کم ہی سلطنتیں ایسی رہی ہیں جنہوں نے محکوم عوام کو غلام
بنانے اور ان کا استحصال کرنے کی خاطر اس طرح کی اصطلاحات کا سہارا لیا ہے۔
رومی سلطنت نے امن و قانون کے الفاظ کاسہارالے کراپنی استعماریت
کیلئےجوازپیداکیا۔برطانیہ نے لبرلزم اورترقی کاسہارالیا۔روس نے کمیونزم
اورسوشلزم کوبہانہ بنایااوراب امریکی جمہوریت،آزادی اوریونی پولرپاورکی
برقراری کا نام استعمال کررہے ہیں۔ حقیقت یقیناًمختلف ہے۔لاطینی
امریکا،مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے علاقوں میں فروغِ جمہوریت کے امریکی دعوؤں
سے لوگ بخوبی آگاہ ہیں۔ستمبر2001ء کے بعد سے جمہوریت پر امریکا کی تازہ
تاکید امریکی نصیحت کا وہ پہلو ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ
امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا سے مسلمانوں کی نفرت کا اہم سبب
اسرائیل ہے تاہم دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک میں ایسی حکومتیں مسلط
ہیں جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اصل وظیفہ حیات امریکی
مفادات کا تحفظ ہے۔ اس سوال کا کہ وہ امریکا سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ امریکی
مبصرین کے پاس جواب یہ ہے کہ ’’مسلمان حاسد ہیں، اس لیے کہ امریکا میں
جمہوریت ہے اور ان کے یہاں نہیں ہے،،۔ حالانکہ انہیں یہ کہنا چاہیے کہ ’’اس
لیے کہ امریکا مغرب نواز آمروں کو تحفظ دیتا ہے،،۔ انہیں اس کا الزام
مسلمانوں اور اسلام پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ برسوں سے مسلم ممالک میں سیاست
میں عوام کی شمولیت کاراستہ روکنے کے بعد اور جابر حکومتوں کی اس شرط پر
حوصلہ افزائی، کہ وہ مغربی مفادات کی حفاظت کریں گی، کے بعد بھی امریکا
ظالم حکومتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کوجمہوریت کے چیمپئن کے طور پر پیش
کرتا ہے۔ اس کاپہلاہدف وہ حکومتیں ہیں جواسے عقیدت کے پھول نچھاورکرنے سے
انکاری ہیں،طالبان اورعراق توپہلے ہی اس کی جارحیت کانشانہ بن چکے اوراب
پاکستان اورایران(جوکہ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ جمہوری ملک ہے) ہدف پر
ہیں لیکن امریکا کے دوست ممالک بھی جمہوریت کے حوالے سے اس کے دباؤمیں ہیں۔
اس طریقے سے امریکا یہ خیال کرتا ہے کہ وہ مغرب دشمن احساسات کا قلع قمع کر
دے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک مسلم ممالک میں
جمہوریت کے نہ ہونے پر مسلمانوں کی کیوں توہین کرتے ہیں؟ وہ ہمیں اپنے ملک
میں جمہوریت کے قیام کیلئےکیوں ہمیشہ اکساتی ہیں؟ کیا ان کا یہ خیال ہے کہ
ہم ایک غیرمہذب قوم ہیں جو ایک وحشی تہذیب کی حامل ہے؟
درحقیقت وہ جس جمہوریت پر ہم سے عمل کروانا چاہتے ہیں، اس میں اور عقیدہ کی
اسیری میں ایک ربط ہے۔ یعنی یہ ربط ہے اس جمہوریت اور ایمان و مذہب کی
جدائی والے معاشرے کے مابین،جس پروہ ہمیں عامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کاعمل
ہی ایک حد تک ان کی جمہوریت کوواضح کردے گااوریہ ظاہر کرے گا کہ دنیا کو
جمہوری بنانے کے پیچھے ان کا مقصد کیا ہے؟ نیز مغرب کی جانب سے جمہوریت کے
قیام کی جواس وقت کو شکستیں ہورہی ہیں،اس کے نظری اورعملی مضمرات
کیاہیں؟اسلام میں جمہوریت کا یہ مفہوم ہے کہ ہر شخص کو خلیفۃ اﷲہونے کی بنا
پر حقوق اور اختیارات حاصل ہیں اور اس لحاظ سے تمام افراد برابر ہیں۔ بطورِ
اصطلاح خلافت کا استعمال ایک اسلامی سیاسی نظام کی وضاحت کیلئےبہ کثرت کیا
جاتا رہا ہے، جس کی بنیاد شہنشاہیت پر رہی ہے۔ جبکہ خلافت کا حقیقی تصور
صحیح معنی میں ہر ایک مسلمان کو اس کی انسانی حیثیت میں بااختیار ہونے اور
اس کی عزت و توقیر کیے جانے کا حق دیتا ہے۔ خلافت کا تصور اس امر کی وضاحت
کرتا ہے کہ اسلام کس طرح عام انسانوں کو بااختیار بناتا ہے اور کس طرح یہ
حکومت کو بھی کسی خصوصی حق سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں دیتا،سوائے ان
حقوق کے جو اسے سیاسی برادری کی جانب تفویض کیے گئے ہوں۔ Hobbesian Concept
میں ریاست کی ضروریات اور ترجیہات کو مدنیت کے شرط کے طور پر جن باتوں کو
قبول کیا گیا ہے وہ اسلامی تناظر سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ہاں! ریاست کی تشکیل
ایک تاریخی عمل ہے جبکہ انسانی برادری پہلے وجود میں آئی۔ کسی بھی حکومت کو
یہ حق نہیں کہ وہ اپنے شہری کو اس کے حقوق و اختیارات سے محروم کر دے۔
ریاستی امور کی نگرانی کیلئےکسی بھی حکومت کی تشکیل افراد کی مرضی سے تشکیل
پائے گی۔ ریاست کے اختیارات دراصل افراد کے اختیارات کی توسیع ہے جو اسے ان
کی جانب سے تفویض کیے گئے ہیں۔ لہٰذا حکومت کی تشکیل میں ان کی رائے کو
فیصلہ کن ہونا چاہیے اور اس حکومت کو خود اپنے عوام کی مرضی اور خواہشات کا
آئینہ دار ہونا چاہیے۔ جو گروہ بھی عوام کا اعتماد حاصل کر لے وہ خلافت کے
فرائض ان کی جانب سے سیاسی نمائندوں کی صورت میں انجام دے گا لیکن جب کوئی
شخص (مرد / عورت) اس اعتماد سے محروم ہوجائے تواسے اپنے مخصوص منصب سے
سبکدوش ہوناہوگااوراپنے اقدامات اورفیصلوں کیلئے اسے جوابدہ ہوناہوگا۔اس
لئے یہ کہناکہ اسلام کا سیاسی نظام جمہوریت کی ایک شکل ہے،ہرگز درست نہیں۔
جمہوریت کی اساس بہرحال سیکولرنظام پرمبنی ہے جیسا کہ عصری سیاسی لٹریچر
میں عام طور سے جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ لہٰذاجوچیز اسلام کو
مغربی جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ موخر الذکر کی بنیاد عوامی
حاکمیت پر ہے جبکہ اول الذکر کا انحصار قرآن کی رہنمائی میں عوامی خلافت پر
ہے جو مذہبی فریضہ میں برابری کی سطح پرعوام کی خدمت میں مضمر ہے اورریاست
کاسربراہ دنیامیں ریاست کے عوام اورآخرت میں اللہ کے ہاں جوابدہ ہے
اورقانون صرف خالق کاہوگاجبکہ مغربی جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندے
ہرقسم کی قانون سازی کیلئے آزادہیں جس کی واضح مثال امریکااورمغربی جمہوریت
میں نافذایسے شرمناک قوانین بھی ہیں جن پروہ خودنجی محافل میں شرمندگی
کااظہارکرتے ہیں۔اسلام میں حاکمیتِ اعلیٰ اﷲ کا حق ہے اور عوام اس کے خلیفہ
اور نمائندے ہیں۔ جو قوانینﷲ کی جانب سے رسولؐ کے ذریعہ شریعت کی شکل میں
دیے گئے ہیں، وہ آئینی اصول تصور کیے جائیں گے جن کی خلاف ورزی ہرگزنہیں
ہوسکتی۔ |