بھارت میں ہندو انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔عام انتخابات
قریب آتے ہی مودی کی زیر سرپرستی شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔مسلمانوں کی طرح سکھ
، عیسائی بھی انکے مظالم اور فرقہ پرستی سے تنگ آچکے ہیں۔ مودی حکومت کی
زیر سرپرستی یہ فرقہ پرست کسی صورت میں بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر
کرنے کیحق میں نہیں ۔ یہاں تک کہ دونوں ممالک کے درمیان کھیل کود یا کسی
کلچرل سر گرمی بھی ان سے دیکھی نہیں جاسکتی۔ ان کی سیاسی فکر اور تعصب سے
کھیل، ثقافت، ادب ہر چیز مثاثر ہے۔گزشتہ برسوں میں غلام علی کے کنسرٹ،
خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی، پی سی بی کے سابق سربراہ شہریار یار خان
کی بھارتی کرکٹ بورڈ حکام سے بات چیت غرض ہر شعبہ پر یہ فرقہ پرست جنونی
وار کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا یہی
موقع غنیمت نظر آ رہا ہے۔ کرتار پور راہداری بھی ان کے لئے قابل قبول
نہیں۔بھارت میں سکھ ان جنونیوں کے خلاف زوردار مظاہرے کرچکے ہیں۔ ان کا
نعرہ ہے کہ بھارتی پنجاب کو خالصتان بنائیں گے۔ وہ ان کے چنگل سے آزادی
چاہتے ہیں۔ یہ آزادی انہیں کب اور کیسے ملے گی۔ اس بارے کچھ کہنا قبل از
وقت ہو گا۔مگر ہندو انتہا پسندوں کو سکھ نعرہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنے
کا شاید اب زیادہ موقع میسر نہ آئے۔
امرتسر میں سکھوؤں کی مقدس کتاب ’’ گرو گرنتھ صاحب ‘‘کی ہندو انتہا پسندوں
نے مسلسل بے حرمتی کی۔ اس میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
بلکہ ان کی سرپرستی کی گئی۔ اسی طرح جیسے بابری مسجد شہید کرنے والوں کی
سرپرستی ہی نہیں کی گئی۔ بلکہ بھارت میں اس ایشو پر آج تک سیاست کی جا رہی
ہے۔ کل بھی ایسا ہی ہوا۔ مودی بھی اسی سیاست کی پیداوار ہیں۔ مودی نے سخت
گیر ایڈوانی تک کو مسلم دشمنی میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ اقلیتوں کی
مخالفت کو اپنی سیاست کے لئے استعمال لا رہے ہیں۔ سکھ برادری ان کے تعصب
اور مظالم کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ایک ساتھ تمام اقلیتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف گائے کو لا کھڑا کیا گیا ہے اور سکھوؤں کے خلاف بھی نئی
پلاننگہوئی۔ اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ لوگ گولڈن ٹمپل پر حملے کو ابھی
تک نہیں بھولے۔ یہی سکھوؤں کی سب سے بڑی عبادت گاہ تھی۔ جسے تباہ کیا گیا۔
اس پر فوج کشی کی گئی۔ آپریشن بلیو سٹار ہوا۔ اس پر سکھوؤں نے ردعمل دکھایا
تو پورے بھارت میں ہزراوں سکھ بے دردی سے مار ڈالے گئے۔ ان کی تحریک کو
طاقت سے ختم کیا گیا۔ مگر یہ سب سکھ آزاد وطن کی تڑپ کو ختم نہ کر سکے۔
انہیں جب بھی موقع ملا، یہ دوبارہ منظم اور سرگرم ہوئے۔ پاکستان نے بھارت
سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش میں خالصتان تحریک کا ساتھ نہ دیا۔الٹا
بھارت کے ساتھ حد سے بڑھ کر تعاون کیا۔ جس کے ازالے کا وقت کبھی نہ آیا۔ اب
کرتار پور راہداری ہو سکتا ہے اس کا کچھ ازالہ کرے۔
سکھ مقبوضہ کشمیر میں بھی مظاہرے کر تے رہے ہیں۔ وہ کشمیریوں کی آزادی اور
پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا تے رہے۔ بھارتی مظالم کی مذمت کی۔ اپنے لئے
ایک الگ آزاد ملک خالصتان کا مطالبہکیا۔ بھارت کے زیر قبضہ پنجاب میں
سکھوؤں کی اکثریت ہے۔سکھ اس پنجاب کو خالصتان بنانا چاہتے ہیں۔آزاد اور خود
مختار۔ ان کے اس مطالبے کو ہمیشہ سیاست کی نذر کیا گیا۔ لیکن سکھوؤں کا
بھارت میں رہنا ہر گزرتے وقت کے ساتھ انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔ ان کی عبادت
گاہیں غیر محفوظ ہیں۔ چند برس قبل ان کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کے
تقریباً ایک سو اوراق پہاڑ دیئے گئے۔ بھارتی پنجاب کے فرید کوٹ ضلع میں یہ
افسوسناک واقع رونما ہوا۔ جبکہ یہاں سکھوؤں کی اکثریت آباد ہے۔ بلکہ لاہور
دہلی کے درمیان چلنے والی بس سروس صدائے سرحد بھی اسی علاقے سے گزرتی ہے۔
ان کے مظاہروں سے یہ سروس بھی متاثر ہوئی۔ اس بس سروس کو کہیں دوسری طرف سے
امرتسر پہنچایا جاتا ہے۔
خالصتان کے بارے کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور
راجھستان کے کچھ علاقوں کو ملا کر بنے گا۔ شروع میں جرنیل سنگھ بھنڈراں
والے خالصتان تحریک کے بڑے لیڈر تھے۔ جنہیں آپریشن بلیو سٹار کے دوران
بھارتی فوج نے بے دردی سے قتل کر دیا۔
جب بھارتی وزیرا عظم مودی جب نیو یارک میں تھے۔ ان کے خلاف اقوام متحدہ کے
ہیڈ کوارٹر کے باہر سکھوؤں نے مظاہرہ کیا۔ خالصتان زندہ باد کے نعرے لگائے۔
سیکڑوں سکھوؤں نے مطالبہ کیا کہ بھارت سکھوؤں کے خلاف مظالم بند کرے اور
2020میں خالصتان کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے۔ عالمی برادری سے ریفرنڈم کی
حمایت کا مطالبہ کیا گیا۔ یورپ میں ہزاروں سکھ رہتے ہیں۔ وہ شروع سے
خالصتان تحریک کی مدد کرتے ہیں۔ وہی مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ بھارت یورپی
ممالک سے یہ فنڈنگ بند کرانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ یہ سکھ گروپ دنیا بھر
میں بھارتی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ فرینکفرٹ میں سکھوؤں
نے جب مظاہرہ کیا تو مسلمانوں نے بھی اظہار یک جہتی کے طور پر اس میں شرکت
کی۔ یہ ایشو بھارت نے جرمن حکومت کے ساتھ اٹھایا۔ یورپ میں پر امن احتجاج
سے کسی کو روکنا غیر قانونی ہے۔ اس لئے جرمنی کی حکومت بھارت کے ساتھ تعاون
میں معذرت کے سوا کچھ نہ کر سکی۔
سکھوؤں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی اور اسے پھاڑ کر سڑکوں پر پھینکنے والے
ہندوؤں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ ہندو فرقہ پرست
سکھوؤں کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ یہ مودی کی حکومت میں دنیا بھر کے سکھوؤں
کا صاف پیغام تھا کہ یہاں اقلیتوں کو طاقت سے کچل دیا جائے گا۔ یہاں ان کے
کوئی حقوق نہیں۔ بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن جاؤ۔ لیکن سکھ ،خالصتان
تحریک سے اپنے لئے آزاد وطن کا مطالبہ دوہرا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ
سکھوؤں کا قتل عام بند کر کے بھارت ریفرنڈم کرائے ۔ جس میں خالصتان کے لئے
سکھ آزادی سے اپنی رائے دیں۔ لیکن بھارت ایک بار پھر پر امن احتجاج کو کسی
خاطر میں نہ لاتے ہوئے سکھوؤں پر مظالم اور گرو گرنتھ صاحب اور گردواروں کی
بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ریاستی سرپرستی میں ہندو فرقہ پرست
یہ کام کر رہے ہیں۔بھارت پیار اور مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتا۔ وہ اقلیتوں
کی خواہشات اور جذبات کا احترام ضروری نہیں سمجھتا۔اس لئے کسی ریفرنڈم کی
امید بر آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔جس کے باعث سکھوؤں کو دوسرے آپشنز
آزمانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ گورسادپور کرتار پور راہداری کے بارے میں
بھی ہندو انتہا پسند پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ مگر سکھ ازم کے پیروکار ہندو
دہشتگردی کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ اب ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ میں کھلونا نہ
بننے کا عزم کر رہے ہیں۔ بلکہ خالصتان زندہ باد گروپوں کی سرپرستی کر رہے
ہیں۔ |