کراچی جسے فخر مشرق کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے بلا شبہ
آج دنیا کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے قلیل عرصے میں اس کی شاندارمعاشی
صنعتی اور ثقافتی ترقی قابل رشک ہے لیکن یہ ترقی کب کیسے اور کیونکر شروع
ہوئی اس کے پیچھے ایک مکمل تاریخ موجود ہے تاریخ شاہدہے کہ کراچی شہر کی
قدامت صدیوں پر نہیں بلکہ ہزاروں سال پر محیط ہے 1729میں جب کھرک بندرگاہ
جو کہ ٹھٹھہ کے قریب تھی ریت سے بھر گئی اور مچھواروں کی کشتیاں اس میں
پھنسنے لگیں تو بھوجومل نامی مچھوار قبیلے کے سردار نے اس وقت کے کولاچی کی
جانب ہجرت کی اوریہاں منوڑے کے ساحل پر اپنے قبیلے کے ساتھ پڑاؤ ڈال دیا
لیکن یہ کولاچی کی ابتدا ہرگز نہ تھی کیونکہ کراچی میں اس سے قبل بھی
مچھیرے آباد تھے اور ان کا پڑاؤ ماڑی پور کے علاقے میں خشکی پر تھا جس کی
تصدیق ماضی کے مورخ علی احمد بروہی نے بھی کی علی احمد بروہی اپنی تحقیق کی
روشنی میں کہتے ہیں کہ ماڑی پور کے قرب و جوار کے علاقے میں ایک تالاب واقع
تھا جس کے اطراف میں یہ مچھیرے آباد تھے اور اسی تالاب کی وجہ سے اسے
کولاچی کہا جاتا تھا ۔مورخ نے جس تالاب کا ذکر کیا وہ ایک بڑا تالاب تھا جس
کی حدود ویسٹ وہارف کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ٹاور تک کے علاقے تھے جہاں مچھیروں
کو شکار سمیت میٹھے پانی کی سہولیات میسر تھی اگر کچھ نہیں تھا تو وہ ایک
مندر تھا لہذا وہ مچھیرے جن کی اکثریت ہندؤں پر مشتمل تھی تین سو سال قبل
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نزدیک ایک ٹیلے جو کہ پانی سے باہر تھا ایک مندر کی
بنیاد رکھی ایک ایسے مندر کی بنیاد رکھی جسے عموما دریا کے نزدیک ہی بنایا
جاتا ہے اور جھنگ شاہی کے پتھروں سے ایک چھوٹا سا مندر بنا کر اس کا نام
دریا لال مندر رکھا اور وہاں پوجا پاٹ شروع کر دی دیکھتے دیکھتے اس مندر کی
مقبولیت میں اضافہ ہوا اور منوڑا سمیت دیگر ساحلی پٹی کے مچھیروں نے اسی
مندر میں آنا جانا شروع کر دیا اس مندر سے مچھیروں کی عقیدت کا یہ عالم تھا
کہ جب وہ شکار کے لیے اپنی کشتیاں لے کر نکلتے تو اس مندر پر حاضری ضرور
دیتے اور یہاں 24 گھنٹے جلنے والے چراغ میں تیل بھی ڈالتے تھے جبکہ تالپور
حکومت بھی مندر کے دیے کو روشن کرنے کے لیے ہر ماہ سات سیر تیل کا دان دیتی
تھی اس کے علاوہ بعد میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی بننے والی عمارت کے ٹرسٹی ہر
چند رائے داس بھی اس مندر کا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔اور پھر سمندر اور دریا
پیچھے کی جانب ہٹنے لگے اورویسٹ وہارف ٹاور ،کیماڑی ،کلفٹن ،گزری
،محمودآباد ،ویسٹ وہارف کے علاقے خشکی پر آ گئے ایک معروف محقق میجر ریورنی
نے یہ دعویٰ کیا کہ سمندر تین صدیوں کے دوران پچاس میل پیچھے چلا گیا ہے
بندر گاہ کے قر ب وجوار کے علاقے خشکی میں آجانے کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ
،کسٹم ہاؤس و دیگر عمارتوں کی تعمیرات شروع ہو گئی اور چھوٹا سا مندر ان
میں گم ہو گیا مچھیروں کے ہجرت کر جانے کے سبب مندر فعال نہیں رہا اور جب
پاکستان بنا تو اس وقت بھی یہ مسلسل بند ہی رہا اور پھر جب 1965 ء میں
بھارت پاکستان کی جنگ شروع ہوئی تو انتہا پسندوں نے مندر کو شدید نقصان
پہنچایا 1971ء اور پھر 1992میں بابری مسجد دہلی پر انتہا پسندوں کے حملے کے
بعد لوگوں نے اس مندر کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا جس سے یہ قدیم مندر
تباہ حالی کا شکار ہو گیا ۔ اور ہندو جو کہ اس علاقے سے کوچ کر چکے تھے خوف
کے مارے یہاں کا رخ بھی نہیں کرتے تھے ایسے میں ایڈلجی ڈنشا جوکہ سندھ اور
ہند کے معروف شخصیت تھے اور انہوں نے کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی ،لیڈی
ڈیفرن اسپتال سمیت لاتعداد سماجی کام کیے ان کے نام سے قائم ٹرسٹ کے ذمہ
داران نے جب مندر کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے 2015 میں بیس کاکھ روپے کی
خطیر رقم سے مندر کی مرمت تزئین و آرائش کا کام کیا اور بھارت کے شہر جے
پور سے دریا لال بھگوان کی چھ لاکھ روپے مورتی منگوا کر یہاں نصب کروائی
اور پھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے 13دسمبر 2015کو اس کا باقاعدہ
افتتاح کیا جس کے بعد چالیس فٹ لمبے اور چالیس ہی فٹ اونچے مندر کی رونقیں
بحال ہو گئیں اور لوگوں نے یہاں پوجا پاٹ شروع کر دی ہے ۔دریا لال مندر جس
کے اطراف کے علاقے پر کے ۔پی ۔ٹی نے قبضہ کر کے ایک طرف ٹرانسپورٹ کمپنی
اور دوسری طرف ایک چائے کے ہوٹل کو کرائے پر دے رکھا ہے اور جس کا کرایہ
ک۔پی۔ٹی ہی وصول کرتی ہے جس کے سبب مندر کے نظام کو چلانے کے لیے ما سوائے
بھگوان کے کوئی اور سہارا نہیں اور اس قدیم مندر جس کا شمار قدیم آثار میں
ہوتا ہے بہت زیادہ تبدیلیوں کے بعد ایک جدید مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے
مگر اس کے باوجود تا حال یہاں پوجا پاٹ کے لیے آنے والوں کی کمی ہے مگر
آئندہ دو سے چار مہینے میں اس میں اضافے کا امکان ہے۔
قدیم دریا لال مندر کے گروسوامی وجے مہاراج نے اس مندر کی قدامت کے حوالے
سے دعویٰ کیا کہ یہ مندر تین سو سال سے بھی پرانا ہے گو کہ اس سے قریب نیٹی
جیٹی کے پل کے نیچے مندر ضرور موجود ہیں مگر ان کی قدامت اتنی نہیں جتنی کے
اس مندر کی ہے انہوں نے کہا کہاس مندر کی قدامت جو کہ برحق ہے اس کے بارے
میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ریکارڈ میں باقاعدہ طور پر قدیم ترین پینٹنگ موجود
ہے جنہیں دیکھ کر کوئی بھی اس کی قدامت کا اندازہ لگا سکتا ہے انہوں نے کہا
کہ بار بار اس مندر پر حملے سے اس علاقے کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی
جا رہی تھی یہ علاقہ انتہائی تاریخی ہے اور ماضی میں یہ پورے کا پورا علاقہ
سمندر اور دریا کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا جس کی زندہ مثال دریا لال مندر کا
وجود ہے کیونکہ دریا لال مندر وہیں بنایا جاتا ہے جہاں سمندر اور دریا
موجود ہوتے ہیں لہذا اس بات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے مندر کے قریبی علاقے آج
کراچی پورٹ ٹرسٹ ،کسٹم ہاؤس ،ڈاک یارڈ ،شپ یارڈ ودیگر علاقے پانی کے اندر
ڈوبے ہوئے تھے ان کا کہنا تھا کہ مندر قدیم تاریخ ہے مگر اس کے باوجود اب
تک ہندو برادری کے سرکردہ افراد اور حکومت محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس
کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں کیا جا رہا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔
دریا لال مندر جو کہ انتہائی مخدوش حالت میں تھا جب ایڈلجی ڈنشا ٹرسٹ نے اس
کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا تو بالی ووڈ اور لولی ووڈ کی معروف
اداکارہ زیبا بختیار نے مندر پر رنگ وروغن کے لیے ایک کلر اسکیم دی جس کا
مندر کے تعمیر کے بعد خیال رکھا گیا اور مندر پر اسی انداز کا رنگ و روغن
کیا گیا ہے جو کہ زیبا بختیار کو پسند تھا ۔ |