آسمانوں سے فرشتے جو اُتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
امید فاضلی کے ساتھ علم نہیں کہ ایسا کیا ہوا ہوگا کہ انہیں یہ شعر کہنا
پڑا یا پھر ملکی سیاست کے مدوجزر و مستقبل بینی کی وجہ سے ’’سند‘‘ لکھ دی،
تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف حکومتی ترجمانوں کے
مطابق سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے بغاوت اور دہشت گردی کی دفعات کے
تحت مقدمات درج کرلیے ہیں۔ یہ علم نہیں کہ حکومت ’’رِٹ‘‘ قائم کرنا چاہتی
ہے یا سیاسی انتقام؟ کیونکہ 2018کے انتخابات میں تحریک لبیک کی وجہ سے ووٹ
بڑی تعداد میں تقسیم ہوئے اور حکمراں جماعت سمیت دونوں بڑی سیاسی جماعتوں
کو کئی یقینی نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک لبیک بطور سیاسی
جماعت رجسٹرڈ ہے، اس لیے انتخابات، جمہوری احتجاج اور پُرامن دھرنے اس کا
جمہوری حق ہے، لیکن بدقسمتی سے سیاست میں تشدد آگیا ہے۔ ایسے تماشے تو اہل
پاکستان کئی بار دیکھ چکے، کراچی کو تو آج بھی بطور مثال پیش کیا جاتا ہے،
نیز تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتیں بھی ان الزامات سے نہیں بچ سکتیں،
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں موٹروے پر اسلام آباد لاک ڈاؤن
کے لیے آنے والے قافلے اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان محاذ آرائی تاریخ کا
حصہ بن چکی۔ جب پُرجوش خطابات میں نواز حکومت کو للکارنا اور لسانی سیاست
پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام لیا گیا تھا۔ اُن مناظر کو دوبارہ نہ دیکھنے
کی حسرت ہے۔ اہل کراچی تو متشدد سیاست اور حکومت مخالف بیانات و تقاریر کے
جبری عادی بنادیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے اب کمبل چھوڑنے کو تیار نہیں
ہورہا۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بیشتر پی پی رہنماؤں نے بھی ریاست کے خلاف
اٹھنے کی کوشش کی، لیکن ’’پاکستان کھپے‘‘ کے وژن نے سندھ میں پُرتشدد
ہنگاموں کے باوجود ملکی یگانگی کو برقرار رکھا۔ بلوچستان میں حکومت کی رٹ
قائم کرنے کی کوششیں سب کے سامنے ہیں۔ کوئی چھ پوائنٹ دے یا چَھٹے ہوئے
نکات دے، بلوچستان اس وقت ملک دشمن عناصر کی نظروں میں بُری طرح کھٹک رہا
ہے، تاہم نام نہاد قوم پرستوں کی جانب سے ریاست کے خلاف بیانات قابل تشویش
ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا بھی کم و بیش یہی معاملہ رہا، جن کے جلسوں میں
پاکستان کا جھنڈا لے جانے کی اجازت نہیں تھی، اب وہ خود ملکی پارلیمنٹ میں
ہیں۔
تحریک لبیک کے جلسوں کی پذیرائی کرنے اور ان کے دھرنوں میں بیٹھنے کی خواہش
رکھنے والے اب اس کی دھرنا سیاست سے پریشان ہوگئے ہیں، کیونکہ تحریک انصاف
کا عظیم فلسفہ ’’یوٹرن‘‘ ہے، اس لیے وزیراعظم کے دورہ? چین کے دوران اسی
تحریک لبیک کے ساتھ حکومتی نمائندوں نے معاہدے کرلیے تھے۔ معاہدوں اور
فلسفہ یوٹرن کی رو سے اہم اداروں کے خلاف سخت بیانات کی ’’معافی‘‘ کو حکومت
نے قبول کرلیا تھا، لیکن پھر 25نومبر کو احتجاجی کال پر ’’حکومتی رٹ‘‘ بحال
رکھنے کے نام پر تحریک لبیک کے خادم حسین رضوی کو ’’مہمان‘‘ کہہ کر ایک
مہینے کے لیے نظربند کردیا گیا۔ پتا نہیں حکومت کو کب خیال آیا کہ بل گیٹس
نے افریقا میں ایک لاکھ چوزے بطور امداد دے کرغربت کے جلد خاتمے کا فارمولا
اپنایا تھا، اس لیے حکومت کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو چوزے نہیں بلکہ
مبینہ باغی اور دہشت گرد ہیں، لہٰذا سخت قانونی کارروائی کا ’’فیصلہ‘‘ کرتے
ہوئے مقدمات درج کرلیے، اب گرفتاری ہوگی یا نہیں، یا پھرمرغی پہلے آئی یا
انڈا۔ اس پر تیل کی دھار دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
حکومتی رٹ بحالی پر اب کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، کیونکہ یہاں کسی ریلوکٹے کی
بات نہیں بلکہ اُن بچھڑوں کی بات ہورہی ہے، جنہیں دودھ پلا کے بڑا کرنے کے
بجائے صرف دودھ کے حصول کے لیے ’’حلال‘‘ کردیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے بڑی
اچھی بات کی، اگر انہیں ’’حلال‘‘ نہ کیا جائے اور دودھ پلا کر بڑا ہونے دیا
جائے اور پھر بچھڑے (کٹے) کو بڑا ہونے کے بعد ’’حلال‘‘ کریں تو کافی فائدہ
پہنچ سکتا ہے۔ خصوصاً چمڑے کی صنعت اور ’’گوشت‘‘کی درآمدات سے زرمبادلہ میں
اضافہ یقینی ہے۔ ہمیں زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور بچھڑے کو دودھ پلاکر
بڑا کرنے کے بعد ’’حلال‘‘ کرنے سے حکومت کو زرمبادلہ مل سکتا ہے۔ اہم بات
یہ بھی ہے کہ تحفظ حقوق حیوانی حیات کے عالمی ادارے ’’ناراض‘‘بھی نہیں ہوں
گے۔
وزیراعظم نے کٹا اور پولٹری فارمنگ کی بات کی، اس کا سوشل میڈیا پر مذاق
بنانا مجھے پسند نہیں آیا، لیکن وزیراعظم کی عادت ’’لکھی‘‘ ہوئی تقریر
پڑھنے کی نہیں، وہ شاید مچھلی فارمنگ اور گدھوں کی کھالوں سمیت ترقی یافتہ
ممالک کو کچرا برآمد کرنے کی تجویز دینا بھول گئے۔ خصوصاً گدھوں کی قیمتوں
میں اِن کی کھالوں کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے، جس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر
زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کم ازکم عوام گدھوں، کتوں کا گوشت تو
کھانے سے بچ جائیں گے۔
خصوصاً کراچی کچرے کی صنعت میں خودکفیل ہوچکا ہے، کچرا تو اٹھایا نہیں
جاتا، تاہم اس کے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں
’’کچرا‘‘ ختم ہونے کی وجہ سے کئی صنعتیں بحران کا شکار ہیں۔ چین نے کچروں
کی اقسام بھی واضح کردی ہیں کہ ری سائیکلنگ کے لیے ان کی حکومت کن کن
’’کچروں‘‘ کو برآمد کی اجازت دے گی۔ ’’کچرا‘‘ واقعی بہت جمع ہوگیا ہے، اس
لیے راقم کا مشورہ ہے کہ کچرا سمندر برد کرکے زمینیں اور جیٹیاں بناکر قبضہ
مافیا کی سرکوبی کرنے کے ساتھ ’’کچرا صنعت‘‘ کو فروغ دیا جائے اور ’’کچرا‘‘
درآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جائے۔ ویسے راقم قطعاً آگاہ نہیں کہ
پاکستان سے کتنا ’’کچرا‘‘ باہر جاتا ہے۔ خیر بات شروع ہوئی تھی تحریک لبیک
سے اور بات پہنچ گئی کٹے، گدھوں، چوزوں اور کچروں پر۔ بقول شاعر نامعلوم۔۔۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
اگر وزیراعظم ’’لکھی‘‘ تقاریر پڑھنا شروع کردیں تو ایک تو بے ربط و اضافی و
غیر ضروری جملوں و طویل تقاریر سے ملک و قوم کا قیمتی وقت بچے گا، دوم جو
کہنا چاہتے ہیں اسے عوام اچھی طرح سمجھ سکیں گے، لیکن میری اس رائے سے
بیشتر دوستوں کو اعتراض ہے کہ ’’پھرہم سوشل میڈیا‘‘ میں کیا کریں گے۔
بہرحال حکومت جو چاہے کرے، لیکن خدارا اپنی بات پر ایک مرتبہ ’’ٹک‘‘ بھی
جائے، یہ ٹک ٹاک والی ایپلی کیشن نے کافی کنفیوژن پیدا کردی ہے کہ سامنے
کوئی ہوتا ہے اور پس پردہ کسی اور کی آواز۔
تُو آرہا ہے مگرسچ کو مانتا ہے تو آ |