*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ انسان اللّٰہ
تعالیٰ کا ایک عظیم منصوبہ ہے، پروجیکٹ ہے۔ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اس
پروجیکٹ کو خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے روکنا جرم ہے۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ انسان کو ایک نطفے
سے بناکر ماں کے پیٹ سے لیکر دنیا میں آخری سانس تک مختلف ذرائع سے رزق
دیتا ہے، تو اس کا مطلب تھا کہ رزق دینے والا اللّٰہ ہے، زیادہ آبادی سے
پریشان نہ ہو، وہی رزق دیتا ہے، اور بہتر دیتا ہے۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ انصاف کی اہمیت حکمرانی سے بڑھ کر
ہے، اور چیف جسٹس کو انصاف کی اہمیت بتائی، تو اس کا مطلب تھا کہ منصف کا
کام انصاف دلانا ہے، آبادی گھٹانا نہیں۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے بادشاہ کا قصہ سنایا کہ کس طرح اس کی خراب
نیت کی وجہ سے مالی کے باغ کے انار کا رس کم نکلا، تو اس کا مطلب تھا کہ
آبادی بڑھنے سے وسائل کم نہیں ہو جاتے، مگر حکمران کی نیت کی وجہ سے ان میں
کمی آتی ہے۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے ریاستِ مدینہ کا ذکر چھیڑا، تو اس کا مطلب
تھا کہ فلاحی ریاست میں انسانوں کی بھلائی کا سوچا جاتا ہے، اور اسلامی
ریاستِ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے، آبادی کم نہیں کی جاتی۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ ابراھیم علیہ سلام نے امن، معیشت
اور علم کی دعا مانگی، تو اس کا مطلب تھا کہ پاکستان کے مسائل یہی تین ہیں،
زیادہ آبادی نہیں۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ پاکستانیوں کو علم کی ضرورت ہے،
پلاننگ یعنی منصوبہ بندی کی نہیں، تو اس کا مطلب تھا کہ علم حاصل کرنے سے
آبادی ملک کے فائدے کیلئے استعمال ہوگی، اس وجہ سے آبادی کو کم کرنے سے
بہتر ہے کہ لوگوں کو علم و تعلیم دی جائے۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ شکر ادا کرنا چاہیئے کہ ہمارے جج
وہ کام بھی کر رہے ہیں جو ان کی ذمے داری نہیں ہے، تو اس کا مطلب تھا کہ
ججوں کو انصاف کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیئے، خاندانی منصوبہ بندی ان کی
ذمے داری نہیں۔*
*جب مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ عمران خان پہلا حکمران ہے جس نے
ریاستِ مدینہ کا تصور پیش کیا، عملی جامہ تو اللّٰہ پہناتا ہے، انسان تو
صرف نیت کرتا ہے، تو اس کا مطلب تھا کہ عمران خان نے نیت کی ہے، اب وہ
مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست پر توجہ دے، آبادی کی فکر چھوڑے، لوگوں کو رزق
اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے۔*
|