شیبا اعجاز
ایک وقت تھا کہ جب بچوں کو رنگین چشمے دلایے جاتے تھے یعنی جس رنگ کا چشمہ
ہوتا اسی رنگ کی دنیا نظر آتی تھی۔ آج یہ کام سیاسی وابستگی نے لے لیا ہے،
جو جس کے ساتھ جڑ گیا اسی کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ اپنے لیڈر کو عقل کل مان
کر اس کی ہر اچھی بری بات کی حمایت کی جارہی ہوتی ہے۔ اسے مسند خاص پہ بٹھا
دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہم جو کررہے ہیں صحیح کررہے ہیں، یہ ہی ملک کے
مفاد میں ہے باقی سب غلط ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اب اس کے لیے چاہے کتنی ہی بے تکی تاویلیں دینی پڑیں گزیز نہیں کرتے ادھر
ادھر بات گماکر الزام تراشی پر آجاتے ہیں۔ آج لوگوں نے اپنی سیاسی پارٹی کو
اپنی عزت نفس کا معاملہ بنالیا ہے۔ چھوٹی سی بات ہو یا معمولی اختلاف، ذرا
کی ذرا میں بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور بعض اوقات تو رشتہ داریاں
اور دوستیاں تک داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذرا دیر میں
شرافت کا لبادہ اتار پھینکتے ہیں حالانکہ اگر اس وقت وہ اپنی وابستگی کا
رنگین چشمہ اتار دیں تو اصل حقیقت واضح ہوجائے اور یوں صحیح بات کو تسلیم
کرنا نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کی پارٹی کے لیے بھی مفید ثابت ہوجائے۔
ہمارا دین ہمیں ہمیشہ سچ بات کہنے کی تلقین کرتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ
من حیث القوم ہمیں ایک دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا،
لوگوں کو چاہیے کہ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر صحیح بات کریں تنقید برائے
تنقید نہ کریں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں درست فیصلہ کریں۔ ہماری مثبت
تنقید قائدین سے درست فیصلے کر وائے گی جو نہ صرف ملک کے لیے بلکہ ہماری
آنے والی نسلوں کے لیے سودمند ثابت ہوں گے۔
اس وقت ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور دشمنان اسلام نے ہمارے خلاف ہر
طرح کے محاذ کھول رکھے ہیں ان حالات میں خدارا عقل کے ناخن لیں آنکھیں
کھولی اور سچ بولیں۔ یہ ملک اسلام کے نام پہ بنا ہے اور مسلمان ہونے کے
ناتے ہمیں سیاسی وابستگی سے ہٹ کر ایک قوم بن کر فیصلے کرنے ہوں گے۔۔۔
’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘
|