یوگی جی کا راج دھرم

بلندشہر ضلع کے حالیہ تصادم میں یوگی سرکار اور انتظامیہ کا رویہ قابل ستائش ہے۔ انتخابی مہمات کے گرماگرم ماحول میں تشدد کی آگ کو بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھانا بہت آسان کام تھا لیکن ایسا کرنے سے انہوں نے گریز کیا۔ اتفاق سے اس سانحہ سے ایک روز قبل بلند شہر کے اندر تبلیغی جماعت کے عالمی اجتماع منعقد ہواتھا۔ ایسے میں جبکہ جماعتوں کے قافلے گھروں کو لوٹ رہے تھے سدرشن ٹی وی چینل نے گئو کشی کی اس واردات کو اجتماع سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی لیکن انتظامیہ نے فوراًاس ناپاک سازش کا پردہ فاش کردیا۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایک طرف تو سدرشن نیوزخودکو ہندو سماج کا ہمدرد و بہی خواہ کہتا ہے ۔ دوسری جانب اسی سماج کے دولوگوں کی موت پر اپنی دوکانداری چمکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ٹی وی چینل کے مالک سریش چوہان نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھاکر اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے ٹویٹ کیا ’’ گئو کشی کی مقامی لوگوں نے مخالفت کی اس کے بعد یہ تشدد بھڑکی‘‘۔

سدرشن چینل کے مالک نے بلند شہر میں ہو رہی لاٹھی چارج، فائرنگ، آگزنی اور موت پر تازہ اپ ڈیٹس دیکھتے رہنے کی تلقین کرنے کے بعد اسے اجتماع سے جوڑتے ہوئے لکھا ’’مقامی لوگوں نے چینل کو بتایا ہے کہ بلند شہر اجتماع کے وبال کے بعد کئی اسکولی بچے پھنسے ہیں، رو رہے ہیں، لوگ جنگ میں ہیں، گھروں کے دروازے بند کر لوگ ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔‘‘ اس موقع پربلند شہر پولس نے بروقت ٹویٹمیں لکھاکہ ’’برائے کرم جھوٹی خبر نہ پھیلائیں۔ اس واقعہ کا اجتماع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اجتماع امن و سکون سے اختتام پزیر ہوا ہے۔ یہ واقعہ اجتماع گاہ سے ۴۵ تا ۵۰ کلومیٹر دور پیش آیا ہے جسے کچھ فسادیوں نے انجام دیا ہے۔ اس تعلق سے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘ پولس کی اس وضاحت نے ایک ایسے ردعمل کا سدِ باب کردیا جو بہت نقصان دہ ہوسکتا تھا۔اس بروقت کارروائی کے لیے مقامی انتظامیہ کی پذیرائی ہونی چاہیے نیز چوہان پر فیک نیوز پھیلانے کے جرم میں کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ وہی شخص ہے جس پرسابق خاتون ملازم نے عصمت دری کا الزام لگایا تھااور اس کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔ یوگی جی کو اپنا راج دھرم نبھاتے ہوئےایسے لوگوں پر لگام کسنی ہوگی تاکہ صوبے میں امن و مان بحال رہ سکے۔

گائے کے نام پر فساد بھڑکانے کا حربہ بہت پرانا ہے لیکن اس بار یہ فرق واقع ہوا ہے کہ مشتعل ہجوم نے کسی مسلمان پر انفرادی حملہ کرنے یا کسی مسلم محلہ میں فساد مچانے کے بجائے ہائی وے جام کردیا۔ وہاں پر جب پولس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ انہیں سمجھانے پہنچے اورکارروائی کا یقین دلایا تو انہیں دوڑا کر قتل کردیا گیا۔ ان کا ایک ساتھی بھی نازک حالت کے اندر اسپتال میں بھرتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے دوست چھوڑنے آنے والا نوجوان سُمت بھی ہلاک ہوگیا جس کا مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ دونوں ہلاکتیں قابلِ مذمت ہیں۔ سُمت کی بابت پہلی خبر تو یہ آئی کہ وہ پولس کی گولی سے ہلاک ہوا ۔ اس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ مظاہرین کی سنگباری کا شکار ہوا۔ پتھر کے لگنے سے کسی کا زخمی ہونا تو سمجھ میں آتا لیکن موت ناقابلِ فہم ہے ممکن ہے وہ بھی مظاہرین کی گولی کا نشانہ بنا ہو۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی اس حقیقت کا پتہ چلے گا ۔

سبودھ اور سُنیت کے قتل کاتشویشناک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہجوم کی گولی سے مارے گئے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مظاہرین اپنے ساتھ اسلحہ لے کرآئے تھے ۔ ان کے حوصلے اس قدر بلند تھے کہ انہوں نے خوب جم کر توڑ پھوڑ کی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ سرکاری و نجی گاڑیوں کو جلانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پولس انسپکٹر پر گولی چلانے سے بھی نہیں چوکے ۔ وہ تو خیر گولی چلانے والوں کا تعلق مسلمانوں سے نہیں تھا ورنہ آئی ایس اور داعش تک سے اس کے تار جڑ جاتے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جس طرح سناتن سنستھا کو بھانڈا پھوڑنے والے ہیمنت کرکرے کو ممبئی دھماکوں کی آڑ میں راستے ہٹا دیا گیا اسی طرح دادری کے بساہڑا گاؤں میں گئو کشی کے نام پرمحمد اخلاق کے قتل معاملہ کے تفتیش کرنے والے انصاف پسند افسر سبودھ کمار سے بھی انتقام لے لیا گیا۔ یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو وہ تشویشناک معاملہ ہے۔ ان جانباز افسران کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا بحال کرنا ملک میں عدل و انصاف کے قیام کی ناگزیر ہے ضرورت ہے۔

سبودھ کمار سنگھ کے قتل ویڈیو سوشیل میڈیا میں آگئی ہے اور وہ اس قدر بھیانک ہے کہ اسے دیکھنا مشکل ہے۔ ان درندوں نے ایک باوردی پولس اہلکار کو گاڑی سے باہر کھینچا اور بالکل اس کے کنپٹی کے قریب گولی چلائی ۔یوگی جی نےسبودھ کمار سنگھ کے اہل خانہ کی خاطر۵۰ لاکھ مدد کے علاوہ خصوصی پنشن کا وعدہ کیا ہے نیز گھر کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت کی یقین دہانی بھی کی ہے۔سبودھ کمار کی تفتیش کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ یہ پتہ چلا سکے کہ پولس نے ان کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہی ایس آئی ٹی سُنیت کے قتل کی بھی تفتیش کرے۔ اس کے لیے مجسٹریٹ انکوائری کا فی نہیں ۔ وزیراعلیٰ نے سبودھ کمار کے حوالے سے جس ہمدردی اور تعاون کا یقین دلایا ویسا ہی معاملہ سُنیت کے ساتھ بھی ہونا چاہیے اس لیے کہ دونوں ایک ہی ظالم کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں ۔ہلاکت تو ہلاکت ہے وہ چاہے پولس افسر کی ہو یا عام شہری کی ہو۔ سُمیت کی موت کے بعداس کے والدین اور دیگر پسماندگان پر کیا گذر رہی ہوگی اس کا اندازہ ہر دردمند انسان کرسکتا ہے۔

یوگی جی کی پولس نے سبودھ کمار کے قتل کے الزام میں بجرنگ دل کے رہنما یوگیش راج کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہی وہ بدمعاش ہے جس نے گئوکشی کی رپورٹ لکھوائی تھی۔ پولس نے اس کے چار ساتھیوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ اس معاملے جن کے خلاف نامزد شکایت درج ہے ان میں بی جے پی یوا صدر شیکھر اگروال اور وی ایچ پی کے کارکن اوپیندر راگھو کا بھی نام شامل ہے ۔ اس معاملے میں یوگی سرکار مہاراشٹر کی کانگریس سرکار سے بھی آگے نکل گئی جس نے ہیمنت کرکرے کا معاملہ رفع دفع کردیا اور ان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوتاہی کی ۔ اس وقت اگر حکومت دلیری کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو سناتن سنستھا کے ہاتھوں کالبرگی سے گوری لنکیش جیسے لوگوں کا بہیمانہ قتل نہ ہوتا ۔

سبودھ کمار ایک پولس اہلکار کے بیٹے تھے وہ اپنے والد کی توقعات پرپورا اترے ۔ وہ خود بھی اپنے بیٹے ابھیشیک کی انہیں خطوط پر تربیت کررہے تھے۔ اپنے والد کی موت کے بعد ابھیشیک نے کہا میرے والد مجھے ایک اچھا شہری بنانا چاہتے تھے جو سماج میں مذہب کے نام پر تشدد نہ بھڑکائے ۔ آج ایک ہندو مسلم تنازع نے میرے والد کی جان لے لی ۔ کل کس کا باپ اپنی جان گنوائے گا ؟ابھیشیک معصوم بچہ ہے اس لیے نہیں جانتا کہ اس کے والد کی جان کسی ہندو مسلم تنازع میں نہیں گئی بلکہ زعفرانی سیاست کی نذر ہوئی ہے ۔ کل جب وہ اس حقیقت سے واقف ہوجائے گا تو ان فرقہ پرست فسطائیوں کو ضرور اپنے انجام سے دوچار کرے گا اور ملک بھر کے عدل پسند عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452558 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.