس کے رشتے دار گاوں پہنچے تو اس نے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ اس
کا ماموں ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ دوسرے دن میں اس کے گھر وہ تالاب دیکھنے
گیا مگر اس نے دن کے وقت بھی گھر جانے سے انکار کردیا۔ اس کے ماموں اور ان
کے گھر والوں نے اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لی۔ میں واپس آگیا۔ چند دنوں
کے بعد اس نے ماموں کے بیٹوں کے ساتھ گھر جانا شروع کر دیا۔ تالاب پاٹ دیا
گیا۔اور اس کا خوف ختم ہو گیا۔ کئی ماہ بعد گرمیوں کے دن تھے کہ استاد جی
نے ایک لڑکے کو ایک تعویز دے کر اس کے گاوں بھیجا اورجلدی پہنچنے کی تاکید
کی۔استاد جی کا کہنا تھا ۔ اس کے گلے میں پڑا ہوا ان کا دیا ہوا تعویذ چشمے
میں نہاتے ہوٗے اس کے گلے سے نکل گیا ہے۔ جب لڑکا واپس آیا تو نوجوان بھی
اس کے ساتھ تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کو تعویذ کے گرنے کی خبر ہی نہیں ہوئی
مگر وہ
خود کو ہلکے بخار کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھاکہ اس کو کمک مہیا کر دی
گئی۔
سالوں بعد کئی بار کے میرے اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ واقعہ
کیا پیش آیا تھا۔
میں نے اپنی کوٹھی کے صحن میں پانچ فٹ گہرا تالاب بنوایا ۔ اس میں ٹنکر کے
ذریعے چار فٹ پانی بھرا ۔ اتوار کی رات کو میں نے چلہ شروع کیا۔چوتھی رات
کو مجھے کچھ غیر مانوس مخلوق کی موجودگی کا احسا س ہونا شروع ہو گیا۔لیکن
میں نے توجہ پڑھائی پر رکھی ۔ اگلی رات کچھ صورتیں نظر آئیں جو مکروہ اور
ڈراونی تھی مگر میں ان سے متاثر نہ ہوا۔ اگلی رات پھر ڈراونی آوازیں اور
کریہہ چہرے والوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی ۔لیکن میں ڈرا نہ میں نے استاد
جی کا بتایا ہوا وظیفہ چھوڑا۔
اس سے اگلی رات وہ ڈراونی صورتوں والی مخلوق تیزی سے میری طرف حملہ آور
ہوتی مگر مجھے استاد جی نے بتایا ہوا تھا کہ وہ ڈرا سکتے ہیں مجھے کوئی
نقصان نہیں پہچا سکتے۔ایک رات میں پانی میں کھڑا تھا ۔ گھر کی تمام بتیاں
بجھی ہوئی تھیں ۔ میرا منہ اپنے گھر کے مین گیٹ کی طرف تھا۔ کہ میں نے
دیکھا ایک آدمی نے تالا لگے گیٹ کو کھول لیا ۔ گیٹ کے دونوں پٹ کھول کر وہ
ادمی باہر گیا ۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک رسی تھی۔ رسی اونٹ کی نکیل
میں بندہی ہوئی تھی۔ اونٹ کے گلے میں بڑاسا گھنٹہ تھا۔ اونٹ پر ایک عورت سر
پر چادر ڈالے منہ چھیائے بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں ایک بڑا سا دیگچہ رکھا
ہوا تھا۔ اور عورت کی پشت پر ایک معصوم سا ننگ دھڑنگ بچہ بیٹھا ہوا تھا۔
آنے والا اونٹ سمیت گھر میں داخل ہوا۔تالاب کے کنارے اس نے اونٹ کو بٹھایا۔
ایک چٹائی بچھائی، جس پر وہ خود ، عور ت اور بچہ بھی بیٹھ گئے۔ عورت نے
دیگچے کا ڈھکن اٹھایا اور تینوں نے مل کر اس میں جو کچھ بھی تھا کھا لیا۔
جب دیگچہ خالی ہو گیاتو عورت نے دیگچہ زور سے پھینکا جو میرے سرکے اوپر سے
گذر کر دور ایک درخت سے زور دار آواز کے ساتھ ٹکرا کر نیچے گر گیا۔میں یہ
تماشا دیکھ ہی رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ شائد ابھی یہ کوئی ڈراونی حرکت
کریں گے۔ مجھے یاد تھا وہ مجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہچا سکتے اس لیے میں
نے ساری توجہ وظیفے پر مرکوز کر دی۔ انھوں نے میرے ساتھ کوئی حرکت نہ کی
جیسے وہ میری موجودگی ہی سے بے خبر ہوں۔ میری توجہ وظیفے پر تھی ۔اتنے میں
میں نے سنا عورت مرد سے کہہ رہی ہے مجھے بھوک لگی ہے۔ مرد نے اونٹ کی طرف
اشارہ کیا کہ اسے کھالو۔ اس عورت نے وہیں سے بیٹھے ہوئے دونوں ہاتھ بڑہائے
اور زندہ اونٹ کو ٹکڑوں میں کر کے کھانا شروع کر دیا۔ چند لمحوں میں وہ
سارا اونٹ کھا گئی۔میں سمجھ گیا یہ مجھے ڈرانے کے لیے ہو رہا ہے۔ میں نے دل
کو مضبوط کیا کہ کچھ بھی کریں میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔کہ اتنی دیر میں
عورت کی آواز سنائی دی وہ مرد سے کہہ رہی تھی اب کیا کھاؤں ۔ مرد نے بچے کی
طرف اچارہ کیا عورت نے بچے کے دو ٹکڑے کیے بچے کی چیخوں کی آواز نے گویا
میرا دماغ ہی شل کر دیا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ بچے کو کھا گئی۔ بچے کو
کھاکر اس نے مرد سے پوچھا اب کس کوکھاوں۔ مرد نے میری طرف اشارہ کر کے کہا
اپنے اس باپ کو کھاو جس کے لیے میں تمھیں یہاں لے کرآیا ہوں۔عورت اٹھی اس
نے سر پر پڑی چادر اتار دی ۔ اس کا ڈروانا ، کریہہ، شیطانی چہرہ ایسا تھاکہ
میرا جسم خوف سے کانپ گیا۔ عورت نے میری طرف ہاتھ بڑہائے میں خوف سے بھاگ
کر تالاب کے گرد کھینچے دائرے سے باہر نکل گیا۔میں بھاگ نکلا مگر وہ ہاتھ
میرا پیچھاکرتا رہا۔مجھے محسوس ہوا ہاتھ میرے گلے تک پہیچ گیا ہے ۔ اس کے
بعد کیا ہوا ۔مجھے لوگوں نے بتایا تم گلی میں چیختے بھاگ رہے تھے ۔ پھر گر
کر بے ہوش ہو گئے ْ
مجھے معلوم ہے اس کو بچانے میں استاد جی کا ہاتھ تھا جو رات کو جاگ کر اپنے
موکلوں کے ذریعے اس کا خیال رکھتے تھے۔میری ان تمام شوقین مزج لوگوں کو
نصیحت ہے کہ وہ تسخیر جنات کا کوئی بھی عمل کسی استاد کامل کی سرپرستی کے
بغیر نہ کریں۔ورنہ اس میں جان سے ہاتھ دہو بیٹھنے کا خطرہ ہے۔
کالم کا دامن تنگ ہو گیا ہے حضرت میاں محمد شیر صاحب کے بارے میں آئندہ کسی
کالم میں لکھوں گا- |