صوبہ پنجاب میں کروڑوں درخت لگانے کی نئی تجویز

پاکستان کے سب سے بڑے اور ھریالی سے بھرپور پنجاب بھر میں ضلعی حکومتوں، فارم ٹو مارکیٹ پراجیکٹ، صوبائی محکمہ شاہرات، نیشنل ہائی وے سمیت دیگر سڑکیں جو حکومت پنجاب کی ملکیت ہیں اور ان کے اردگرد کی اراضی بھی حکومت پنجاب ہی کی ملکیت ہے ان سڑکوں کی لمبائی ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر سے زائد ہے اور ان میں سے 80 ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ سڑکیں جو کہ پختہ اور کچی ہیں ایسے علاقوں سے گزرتی ہیں جن کے اطراف میں تمام زمینیں نہ صرف زیر کاشت ہیں بلکہ ان کے آبپاشی کے ذرائع بھی موجود ہیں اور اگر حکومت اس 80 ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں کے دونوں طرف کی سرکاری زمینیں جو کہ سڑکوں اور پرائیویٹ زرعی اراضی کے درمیان واقع ہیں مقامی زمینداروں سے شراکت داری کر کے اُن کو اس اراضی پر درخت لگانے کی پیشکش کرے تو پانچ سال بعد آدھے درخت حکومت کو مل جائیں اور باقی آدھے کاشت کاروںاور دیکھ بھال کرنے والوں کو مل جائیں ، ہر سال 20 فیصد درخت کاٹنے کی اجازت دی جائے اور ساتھ ہی بیس فیصد درخت مزید لگا دیئے جائیں تو پانچ سال میں پنجاب بھر میں کروڑوں درخت تیار ہو جائیں گے اور پھر تسلسل کے ساتھ تیار ہوتے رہیں گے۔

اس پراجیکٹ کے حوالے سے میں نے جنگلات کے ماہرین سے جو معلومات لیں اُن کے مطابق ایک کلومیٹر سڑک کے دونوں کناروں پر 10فٹ کے فاصلے پر ایک درخت لگایا جائے اور ہر طرف درختوں کی دو دو قطاریں بنائی جائیں تو دونوں اطراف میں درختوں کی چار قطاریں بنتی ہیں اور اس حساب سے 1200 درخت فی کلومیٹر لگائے جا سکتے ہےں۔ اَب ذرا صوبے بھر کی 80 ہزار کلومیٹر سڑکوں کو سامنے رکھ کر حساب کیا جائے تو 9 کروڑ 60 لاکھ درخت بنتے ہیں اور اس طرح ایشیا کے سب سے بڑے مصنوعی جنگل چھانگا مانگا جس کا رقبہ 12 ہزار 560 ایکڑ ہے سے چھ گنا زیادہ درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ چھانگا مانگا کے جنگل کو اگر درختوں سے بھر بھی دیا جائے تو یہاں ڈیڑھ کروڑ درخت لگ سکتے ہیں جبکہ سڑکوں کے کناروں کی اراضی جو سالہا سال سے غیر آباد ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین طاقت کا پورا خزانہ ذخیرہ کئے ہوئے ہے میں ساڑھے 9کروڑ درخت صرف پانچ سال میں تیار ہو سکتے ہیں۔

اَب ذرا س سے حاصل ہونے والی آمدن کا حساب لگایا جائے تو پانچ سال بعد ان درختوں کی مالیت پنجاب کے دو سال کے بجٹ کی برابر ہو جائے گی۔ اس وقت ملک بھر میں درختوں کی قلت کی وجہ سے پلائی ووڈ سمیت لکڑی کی دیگر مصنوعات بنانے والے کارخانے زبوں حالی کا شکار ہیں اور اس سے صرف پانچ سال میں پاکستان ملکی ضروریات پوری کرکے پلائی ووڈ اور لکڑی کی دیگر مصنوعات ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ جنگلات کے ماہرین سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سفیدے اور پاپولر کے درخت پانچ سال میں کٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور پانچ سال کا درخت پندرہ سے 1500 سے 2000 روپے میں فروخت ہوتا ہے اس حساب سے سڑکوں کے کنارے اُگائے جانے والے ان درختوں کی مالیت 2 کھرب روپے بنتی ہے جو کہ پنجاب کے تقریبا 782 کروڑ کے رواں سال کے بجٹ کا چوتھائی بنتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سفیدے کے درخت کے بارے بعض غلط فہمیاں ہیں کہ وہ زیادہ پانی پیتے ہیں۔ ماہرینِ جنگلات کے مطابق سفیدے کے درخت کلراٹھی زمین کے لیے انمول تحفہ ہیں اور زیادہ پانی کے حوالے سے بات بھی حقیقت سے دُور ہے۔

ماہرین کے مطابق ایک اوسط درجے کا درخت ماحول میں 20ائیرکنڈیشنڈز کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے اور اس حساب سے درخت پنجاب میں 19 ارب ائیرکنڈیشنڈ کے برابر ٹھنڈک پیدا کریں گے، جس سے ٹمپریچر میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کم کرنے میں بھی مدد ملے گی اور شاید اس وقت پنجاب میں ایک کروڑ ائیرکنڈیشنڈ بھی نہ ہوں جو ایک کمرہ کو ٹھنڈا کرتے ہیں مگر اردگرد کی فضا کو اتنا ہی گرم کر دیتے ہیں اور اوپر سے توانائی کا بحران اس سے بڑا ایشو۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ درختوں کی وجہ سے سڑکوں کے کنارے جنہیں ٹیکنیکل زبان میں ”برم“ کہا جاتا ہے مضبوط ہوں گے جس سے سڑکوں کی عمر میں اضافہ ہو گا۔

رہا سوال اخراجات کا تو اس پر حکومت پنجاب کا کچھ بھی خرچ نہیں آتا۔ بس ترغیب اور زمینداروں سے قابلِ قبول معاہدے۔ میں امید کرتا ھوں کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت جو پاکستان میں درخت لگانے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کررہی ھے اور اسکا زیادہ فوکس صوبہ خیبرپختونخواہ ھے یہاں سے پوعے پاکستان بالخصوص پنجاب میں بھی ترجیحی طور پر پھیلایا جائے اور اگر وزیراعظم پاکستان وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جنہوں کو اس تجویز عمل درآمد کا حکم دیں تو یہ کسی صورت سرخ فیتے کی نذر نہیں ہو گا۔

ماضی میں اس حوالے سے آگاہ کرنا ضروری ھے کہ 1998ءمیں سابق ڈپٹی کمشنر ملتان سیف اللہ چٹھہ کی زیرصدارت ضلعی ترقیاتی کمیٹی کا اجلاس جاری تھا۔اجلاس میں حافظ اقبال خاکوانی، مولوی سلطان عالم سمیت متعدد اراکین اسمبلی موجود تھے۔ مجھ سے بھی کمیٹی روم میں مشورہ مانگا گیا۔ میں نے کہا کہ ملتان کی پہچان مزاروں، خانقاہوں اور سوہن حلوہ کے علاوہ میٹھے آم اور کپاس سے بھی ہے مگر آپ سارا شہر پھر لیں کہیں بھی ان خصوصیات کا احساس نہیں ہوتا۔ ملتان ائیرپورٹ سے شہر میں داخل ہونے والے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کو شہر میں کئی دن گزارنے کے بعد بھی علم نہیں سکے گا کہ جنوبی پنجاب کے اس مرکزی شہر کی پہچان کیاہے۔ میں نے تجویز دی کہ ملتان کی کسی ایک سڑک کو Mango روڈ قرار دے کر اس کے اطراف میں آموں کے درخت لگائے جائیں اور ائیرپورٹ چوک میں کپاس کے مصنوعی پودے لگائے جائیں جس میں کپاس کھلی ہوئی نظر آئے۔

اس اجلاس میں موجود سب نے میری تجویز پر مثبت ردِ عمل ظاہر کیا اور یہ تجاویز میٹنگ کے منٹس کا حصہ بن گئیں اور کام بھی شروع ہو گیا۔ تقریباً ایک سال بعد جب ابدالی روڈ پر بجلی کے کھمبوں کے ساتھ میں نے پلاسٹک کے آم نصب ہوتے دیکھے۔ معلومات لیں تو پتہ چلا کہ اس وقت ملتان کے ڈپٹی کمشنر اور حج کرپش کے موجودہ سرخیل میجر شکیل نے پلاسٹک کے آموں کے یہ قمقمے بیس ہزار روپے فی کس کے حساب سے بنوائے جو چند ماہ میں بجھ گئے پھر ٹوٹنے کے بعدغائب بھی ہو گئے۔ ڈی جی ایم ڈی اے جناب ممتاز قریشی کو بھی ایک مرتبہ تجویز دی کہ آپ کے زیرانتظام رہائشی کالونیوں میں جو بھی گھر کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ لینے آئے اس پر پابندی لگا دیں کہ وہ گھر کے باہر دو درخت لگانے کا سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ لائے۔ تجویز پسند کی گئی حکم جاری ہو گیا مگر عملدرآمد صرف 10 فیصد ہوا البتہ ایم ڈی اے کے اہلکاروں کو کمائی کا ایک اور ذریعہ مل گیا اس کے باوجود ایم ڈی اے کی سکیموں میں بکائن اور دیگر درخت نظر آنے لگے۔

اب چونکہ نئے ہاکستان کے نعرے کیساتھ تحریک انصاف کا دور ہے اور مجھے اُمید ہے کہ اب کوئی بیوروکریٹ اس تجویز کا حلیہ نہیں بگاڑ سکے گا اور مکمل نہ سہی جزوی ہی سہی عمل ضرور ہو گا۔۔ یااللہ میری اس اُمید کو ٹوٹنے نہ دینا اور ہم سب کو درخت لگانے کے صدقہ جاریہ کا حصہ بنا دینا ۔(آمین)
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334635 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More