حکومت کوئی بھی ہو جب فیصلہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا
آتا ہے تو ساری کاروباری سرگرمیاں پستی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آٹھ اکتوبر دو
ہزار اٹھارہ کو کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ ایک فیصلہ کرنے کی دیر تھی۔
لمحوں میں روپیا زمین بوس ہوا اور ڈالر فلک بوس۔ دیکھا جائے تو انٹر بینک
مارکیٹ میں 137 روپے تک ایک ڈالرکا پہنچنا معمولی بات نہیں تھی۔ اس کے بعد
تھک ہار کر شام تک ڈالر 133 روپے کا ہوچلا تھا اوراس کا نتیجہ روپے کی قدر
کم ہونے سے بیرونی قرضوں میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ ڈالر صاحب کی
وجہ سے ہی سونے کی قیمت فی تولہ 1700 روپے بڑھ گئی جبکہ جلد ہی بارہ سو سے
زیادہ درآمدی اشیاء پندرہ سے بیس فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔
اوپن مارکیٹ کا یہ حال رہا کہ قابل احترام ڈالر صاحب ڈھونڈنے سے بھی نظر نہ
آئے۔ اسٹیٹ بینک کے جاری علامیہ کے مطابق حالیہ اضافہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی
وجہ سے ہوا ہے۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو
زرمبادلہ کے ذخائر16 ارب ڈالر تھے جو اب کم ہو کر 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 900 ارب روپے کا اضافہ
دیکھنے میں آیا ہے جو امریکی ڈالر میں 8 ارب ڈالر بنتے ہیں۔
اب راستہ ایک ہی ہے وہ ہے آئی ایم ایف کا رستہ۔ حکومت آئی ایم ایف سے 9 سے
10 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کرسکتی ہے اور رہا قرضہ تو وہ اسی
صورت میں مل سکتا ہے جب حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کرے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ جلد یا بدیر ڈالر 150 روپے کی حد بھی عبور کر سکتا ہے۔
گویا مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آنے کو تیار ہے۔ بس ڈھکن ہٹانے کی دیر ہے۔
حکومت کے سامنے ابھی کچھ اور راستے بھی ہیں جن پر چل کر وہ معاشی بحران سے
نکل سکتی ہے۔ اسٹیل مل کی فوری فروخت سے ایک خطیررقم حکومت کے خزانے میں
آسکتی ہے۔ اسی طرح پی آئی اے کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں دیا جا سکتا
ہے۔ ایک اور کام بھی ہو سکتا ہے جو حکومت کو فوری طور پر کردینا ہوگا وہ ہے
سرکاری اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی مد میں دیئے جانے والے اربوں
روپے جن میں کمی کر کے اسے کروڑوں میں لانا بلکہ پینشن ختم کرنا ضروری
ہوگا۔ آخر پینشن بھی عوام کے ٹیکسوں سے ہی دی جاتی ہے۔ تمام سرکاری اداروں
میں اضافی افراد کی فہرست بنائی جائے اور جلد سے جلد نجی اداروں کی طرح کم
افراد سے کام لیا جائے۔ حکومت کو یہ سب کرنا ہی ہوگا۔
شپنگ اینڈ پورٹ میں سیکڑوں ملازمین اضافی تعینات کئے گئے۔ انہیں بھی فوری
طور پر فارغ کر دیا جائے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی میں اضافی عملے کی
فہرست بنائی جائے۔ ان اداروں میں اضافی عملے کوگولڈن ہینڈ شیک دیا جا سکتا
ہے۔ سرکاری میڈیا کو نجی اداروں کی طرح ہی چلایا جائے۔ میرٹ پر لوگوں کو
بھرتی کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک سے لے کر تمام اداروں میں عملے کی غیر ضروری
مراعات ختم کردینا بھی ضروری ہے۔ ریاستی اداروں میں نوکری کرنے والے عوام
کے ٹیکسوں پر بھلا عیاشی کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔
سرکاری یونیورسٹیاں اکثر مالی بحران میں ہی مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔
یونیورسٹیوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بھی ملکی خزانے پر اثر پڑرہا ہے۔
مستقل اساتذہ دوپہر ایک بجے کے بعد نظر نہیں آتے جبکہ یونیورسٹیوں کا اصل
کام تو تحقیق کام کو آگے بڑھانا ہوتا ہے ورنہ ایک کالج اور یونیورسٹی میں
اور کیا فرق ہے۔ جنرل یونیورسٹیاں صرف بے روزگاری کی فیکٹریاں بنی ہوئی
ہیں۔ ملک میں جنرل یونیوسٹیاں کم کر کے میڈیکل، انجینئرنگ اورٹیکنیکل
یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔
بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات فوری کم کئے جائیں۔ انہیں 800 سی سی کی
گاڑیاں دی جائیں تا کہ پیٹرول کی بھی بچت ہو۔ چھوٹی گاڑیاں سب افسروں کو
دیں چاہئے صوبے کا چیف سیکریٹری ہی کیوں نہ ہو۔ سرکاری ملازمین کی تعداد
نصف کر دینا وقت کا تقاضا بھی ہے اور معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ بھی۔
ملک میں روزگار لانے کیلئے چائنا کی گاڑیوں کے کارخانے لگائیں جائیں تا کہ
گاڑیوں کو باہر سے منگوانے میں خرچ ہونے والے ڈالروں کی بچت ہو سکے۔ اسی
طرح چائنا کے موبائل فون کے کارخانے فوری طور پر لگوائیں تا کہ ملک کے
قیمتی زرمبادلہ کی بچت ممکن ہو۔ چھوٹی گاڑیوں کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ میں
استعمال ہونے والی بڑی گاڑیوں کے کارخانے بھی لگنا ضروری ہیں ورنہ اسی طرح
ڈالر مہنگا اور روپیا سستا رہے گا۔ حکومت ان امور پر توجہ دے گی تو ہی ڈالر
سستا اور روپیا مہنگا ہو سکے گا توسوچئے گا ضرور
|