پاکستان کا سب سے بڑا شہر، دنیا کا ساتواں بڑا میٹرو
پولیٹن، آبادی کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر، ملک کی معاشی شہ رگ لگ بھگ 70
فیصد ٹیکس دینے والا، سی پورٹ، ہاربر، انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پڑھے لکھے لوگ،
قائد کا شہر، لیکن حالت نہ پوچھئے، جتنا بڑا شہر اتنے ہی مسائل، گٹر ابلیں
تو نکاسی والا کوئی نہیں، گڑھوں کو بھرنے والا کوئی نہیں، بجلی روٹھے تو
منانے والا کوئی نہیں۔ ٹریفک جام ہو تو کنٹرول کرنیوالے غائب، فٹ پاتھوں کو
بچانے والا کوئی نہیں، غیرقانونی بل بورڈز، پارکنگ مافیا، پانی کا بحران
اور ان سب سے لڑتے کراچی والے حیران پریشان۔شہری اور صوبائی حکومتوں نے
ملبہ ایک دوسرے پر ڈالا، ایک طرف سے فنڈز کی کمی کا رونا رویا گیا تو دوسری
طرف ڈیزائن پر اعتراض اٹھادیا گیا اور پھر جس کو فنڈ نہیں ملے اس نے بوریا
بستر سمیٹ لیا، پراجیکٹ پر کام کرنیوالے کام لپیٹ کر چلتے بنے، کراچی والے
گولیمار کے مکین بیچ بھنور میں پھنس گئے، اب جس کو جانا ہے انہی پتھروں پر
چل کر جانا ہے۔دفتر جانے والے، دکان سجانے والے سب بے آسرا ہیں، اسی
پراجیکٹ کے سر سے گزرتا گرین لائن بس منصوبہ شروع بھی ہوگیا، لگ بھگ آدھا
کام بھی نمٹالیا گیا لیکن گولیمار فلائی اوور/انڈر پاس کا کچھ نہ ہوسکا۔یہ
ایک منصوبے کا حال نہیں، عرصہ دراز پہلے سنا تھا کوئی جام صادق پل ہے جس پر
گڑھا پڑگیا ہے، پھر صحافت میں انٹری ہوئی اور دوبارہ سنا جام صادق پل میں
گڑھا پڑگیا ہے اور اب یہ حال ہے ہر تین چار ماہ بعد ایک خبر آتی ہے، جام
صادق پل پر گڑھا پڑگیا ہے۔ خدا کی پناہ یہ گڑھا ہے یا شیطان کی آنت، کم
بخت بھرتا ہی نہیں۔شارع فیصل کہتے ہیں کسی زمانے میں کراچی کی شان ہوتی تھی،
شاید اب یہ سڑک اندھوں میں کانی رانی بنی بیٹھی ہے لیکن عالم دیکھئے، اسی
سڑک پر ایسا پل بنایا گیا جس پر سگنل نصب تھے، پھر اس کے 2 ٹریک بند بھی
کردیے گئے، ڈرگ روڈ کے قریب ریلوے کی پٹری گاڑی والوں کا امتحان لیتی ہے،
ٹیپو سلطان روڈ کے سنگم پر سروس روڈ کھوجاتا ہے اور پھر دماغ چکرا کر رہ
جاتا ہے۔ اتنے بڑے شہر میں بغیر کسی پلاننگ کے سڑکیں بنتی ہیں، اُدھڑتی ہیں
اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ جن کو اختیار ملنا ہے، وہ اختیار کی جنگ
لڑرہے ہیں، جن کے پاس اختیار ہے، وہ بے اختیاری اور بے قراری کی ملی جلی
کیفیت میں گم ہیں، جن کے پاس اختیار ہونا چاہئے، وہ دانتوں تلے انگلی داب
کر بیٹھے ہیں۔
|