جہانگیری اور شے ہے، آنکھیں خیرہ کر دینے والی
خانقاہیں بنا کر تو وہ بھی بیٹھے ہیں جن کے لئے طریقت تعویز، دھاگے اور
پیاز دم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔طریقت کا لازمی جُزو کیا ہے، ریاضت ،اے
صاحب علم و عرفاں، ریاضت۔
کوئی تو ہو جو ہسپانیہ کے شمال، مغرب اور جنوب میں پنپتے کاروباری حضرات
اور تاجروں کو ایک چھتری تلے اکھٹا کر لے۔یہ کام پاکستانی سفارت خانہ سے
بڑھ کر کون کر سکتا ہے؟ کوئی نہیں ،شاید کوئی نہیں۔ باسک صوبے، کاتالونیہ،
والینسیا اور اندلس میں سب بڑے کاروباریوں کو صرف پاکستان کے نام پہ اِس
بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ مادرِ وطن کی سفارتی ذرائع سے مالی معاونت
کریں گے۔ انفرادی نہیں اجتماعی معاونت۔ افراد کے ہاتھوں میں ملت کی تقدیر
ہوتی ہے مگر ملت اجتماع ہے۔ پاکستان کی مدد ملی جذبہ کے ساتھ۔ ظاہر ہے
پاکستان کو دو بڑے محاذوں پر مدد درکار ہے۔ اول زرمبادلہ کی صورت میں اور
ثانیاً سرمایہ کاری کی صورت میں جو بالخصوص اُن لوگوں کی طرف سے ہو جو
ہسپانوی سرمایہ داروں کو پاکستان لے کے جا سکیں ۔پاکستانی سفارت خانہ میڈرڈ
اور قونصل خانہ بارسلونا پہلی بار عوامی سطح پر کام کر رہا ہے اور ساتھ ہی
پاکستان کو ریستورانوں سے نکال کر جامعات تک لے کے جا رہا ہے۔ پاکستانیوں
کے مسائل حل ہو رہے ہیں جو لا ریب پاکستانیوں کا اعتماد اپنے اداروں پر
بڑھانے کا باعث تو ہے اور یہی رویہ زرمبادلہ کی ترسیل میں اضافے کا سبب بھی
ہے۔
بارسلونا آنے والے سیاح لا سگرادا فامیلیا (Sagrada familia, Basilica and
Expiatory Church of the Holy Family)، تبی دابو (Tibidabo Amusement Park)
کے بعد جہاں جاتے ہیں وہ ہے مونتسیرات (Montserrat، a multi-peaked
mountain)۔شاہراہ A2 کے خارجی راستے پرکویباتو (Collbató) واقع ہے۔ یہ ایک
چھوٹی سی خوبصورت میونسپلٹی ہے۔ شاہراہ کے دائیں طرف کوئی سو گز کے فاصلے
پر کلب ہے جہاں وسیع و عریض ٹینس کورٹس ہیں،باسکٹ بال کورٹس ہیں، پیڈل ٹینس
کورٹس ہیں۔ راہداری کی دیواریں پتھر کی ہیں جن میں کہیں کہیں کائی جمی ہے۔
ٹینس کورٹس میں ایک اشتہار جو سب سے نمایاں ہے وہ پالسن کا ہے۔ اِس وسیع و
عریض کلب کے تیس فیصد شئر پالسن (Palson) کے ہیں جو اِسی خارجی راست کے اُس
پار واقع ہے جو ہسپانیہ میں ایک پاکستانی کی چالیس سالہ محنت اور ریاضت کی
تاریخ اور منہ بولتا ثبوت ہے ۔ 1984ء میں قائم کی جانے والی ، گھریلو برقی
سامان اور دفاتر و کاروباری برقی آلات بنانے والی یہ کمپنی اپنے خوابوں کو
حقیقت کے رُوپ میں دیکھنے والے محترم چوہدری امانت علی وڑائچ کی ملکیت ہے۔
اب وہ کافی حد تک گوشہ نشین ہیں۔ تارک الدنیا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا، بس گوشہ نشین، جو اُن کی اپنی دُنیا ہے وہاں عافیت میں علی الصبح جاگ
کے ہر حال میں شام چھ بجے ورزش کے لئے کلب پہنچنے والے۔ حالاتِ حاضرہ پہ
گہری نظر، ایک ایک چیز اور پھر نکتہ کا تجزیہ، بندہ حیران ہوتا ہے کہ کیسے
بندہ تنہا خوش رہ لیتا ہے مگر بندگانِ خدا کے اپنے اسرار ہوتے ہیں اور اِس
بندہ کا کہنا یہ ہے کہ محنت کے علاوہ زندگی میں کامیابی کا کوئی راز نہیں۔
کہا، پاکستان اگر زیتون ہی کی کاشت پر توجہ دے۔دھیان برادرچوہدری کلیم
الدین وڑائچ کی طرف گیا جنھوں نے وڑائچ فارم واقع ٹاماوالی تحصیل خیر پُور،
بہاولپور میں پچاس زیتون کے پودوں سے سن 2011ء میں کام کا آغاز کیا اور اب
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد او ر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے طلبہ و
طالبات 120 ، ایکڑ پر لگے ہسپانوی علاقے سیویا (اشبیلیہ) کے زیتون پہ تحقیق
کی غرض سے آتے ہیں۔ پھر ایکڑوں پر پھیلے سیاہ، بھورے اور سبز ہسپانوی انگور
کے باغات ہیں۔ یہ انفرادی کاوش ہے جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی مگر ریاضت
درکار ہے اور ریاضت اِس گھرانے کا خاصہ ہے۔ کوئی چاہے تو ہسپانیہ میں
چوہدری کلیم الدین سے استفادہ حاصل سکتا ہے۔ اُن کے بڑے بھائی چوہدری نعیم
الدین وڑائچ جو گزشتہ الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے قومی
اسمبلی کی نشت پرحصہ لے چُکے ہیں، سارا گھرانہ ہی تحریک انصاف کا
ہے۔انفرادی سطح پہ کامیاب کاوش کو حکومتی سطح پر لے کے جانے میں ممد و
معاون ہو سکتے ہیں۔
چوہدری امانت علی وڑائچ کی آواز واپس کیفیٹریا میں کھینچ لائی۔ زیتُون ہے،
شمسی توانائی ہے، پاکستان ان پر ہی ہسپانیہ کے ساتھ تجارت کر لے تو اتنا
بڑا سرمایہ دستیاب ہو سکتا ہے کہ کسی اور ملک کی ضرورت ہی نہیں۔ نپے تُلے
انداز میں،اردو، پنجابی، انگریزی لفظوں کوادا کرتے کہیں کہیں ہسپانوی ضرب
الامثال کا تڑکہ لگاتے بات کا لُطف دوبالا کرتے رہے۔ہسپانیہ کے وسطی صوبے
آراگون کے شہر تیروُایل (Teruel ) میں کوئلے کی کانوں سے کام شروع کر کے،
سونے، برقی اور آلاتِ جراحی کے سیلز مین اور سیلز مینیجر کے بعد پالسن کے
قیام اور اب تک چالیس سال کی ریاضت کے بعد پانچ سو پچاس ملین یوروز
(550.000.000) کی سالانہ تجارت اور کاروبار کرنے والی کمپنی کے مالک گوآج
کل خاموش ہیں مگر وطنِ عزیز کے لئے اُن کے جذبات اور خدمات گرانقدر
ہیں۔پالسن، بارسلونا کے مشہور پہاڑ مونتسیرات کی گود میں پچاس ہزار مربع
میٹراحاطے اورنوے ہزار مربع میٹر زاضافی اراضی پر محیط چھوٹے برقی گھریلو
اور دفاتر کے آلات اور سامان بنانے والی کمپنی ہے جس کے ستر سے زائد بین
الاقوامی برانڈز کے ساتھ تجارتی روابط ہیں اور سو کے قریب اپنی مصنوعات
ہیں۔ کاروبار یورپ، افریقہ، چین، ہانگ کانگ ، دبئی اور سعودی عرب سمیت
چالیس ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔پانچ سو میٹر شمال میں اور پانچ سو میٹر مغرب
میں پھیلے دفتر میں بیٹھے اُن تمام البمز کودیکھا جو کسی ماہر تصویر بنانے
والے کے کام کا شہکار تھے۔ تصاویر میں اُس وقت کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا
گیلانی اور اُن کی ٹیم تھی۔ پاکستانی سفارت خانہ کی تصاویر، پاکستان
قونصلیٹ بارسلونا کے عملے کی تصاویر، ہسپانوی تجار اور کاروباری بڑوں کی
تصاویر اور وہ معاہدے تھے جوپاکستان کے اعزازی کمرشل قونصل کے طور پر
اُنہوں نے کروائے جن کی بدولت ایک سال میں پاکستانی مصنوعات کا حجم صرف ایل
کورتے انگلیس کی طرف سے ہسپانیہ کے لئے 5,5 ملین یورو تک پہنچا جو آج کہیں
زیادہ ہے مگر اُتنا نہیں جتنا ہونا چاہیئے تھا یا ہو سکتا ہے۔نظام کی عدم
موجودگی ذمہ داری کو بوجھ بنا دیتی ہے، بوجھ ریاضت پر بھی بوجھ ہی رہتا ہے،
متعلقہ حکام کی طرف سے ریاضت کی عدم دستیابی کی وجہ سے خلا پیدا ہوا ، آج
منڈی پر بنگلہ دیش قابض ہے۔چوہدری امانت علی وڑائچ، آج بھی پُر امید ہیں کہ
تھوڑی سی محنت کر کے انڈی ٹیکس (Inditex) جو ہسپانوی فیشن اور کپڑے کی
مصنوعات میں دُنیا بھر میں صفِ اول کا گروپ ہے جس کی شاخوں میں زارا،
بریشکا، سترادیواریوس شامل ہیں، کو پاکستان کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
آج وطن عزیز کو بیرون ملک پاکستانیوں کے زرِ مبادلہ اورپاکستان میں سرمایہ
کاری کی اشد ضرورت ہے۔ اُن پاکستانیوں کی ضرورت ہے جو سرمایہ کار بھی ساتھ
لائیں اور جن کا منافع پاکستان کو ہو۔یہ کام چھوٹے پیمانہ پر خالد شہباز
چوہان کر چُکے ہیں۔ وہ سن 2015ء میں کاتالونیہ کے کاروباری حضرات کے ایک
گرو پ کے ساتھ کراچی ایکسپو میں شرکت کر چُکے ہیں۔ اُن سے پہلے راجہ محمد
عارف ہیں جو بارہا پاکستانی مصنوعات مثلاًسنگِ مرمر اور پتھر ہسپانیہ میں
متعارف کروا چُکے ہیں مگر ضرورت اُن اوامر کی ہے جو ناپید ہیں۔
ہسپانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں ایک تازہ مثال اُن پاکستانیوں کی ہے جو
بارسلونا ٹیکسی سیکٹرسے وابستہ ہیں۔بارسلونا ٹیکسی سیکٹر میں موجود
پاکستانیوں نے 83 ہزار یوروز جمع کر کے ہسپانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے ہرا
ول دستے کی خدمت سر انجام دی ہے۔یہ پاکستانی مزدُور کا جذبہ ہے جو مادرِ
وطن کے لئے ہر وقت ہر لمحہ جوان رہتا ہے۔ دوسری مثال، حال ہی میں خوراک اور
متعلقہ مصنوعات بنانے والی ایک چین ـکوندِس کو ہسپانیہ کے معروف کاروباری
چوہدری امانت علی مہر نے ہسپانیہ سے پاکستان لے جا کے دوبارہ سے اُس بند
دروازے پہ دستک دی ہے۔ کوندِس جو سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے یا جس سرمایہ
کاری کا اُس نے عندیہ دیا ہے وہ ایک ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے اور یہ کاوش
اُن سرمایہ کاروں کی وجہ سے ہے جو چوہدری امانت مہر کے ساتھ ان کی کاوشوں
کی وجہ سے پاکستان تشریف لے گئے۔
پالسن کے وئر ہاوس اور سٹور کے وسیع ،سادہ، صاف ستھرے اور سُرخ سنگ سے بنے
فرش پہ چلتے جہاں ساری برقی مصنوعات سلیقے سے سجی تھیں اور جو دیکھنے میں
صرف نمائش کے لئے رکھے لگتے تھے، یہ جان کر اور حیرت ہوئی کہ کوئی بھی
پاکستانی جا کر بازار سے کہیں کم نرخ پر بہترین اور معیاری برقی سامان خرید
سکتا ہے، چاہے دفتر کے لئے ہو یا گھر کے لئے۔ جو پاکستانی کاروبار کرنا
چاہیں اُن کی مکمل رہنمائی مہیا کی جاتی ہے۔ آج پالسن فرنچائز مکمل نقشہ
اور کاروباری رہنمائی کے ساتھ مہیا کرنے میں پیش پیش ہے اوریہ سہولت صرف
پاکستانیوں کو حاصل ہے۔ 2011ء میں پاکستانیوں کو چھوٹے کاروبار چلانے کی
طرف رغبت دلانے والے اور ہسپانوی فرم ایل کورتے انگلیس (El Corte Inglés
S.A) جو کہ دنیا میں چوتھے نمبر پر اور ہسپانیہ کی سب سے بڑی ڈیپارٹمنٹ
گروپس کی چین ہے، کو پاکستان کے ساتھ تجارت پہ راضی کرنے والے چوہدری امانت
علی وڑائچ آج بھی وطن کے لئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں جس کی پاکستان کو
ضرورت ہے مگر مکرّر عرض ہے کہ ان کاروباری اور تجار حضرات کی ہر سفارتی اور
حکومتی سطح پر سرپرستی کی ضرورت ہے۔ایک سوال گو سرسری تھا مگر جواب یہ تھا،
دنیا کے تمام ممالک میں سفارت خانے اپنے مالی اہداف طے کریں۔ ہر سال جوہدف
وہ طے کریں گے، ہسپانیہ میں اُنہیں پُورا کرنے کے لئے وہ خُود کافی ہوں گے۔ |