سوال(1) رات میں وضو کرکے سونے گئی مگر دیر تک نیند نہیں
آئی اور وضو ٹوٹ گیا تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے دوربارہ وضو کرنا
چاہئے ؟
جواب : سونے سے قبل وضو کی بڑی فضیلت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا أتيتَ
مضجعَكَ ، فتوضَّأْ وضوءَكَ للصَّلاةِ(صحيح البخاري:6311)
ترجمہ: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز
وضو کرتا ہے۔
اسی حدیث میں مذکور ہے کہ وضو کرکے دائیں کروٹ سوجائے تو کہے "اللَّهُمَّ
أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ
ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ
مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ،
وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" اس کے بعد اگر مرجائے تو دین اسلام پر
خاتمہ ہوگا۔
نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
مَنْ باتَ طَاهِرًا باتَ في شِعَارِهِ مَلَكٌ ، لا يَسْتَيْقِظُ ساعَةً مِنَ
الليلِ إلَّا قال المَلَكُ : اللهمَّ اغفرْ لِعَبْدِكَ فلانًا ، فإنَّهُ
باتَ طَاهِرًا(السلسلة الصحيحة:2539)
ترجمہ: جو شخص رات کو وضو کرکے سوئے تو ایک فرشتہ اس کے پاس رات گزارتا ہے
جب وہ شخص اٹھتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے،اے اللہ! اپنے اس فلاں بندے کی
مغفرت فرما کیونکہ وہ وضو کرکے سویا ہے۔
عشاء کی نماز والا وضو باقی ہے تو پھر سے وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن
جس کا وضو ٹوٹ گیا ہے وہ نیا وضو بنالے اوربا وضو بستر پر آئے ، سونے سے
پہلے وضو ٹوٹ جائے تو پھر سے بستر چھوڑنے اور وضو بنانے میں مشقت ہے ، نیند
کا غلبہ بھی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اللہ نے انسان کو مشقت میں نہیں ڈالا
ہے ۔ وضو کرنے والے کو اس کی نیت کے مطابق اللہ اجر دے گا۔ نیند بھی ناقض
وضو ہے ، سونے سے آخر کار وضو ٹوٹ ہی جاتا ہے کیونکہ نیند ناقض وضو ہے پھر
بھی اللہ اجر پوری رات کا دیتا ہے ۔
سوال(2) قرآن پڑھتے پڑھتے اونگھ آنے لگے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب : تلاوت کے لئے باوضو ہونا افضل ہے مگر ضروری نہیں ہے ۔ بغیر وضو کے
بھی آپ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہیں ، رسول اللہ ﷺنے بھی بغیر وضو کے ایک
مرتبہ نیند سے بیدار ہوکر سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت کی تھیں ۔
آپ نے کافر بادشاہوں کے نام خطوط لکھے جن میں قرآنی آیات لکھی تھیں ۔ یہاں
تک کہ حیض ونفاس والی عورتیں بھی قرآن کی تلاوت کرسکتی ہیں ، رسول اکرم ﷺ
نے ایسی خواتین کو قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا۔ ان ساری باتوں سے معلوم
ہوتا ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے وضو ٹوٹ جائے یا بلا وضو قرآن پڑھ رہی ہیں تو
کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اونگھ سے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ صحيح مسلم( 376 ) میں
ہے کہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم
عشاء كى نماز ادا كرنے كے ليے انتظار كرتے حتى كہ ان كے سر جھك جاتے اور
پھر وضوء كيے بغير ہى نماز ادا كرتے تھے۔
سوال(3) ایام بیض کے روزے کی فضیلت اور اس روزہ کو کب رکھا جائے گا ہمیں
بتلائیں۔
جواب : ایام بیض کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
صومُ ثلاثةِ أيامٍ صومُ الدهرِ كلِّه(صحيح البخاري:1979)
ترجمہ: ہرمہینے میں تین دن روزے رکھ لینا اس سے زمانے بھر کے روزے رکھنے کا
ثواب ملتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کو ایام بیض کے تین روزے رکھنے کی تاکید کرتے اور
خود بھی سفر ہو یا حضر کبھی اسے ترک نہیں کرتے ۔(سلسلہ صحیحہ:580)
ایام بیض کے روزے قمری تاریخ کے حساب سے ہرماہ تیسرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ
کو رکھنا ہے، آپ ﷺ نے ابوذررضی اللہ سے فرمایا:يا أبا ذرٍّ إذا صُمتَ منَ
الشَّهرِ ثلاثةَ أيَّامٍ ، فصُم ثلاثَ عشرةَ ، وأربعَ عشرةَ وخمسَ
عشرةَ(صحيح الترمذي:761)
ترجمہ:ابوذر!جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں ، چودہویں اور
پندرہویں تاریخ کو رکھو۔
بعض عورتوں کو وسط ماہ میں حیض آجاتا ہے،ایسی عورتیں شروع یا آخر ماہ میں
بھی تین روزے اکٹھے یا متفرق طور پر رکھ لیں تو مذکورہ اجر ملے گا۔ ان شاء
اللہ
سوال(4) سجدہ سہو میں اپنی مرضی سے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرسکتی ہوں ؟
جواب : ذکوان نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
أقرَبُ ما يكونُ العبدُ من ربِّه وهو ساجِدٌ؛ فأكثِروا الدُّعاءَ.( صحيح
مسلم:482)
ترجمہ: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے
میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ سجدے کی حالت میں کثرت سے دعائیں کرنی چاہئے
خواہ فرض نماز ہو یا سنت ونوافل یا سجدہ سہو ۔ فرض نماز کے سجدسہو میں
مسنون دعاؤں پر اکتفا کرنا چاہئے یعنی جو دعائیں قرآن میں وارد ہیں یا نبی
ﷺ نے جو ہمیں بتلائی ہیں، انہیں میں سے جو مرضی ہو پڑھنی چاہئے اور نوافل
کے سجدوں میں اپنی مادری زبان میں بھی دعائیں کرسکتی ہیں ۔
سوال(5) مجھ سے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے اورمیں اس کی تعداد بھول گئی اس
صورت میں مجھے کتنا روزہ رکھنا پڑے گا؟
جواب : اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ
سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ(البقرة:184)
ترجمہ: جو كوئى بھى تم ميں سے بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى
پورى كرے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس عورت نے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑی ہے اسے اپنی
گنتی معلوم رکھ کر اتنے دنوں کی قضا کرے ۔ اگر روزہ ترک کرنے میں اس سے
غفلت ہوئی ہے تو اولا سچی توبہ کرے اور آئندہ اس غفلت سے بچنے کا اللہ سے
وعدہ کرے۔ روزوں کی تعداد بھولنے میں غفلت نہیں بلکہ یاد داشت کی کمی ہے تو
پھر کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایسی عورت اپنی یاد داشت پہ زور دے اورایام حیض یا
جس عذر کی وجہ سے روزہ ترک کیا ان ایام سے اندازہ لگائے اور دیکھے کہ کس پر
اطمینان ہوتا ہے؟ جس عدد پر اطمینان ہوجائے اتنے کی قضا کرے اور اگر اسے شک
ہو کہ چار چھوٹا یا پانچ تو پانچ رکھے یعنی زیادہ والا تاکہ وہ بری الذمہ
ہوجائے۔
سوال(6) کیا عورت احرام کی حالت میں موزہ پہن سکتی ہے اور کیا مرد ٹخنے سے
نیچے والا موزہ پہن سکتا ہے ؟
جواب : عورت کے لئے احرام کی حالت میں موزہ پہننا جائز ہی نہیں بہت اچھا
ہےکیونکہ عورت کاجسم مکمل ستر میں داخل ہے اس لئے عورت سر سے لیکر پاؤں تک
مکمل جسم کو اجنبی مردوں سے چھپائے گی خواہ حج وعمرہ ہو یا سفر ہو یا کوئی
اور جگہ مگر بعض خواتین کو احرام کی حالت میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی
شلواربھی ٹخنے سے اوپر ہوتی ہے اور پیر میں ہوائی چپل ہوتی ہے۔ یہ بالکل ہی
غلط ہے۔
احرام کی حالت میں عورت موزہ پہن سکتی ہے ، جوتی پہن سکتی ہے اور مردوں کے
لئے ٹخنے سے نیچے والا موزہ علماء جائز قرار دیا ہے،صحیح بخاری میں ہے کہ
جسے چپل نہ ملے وہ موزہ پہن لے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کرلے۔
سوال(7) ایسی عورت جسے میں نے قرض دیا ہو یا جو مسکین ہو وہ جب ہمیں دعوت
کرے تو اس کی دعوت قبول کرنی چاہئے ؟
جواب : دعوت قبول کرنا مسنون ہے مگر کوئی مسکین مجبوری میں کسی کا دل رکھنے
کے لئے دعوت دے اور یہ بات ہمیں معلوم ہو تو محبت سے سمجھادیں کہ دعوت کی
ضرورت نہیں ہے تاکہ دلی محبت قائم رہے اور مقروض یا کوئی غریب آدمی خوش دلی
سے دعوت کرے اس حال میں کہ اسے کھلانے کی وسعت ہوتو دعوت قبول کرنا چاہئے
خواہ معمولی چیز کی ہی دعوت کیوں نہ کرے اور کھانے میں عیب نہیں نکالنا
چاہئے۔ دعوت کے بدلے ہم کچھ تحائف پیش کردیں تو اچھا ہوجائے گا ۔ اللہ
تعالی مومن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ
أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ (الحشر:9)
ترجمہ: اور وه اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خود ہی سخت تنگی
میں ہوتے ہیں ۔
اس آیت کی شان نزول میں ایک صحابی کا واقعہ کا ہے جو خود بیوی بچوں سمیت
بھوکے رہ کر مہمان کی دعوت کرتے ہیں ۔
سوال(8) کیا میں زکوہ کی رقم نکال کر الگ سے رکھ سکتی ہوں تاکہ اس میں سے
تھوڑا تھوڑا کرکے حاجت مندوں کو وقتا فوقتا دیتی رہوں؟
جواب : مال میں جب زکوۃ واجب ہوجائے اسی وقت مال کی زکوۃ نکال کر فقراء
ومساکین اور حاجتمندوں میں تقسیم کردی جائے ، زکوۃ کے مال کو جمع کرکے
رکھنا اور تھوڑا تھوڑا کرکے مانگنے والوںو حاجتمندوں میں تقسیم کرتے رہنا
جائز نہیں ہے ۔ ہاں کوئی خاص محتاج ہو جس کو کچھ کچھ وقفہ سے دینا مصلحت کے
تئیں ہو تو چند ایک قسطوں میں دینا حرج کی بات نہیں ہے ۔ نفلی صدقات نکال
کر رکھ سکتی ہیں جسے سال بھر تقسیم کریں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(9) ایک مسجد میں نچلے حصے میں عورتوں کے لئے نماز اور تعلیم کے واسطے
کمرہ خاص ہے کیا اس کمرے میں تعلیم کی غرض سے حائضہ عورت داخل ہوسکتی ہے ؟
جواب : اگر وہ کمرہ اصلا نماز کے لئے بنایا گیا ہے اور کبھی کبھار خواتین
اس میں درس وغیر ہ دے دیا کرتی ہیں تو پھر اس میں حیض والی عورت کا داخل
ہونا اور اس کمرہ میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر یہ کمرہ شروع سے تعلیم
کی نیت سے بنایا گیا اور اس میں عورتیں نماز بھی ادا کرلیا کرتی ہیں تو پھر
اس صورت میں حیض والی کا اس میں دخول ممنوع نہیں ہے جیسے مسجد کے نچلے حصے
میں کوئی کمرہ لائبریری، کوئی کمرہ اسٹور اور کوئی کمرہ امام کی رہائش کے
لئے مخصوص کردیا جاتا ہے یہ کمرے اصلا مسجد کے حکم میں نہیں ہیں ،ان میں
جنبی اور حائضہ کا دخول یا وقوف ممنوع نہیں ہے ۔
سوال(10) شوہر غیرفطری طریقے سے عورت کو مباشرت پہ مجبور کرے تو ایک نیک
بیوی کا کیا فریضہ بنتا ہے ؟
جواب : بیوی کو مردوں کے لئے کھیتی قرار دیا گیاہے وہ جس طرح چاہیں اپنی
بیوی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر جماع کے لئے اسلام نے پاکیزہ اصول بتلائے
ہیں ۔ پچھلی شرمگاہ میں جماع حرام ہے ایسے فعل کا مرتکب شخص ملعون ہے ،
جماع اگلی شرمگاہ میں حلال ہے اور حیض ونفاس میں اگلی شرمگاہ میں بھی جماع
ممنوع ہے ۔ لہذا مومن مرد کو بیوی کے پاس جائز طریقے سے آنا چاہئے اور حرام
وممنوع طریقوں سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔ مومنہ کے ذمہ ہے کہ شوہر کی
بھلی بات میں تابعداری کریں ، منکر اور حرام کاموں میں بات نہ مانیں ،
بیہودہ کا م پراللہ کا خوف دلائیں ، نصیحت کریں ، باز نہ آئے تو ناراضگی کا
اظہار کریں ۔ یقینا مردوں میں گندی حرکتیں ،گندی چیزوں کے دیکھنے ، رب کی
بندگی سے غافل اور اس کی پکڑ سے بے خوف ہوجانے کی وجہ سے پائی جاتی ہیں ۔
نیک بیوی ایسے مردوں کو نماز کا پابند بنائے۔ گندی فلموں اورفحش ناچ گانوں
سے بچائے اور ان کی آمدورفت کی محفل اور دوست واحبا ب بہتر بنوائے ۔علماء
سے مربوط ہونے اور ان کے بیانات سے نصیحت حاصل کی طرف لگائے ۔ ان کاموں سے
شوہر میں تبدیلی پیدا ہوگی ، تمام معاملات میں برے کاموں سے بچے گااور اللہ
کا خوف کھائے گا۔
سوال(11) غسل جنابت، غسل حیض اور غسل نفاس کی دعا بتائیں ۔
جواب : غسل کا طریقہ جان لیں تو شروع اور بعد کی دعا بھی اچھے سے معلوم
ہوجائے گی ۔ پہلے غسل طہارت کی نیت کریں یعنی دل میں یہ خیال کریں کہ ہم
پاکی حاصل کرنے کے لئے غسل کررہے ہیں پھر بسم اللہ کہیں ، اس کے بعد نماز
کی طرح وضو کریں ،اس کے بعد پورے بد ن پر پانی بہاکر تمام اعضائے بدن کو
دھوئیں حتی کہ بالوں کی جڑاور بغل ہر جگہ پانی پہنچ جائے۔ غسل کے بعد حمام
میں ہیں تو باہر نکل کر وضو کے بعد کی دعا پڑھیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی
ذکر یا مخصوص دعا نہیں ہے ۔
سوال(12) اگر بچہ کی پیدائش کے وقت کوئی مرد نہ ہو تو کیا عورت نومولود کے
کان میں اذان دے سکتی ہے ؟
جواب : نماز کے واسطے عورت کے لئےاذان واقامت مشروع نہیں ہے لیکن اگر بچے
کی پیدائش کے وقت نومولو د کے کان میں کوئی اذان دینے والا مرد نہیں ہے تو
کوئی خاتون وضو کرکے یا بغیر وضو کے نومولود کے کان میں اذان دے سکتی ہے ۔
گوکہ عورت کے حق میں نماز کے لئے اذان واقامت مشروع نہیں ہے مگر یہاں اذان
نماز کے لئے نہیں بطور ذکر ہے ۔ اسی طرح معلمہ بچوں کو تعلیم دیتے وقت اذان
واقامت کی تعلیم دے سکتی ہے۔
سوال(13) فیشن والے کپڑوں کی تجارت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : تجارت میں اسلام نے ہمیں حرام ذرائع کو اپنانے سے منع کیا ہے اور
کوئی بھی معاملہ ہو گناہ اور برائی کے کاموں پر تعاون کرنے سے بھی منع کیا
ہے ۔ کپڑوں کی تجارت حلال ہے مگر وہ کپڑے جو معصیت کے لئے استعمال کئے
جائیں مثلا ناچ گانے وغیرہ ان کا بیچنا قطعا جائز نہیں ہے اور اسی طرح فیشن
کے نام پہ وہ عریاں لباس بیچنا بھی حرام ہے جس سے ستر پوشی نہیں ہوتی یا
کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ محض ایسے ہی کپڑوں اور لباس کی فروخت جائز ہے
جن کے بارے میں غالب گمان ہو کہ یہ جائز اور مباح طریقے سے استعمال کئے
جائیں گے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شرح العمدۃ میں لکھتے ہیں :"كل
لباس يغلب على الظن أن يستعان بلبسه على معصية فلا يجوز بيعه وخياطته لمن
يستعين به على المعصية والظلم"۔
ترجمہ: ہر وہ لباس جس كے متعلق غالب گمان ہو كہ اسے پہن كر گناہ اورمعصيت
کے کاموں ميں تعاون ليا جائيگا تو جو شخص اس سے معصيت اور ظلم ميں مدد اور
معاونت حاصل كرے اس كے ليے اسے فروخت كرنا اور اسے سلائى كر كے دينا جائز
نہيں۔
اگر غلطی سے ایسے کپڑے آگئے ہوں تو اسی جگہ واپس کردئے جائیں جہاں سے لائے
گئے ہوں اور اگر واپسی کا امکان نہ ہو توتوبہ کرتے ہوئے اس معصیت سے
چھٹکارا حاصل کرنے کی نیت سے دوسرے کفار تاجر کے ہاتھوں بیچ دے۔ بخاری
ومسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عمر کو ریشم کی قبا دی تو انہوں نے اسے پہن
لیا، جب آپ ﷺ نے انہیں وہ قبا پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لباس وہی
پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، میں نے تمہیں اسے پہننے کے
لئے نہیں بلکہ(بیچ کر) اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دیا تھا۔
سوال(14) بیوی رمضان کا روزہ قضا کررہی تھی شوہر نے روزہ کی حالت میں بیوی
سے جماع کرلیا ایسی صورت میں میاں بیوی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ قضا روزہ فرض کے حکم میں ہے اس لئے نہ شوہر کو اس سے منع کرنے کا
حق ہے اور نہ ہی بیوی کو اس معاملہ میں شوہر کی فرنبرداری کا فریضہ بنتا ہے
۔ اگر شوہر نے بیوی سے جبرا جماع کیا ہے تو بیوی بے قصورہے وہ اس روزہ کے
بدلے پھر سے قضا کرے گی اورجماع میں بیوی کی بھی رضامندی ہے تو میاں بیوی
دونوں توبہ کریں گے ۔ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
سوال(15) عورت ٹرین میں کس طرح نماز پڑھے میرا مطلب وضو ، حجاب اور قبلہ
وغیرہ کے کیا احکام ہوں گے ؟
جواب : لمبے سفر میں نماز کا وقت فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو عورت ومرد تمام
مسلمان پر واجب ہے کہ ٹرین میں ہی نماز ادا کریں لیکن معمولی دیر کے سفر
میں یا تو اول وقت میں نماز پڑھ کے ٹرین میں سوار ہو ں یا پھر اتر کرنماز
ادا کریں ۔ عورت جب ٹرین میں نماز کے لئے وضو کرے تو لوگوں کے سامنے وضو نہ
کرے بلکہ باتھ روم میں پانی لیکر وضو کرے اور باہر نکل کر وضو کی دعا پڑھے
اور قبلہ کی جو سمت غالب گمان میں ہونا معلوم ہو اسی سمت رخ کرے ، ذرا
ٹیرھا ہونے یا نماز میں ٹرین کے غیرقبلہ ہوجانےکا کوئی مسئلہ نہیں ہے ،
رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو کہا کہ مشرق ومغرب کے درمیان سارا حصہ قبلہ
ہے۔ پورے بدن کو سر سمیت پیروں تک چھپائے اور ڈبے میں اجنبی مرد ہو تو چہرہ
بھی چھپائے اور آواز پست رکھے نیز کھڑے ہونے کی سہولت نہ ہو تو بیٹھے بیٹھے
نماز ادا کرے ۔
|