اب چلتے ہیں قاہرہ کی مسجدوں میں‌ - - -

یہ کہا نام نہاد ٹورسٹ گائیڈ نے جو اہرام مصر کے باہر خود ہی چپک گیا تھا - اس کا کہنا تھا کہ باقی جو گائیڈ پھر رہے ہیں وہ سب ایویں ہی ہیں جب کہ اس نے اس کا ڈپلومہ حاصل کیا ہوا ہے اور جیب سے مڑا تڑا ایک کاغذ بھی نکال کر دکھا یا تھا - یہ 1975-76 کے زمانے کی بات ہےجب میں کسی تربیت اور ٹریننگ کے سلسلے میں مصر گیا ہوا تھا
خیر بڑی مشکل سے اس سے جان چھڑائی - ایک قہوہ خانےمیں بیٹھ کر چائے کا کپ پیا - اور خود ہی سیر کرنے کی ٹھانی - اس سے پہلے اپنے ایک مصری ساتھی سے سب معلومات لے آیا تھا اس لئے پریشانی نہیں تھی

براعظم افریقہ کے بالکل کونےمیں واقع ملک مصر اپنے تاریخی مقامات بالخصوص قبل مسیح عہد فراعنہ کے زمانے کے مقامات کے سبب پوری دنیا میں مشہور ہے - لیکن اسلامی ممالک سے جو سیاح آتے ہیں ان کے لئے مذہب اسلام کے لحاظ سے بھی کئی تاریخی مقامات ہیں - قاہرہ شہر تو اپنی قدیم مساجد اور اسلامی برگزیدہ مقدس ہستیوں کے مزارات کے سبب قدیم مساجد کا شہر کہلاتا ہے -
تو صاحبو جب مساجد کے بارے میں یہ سفر نامہ لکھنے لگا تو اندازہ لگایا کہ سب کا احوال لکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں - بلکہ جوئے شیر لانا آسان ہے یہ مشکل - جوئے شیر کہتے ہیں دودھ کی اس نہر کو جو فرہاد نے ایک وادی سے دوسری وادی تک کھودی تھی -
چنانچہ چند اہم مساجد کا ہی تذکرہ کروں گا -

یہ ہے مسجد محمد علی -- یہ مسجد ترکی کے دور خلافت کے دوران میں 1830 -1850 کو بنائی گئی تھی -
مسجد میں داخل ہوا تو اس کی دنیاوی جاہ و حشمت ' شان و شوکت اور کروفر دیکھ کر میں دنگ ہی رہ گیا -نقش و نگار بنے ہوئے خوبصورت ستون - حسین و دلکش مہرابیں کہ نظر پڑ جائے تو فرد مبہوت ہی ہو جائے اور نظر ہی نہ ہٹے-- میرے سامنے اونچے اونچے فانوس اپنی پوری آن بان کے ساتھ موجود تھے اور مسجد کی عظمت کو بڑھا رہے تھے - مہرابوں میں لگے ہوئے رنگین شیشے اور ان میں سے چھن کر آتی ہوئی روشنی --ایسے لگتا تھا کہ پھول کھلے ہوئے ہیں- رنگ بھرے - نیلے ‘ پیلے ‘ سرخ ‘ گلابی ‘ - کیا شان تھی - نگاہ پڑے تو جم ہی جائے - ہلے ہی نہیں - سب سے بڑے گنبد کی اونچائی اگر اس کے بالکل نیچے
کھڑے ہو کر دیکھیں تو 18 منزلوں سے کم نہیں - باہر مینار کی بلندی 28 منزلوں کے برابر تھی - میں نے سوچا کہ یہ سب کسی کو مرعوب نہ کر سکیں تو اسے اپنی ذہنی حالت کا معائنہ کرانا چاہئے کہ اس میں چیزوں سے متاثر ہونے کی صلاحیت کم تو نہیں -
اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا کہ ایک خاص مقام سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی یا میں ہی اس کے دبدبے کے زیر اثر آکر رک گیا تھا اور وہیں بیٹھ گیا تھا - میں بیٹھا ہوا ہی تھا کہ سیاحوں کا ایک وفد پہنچا - ان کا تعلق غالباً یورپی ملک سے تھا اور وہ مسلمان نہیں تھے - ان کے ساتھ خاتوں گائیڈ تھی - دھوپ کا چشمہ ایک سنہری سی زنجیر کےساتھ سینے پر لٹکا ہوا تھا - اس نے ایک چھوٹی سی نکر پہنی ہوئی تھی جو رانوں سے کافی اونچی تھی - وہ گائیڈ جب بھی بولتی تو سب سے پہلے مسکراہٹ کے پھول ہونٹوں پرلاتی پھر میٹھی سی
آواز گلے سے نکلتی تھی - میں ان کی باتیں سننے قریب ہو گیا - وہ مسجد کی اہمیت کے بارے میں بتا رہی تھی کہ مسجد کا قبلہ عربوں میں اتحاد کی علامت ہے - سب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں - سیاح مسجد کے ستونوں سے کافی متاثر نظر آرہے تھے - اونچی نکر والی گائیڈ نے پھر مسکراہٹ کے پھول بکھیرے اور کہا کہ ان ستونوں کے ساتھ سینہ لگا کر کھڑے ہو جائیں اور ستون کو اپنے اپنے بازؤں کے حلقے میں لائیں - اگر یہ بازؤں کے حلقے میں آجائیں تو کسی قسم کی خواہش کا اظہار کیا جائے تو وہ پوری ہو جاتی ہے - اس کے بعد مسجد میں یہ کھیل شروع ہو گیا - مجھے پسند نہیں آیا - نہ یہ نہ ہی اتحاد کے بارے میں اس کی تشریح - میں نے اپنے کان اور نظریں وہاں سے دور کرلیں -

میں باہر نکل آیا - اب میری منزل مسجد عمرو بن العاص تھی اور امام شافعی کا مزار مبارک تھا -

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ کی ایک نامور شخصیت ہیں۔ آپ ہی کی سپہ سالاری میں مصر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا اور وہ اسلامی مملکت کا حصہ بنا - اپ کو دو مرتبہ مصر کا گورنر بنایا گیا - مسجد عمرو بن العاص 642ء میں عین اس مقام پر بنائی گئی جہاں سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنا خیمہ نصب کیا تھا۔ ۔ یہ مصر کی سے قدیم مسجد ہے لیکن یہ بہت تغیر و تبدل سے گزری ہے اور اسے کئی بار تعمیر کیا گیا ہے - یہ اپنی ابتدائی صورت میں موجود نہیں - - یہاں میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مسجد میں کھڑا ہو کر پیشاب کرنے والے ٹائلٹ دیکھے۔ یہ بات جناب مبشر نذیر نے بھی اپنے سفر نامے میں لکھی ہے - مصر سے واپسی کے بہت عرصے بعد جب جنرل ضیاءالحق شہید نے پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں سے کھڑے ہو کر پیشاب کر نے کے انتظامات ختم کرا دئے تو مجھے بہت حیرت ہوئی تھی -

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وہ شخصیت ہیں جن کی علمی تحقیقات کے نتیجے میں اسلامی قانون کا شافعی مسلک وجود میں آیا - - ان کی مزار قدیم قاہرہ میں تھی - یہ ایسے ہی علاقے تھے جیسے پاکستان کے شہروں ( کوئٹہ ' حیدرآباد ' کراچی' سکھر 'لاہور 'گجرات 'پشاور ) کے قدیم علاقےہیں - مزار کے اندر کا ماحول بھی پاکستانی مزاروں جیسا تھا - آپ فلسطین میں پیدا ہوئے تھے -

روایات کے مطابق یہیں پر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار بھی ہے - آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں اور واقعہ کربلا کے وقت اپنے بھائی امام حسین کے ہمراہ تھیں‌- آپ شہادت امام حسین کے بعد اہل بیت کے قافلے کی سالار بنیں -اپنے خطبات سے حق کا پرچار کیا اور یزید کے باطل و فاسق کردار کو دنیا کے سامنے عیاں کیا -

قریب ہی میٹرو ٹرین کے اسٹیشن کا نام بھی انہی کے نام پر "سیدہ زینب " رکھا گیا ہے

قاہرہ کی سب سے قدیم مسجد جو اپنی ابتدائی حالت میں موجود ہے کا نام مسجد طولون ہے - یہ گیارہ سو سال قبل 876 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی - اس میں مینار پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں باہر کی طرف بنی ہوئی ہیں -
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354869 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More